• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

جوڈیشل کمپلیکس میں توڑ پھوڑ کرنے پر پی ٹی آئی کے 316 کارکن گرفتار ہیں، اسلام آباد پولیس

شائع March 22, 2023
پولیس نے بتایا تھا کہ 12 گاڑیوں سمیت 20 موٹر سائیکلیں نذر آتش کی گئیں—فوٹو: رائٹرز
پولیس نے بتایا تھا کہ 12 گاڑیوں سمیت 20 موٹر سائیکلیں نذر آتش کی گئیں—فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد پولیس نے کہا ہے کہ فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس کے باہر 18 مارچ کو مبینہ طور پر توڑ پھوڑ اور پولیس پر حملہ کرنے والے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 316 کارکنوں کا گرفتار کرلیا گیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں اسلام آباد پولیس نے کہا کہ ’پی ٹی آئی مظاہرین کی اشتعال انگیزی، جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ اور پولیس پر حملوں پر اسلام آباد کیپیٹل پولیس نے مختلف کارروائیاں کیں‘۔

بیان میں کہا گیا کہ ’اب تک 316 ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور مزید گرفتاریوں کے لیے پولیس کی ٹیمیں چھاپے مار رہی ہیں اور واقعے میں ملوث تمام ملزمان کی کیمروں کی مدد سے شناخت کا عمل بھی جاری ہے‘۔

وفاقی دارالحکومت کی پولیس نے بتایا کہ ’پرتشدد واقعات میں گرفتار افراد کی اطلاع دیگر اضلاع کو بھی دی جارہی ہے تاکہ دیگر اضلاع میں مطلوب افراد ان کے حوالے کیے جا سکیں‘۔

پولیس نے کہا کہ ’پرتشدد کارروائیوں میں ملوث سرکاری ملازمین کی اطلاع ان کے متعلقہ محکموں کو بھیجی جارہی تاکہ محکمانہ کارروائی بھی عمل میں لائی جائے‘۔

بیان میں کہا گیا کہ ’تمام ملزمان کا سابقہ پولیس ریکارڈ بھی حاصل کیا جا رہا ہے، سوشل میڈیا پر متحرک سرکاری ملازمین جو اشتعال انگیز کارروائیوں میں شامل تھے، ان کی نشان دہی بھی کی جارہی ہے تاکہ محکمانہ کارروائی ہو سکے‘۔

جوڈیشل کمپلیکس میں ہونے والی کشیدگی کے حوالے سے مزید کہا گیا کہ ’دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث نجی اداروں اور کمپنیوں کے ملازمین کے بارے میں معلومات متعلقہ اداروں کو بھیجی جائیں گی‘۔

پولیس کا کہنا تھا کہ ’جو تارکین وطن ان کارروائیوں میں شامل پائے گئے ہیں، ان کے متعلقہ سفارت خانوں کو خطوط لکھے جارہے ہیں اور پرتشدد مظاہروں کی مالی معاونت کرنے والے سہولت کاروں کے خلاف بھی کارروائی کا آغاز کیا جا رہا ہے‘۔

نقصانات کے حوالے سے کہا گیا کہ ’پرتشدد جلاؤ گھیراؤ میں 58 پولیس افسران زخمی ہوئے، 12 گاڑیاں، 20 موٹر سائیکلیں اور ایک پولیس چوکی نذر آتش کر دی گئی۔

یاد رہے کہ 18 مارچ کو عمران خان توشہ خانہ کیس کی سماعت میں پیشی کے لیے جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد پہنچے تو اسلام آباد پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان کے درمیان گھنٹوں تک جھڑپیں جاری رہی تھیں۔

اس دوران دوران پولیس اور پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے ایک دوسرے کو پیچھے دھکیلنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا، پی ٹی آئی نے پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگانے کے لیے پیٹرول بموں کے ساتھ ساتھ پولیس پر پتھراؤ بھی کیا۔

بعد ازاں اسلام آباد پولیس نے فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس کے باہر کشیدگی پر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور دیگر کے خلاف دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت سی ٹی ڈی پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کیا تھا۔

مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 148، 149، 186، 353، 380، 395، 427، 435، 440 اور 506 لگائی گئی تھیں۔

عمران خان کا زیر حراست بھانجے پر تشدد کیے جانے کا الزام

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے الزام عائد کیا کہ ان کے زیر حراست بھانجے کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جنہیں عہدیداروں کے ساتھ توہین آمیز رویے پر اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کی جانب سے دو روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے۔

عمران خان نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’امجد نیازی سمیت ہمارے کارکنوں اور رہنماؤں پر حراست میں تشدد کیا جا رہا ہے، جس کی پرزور مذمت کرتا ہوں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ حسان نیازی پر تشدد کیا جا رہا ہے، جنہیں ضمانت کے باوجود پہلے اغوا کیا گیا اور پھر جھوٹی ایف آئی آر میں نامزد کر دیا گیا ہے‘۔

عمران خان نے کہا کہ ’شرم ناک فاشزم اور جنگل کا قانون ہے‘۔

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے بھانجے اور فوکل پرسن حسان خان نیازی کے خلاف کار سرکار میں مداخلت اور اسلحہ دکھانے کے الزام پر تھانہ رمنا میں اے ایس آئی خوبان شاہ کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں بتایا گیا تھا کہ حسان خان نے گاڑی روکنے کی کوشش کی لیکن ڈرائیور نے پولیس اہلکاروں کے اوپر گاڑی چڑھائی، حسان نیازی نے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں، حسان نیازی کے ساتھ موجود دوسرے شخص نے اسلحہ نکالا اورگاڑی نکال کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا لیکن مزاحمت کے دوران حسان نیازی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔

راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے 33 کارکن گرفتار

ادھر پولیس نے راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے مقامی رہنماؤں اور حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھتے ہوئے 33 افراد کو گرفتار کر لیا، جو مبینہ طور پر عمران خان کی اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس میں پیشی کے موقع پر سڑکیں بلاک کرنے، دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے اور حکومت کے خلاف نعرے لگانے میں ملوث تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں پولیس ذرائع نے بتایا کہ مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) کی دفعہ 3 کے تحت فوجداری مقدمات میں پی ٹی آئی کے 33 مقامی رہنماؤں اور حامیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی کے حامیوں میں سے چوہدری فاروق اعظم اور حافظ زاہد سمیت 13 افراد کو عدالت میں پیشی کے بعد جیل بھیج دیا گیا۔

پی ٹی آئی کے 12 رہنماؤں اور 200 حامیوں، بشمول سابق وزیر ہوابازی، سابق وزیر قانون پنجاب اور پنجاب اسمبلی کے سابق اراکین کے خلاف نصیر آباد پولیس تھانے میں فوجداری مقدمات درج ہیں، جن پر اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس کی طرف جاتے ہوئے عوامی نقل و حرکت روکنے، دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے اور حکومت کے خلاف نعرے لگانے کے الزامات ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پولیس نے آدھی رات کے بعد چھاپے مارے اور راولپنڈی شہر کے مختلف علاقوں سے پی ٹی آئی کے 33 حامیوں کو گرفتار کر لیا، 25 افراد کو راول ڈویژن اور 8 کو پوٹھوہار ڈویژن سے گرفتار کرکے اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔

ایم پی او کے تحت مقدمات درج کرنے والوں کو 15 دن کے لیے حراست میں لیا گیا ہے جبکہ نصیر آباد کیس میں گرفتار 13 دیگر افراد کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024