آئی ایم ایف کی 2023 میں عالمی شرح نمو 2.8 فیصد تک کم رہنے کی پیش گوئی
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے عالمی معیشت کے لیے اپنے آؤٹ لک کو کچھ کم کرتے ہوئے پیش گوئی کی ہے کہ معاشی اور جغرافیائی سیاسی خدشات کے باوجود زیادہ تر ممالک رواں سال کساد بازاری سے محفوظ رہیں گے۔
آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی کہ عالمی معیشت رواں برس 2.8 فیصد اور 2024 میں 3 فیصد بڑھے گی ، یہ جنوری میں کی گئی اس کی سابقہ پیش گوئی سے 0.1 فیصد کم ہے۔
امریکی معیشت میں 2023 کے دوران 1.6 فیصد اضافہ متوقع ہے جو آئی ایم ایف کی سابقہ پیش گوئی سے 0.2 فیصد زیادہ ہے، اس کے بعد امریکی شرح نمو آئندہ برس 1.1 تک سست ہو جائے گی جو جنوری میں کی گئی پیش گوئی سے 0.1 فیصد زیادہ ہے۔
آئی ایم ایف کے چیف ماہر معاشیات نے آئی ایم ایف کی ورلڈ اکنامک آؤٹ لک (ڈبلیو ای او) ) رپورٹ کی ریلیز سے قبل پریس بریفنگ میں کہا کہ عالمی معیشت گزشتہ چند برسوں کے جھٹکوں خاص طور پر وبائی مرض کووڈ 19، یوکرین پر روسی حملے کے مضر اور منفی اثرات سے نکل رہی ہے۔
ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی قیادت امید کرتی ہے کہ رواں سال موسم بہار کے اجلاسوں کو مثبت و متحرک اصلاحات اور فنڈ ریزنگ ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
لیکن ممکنہ طور پر ان کی کوششوں کے راہ میں رکن ممالک میں بلند افراط زر، بڑھتی جغرافیائی سیاسی کشیدگی اور مالیاتی استحکام کے خدشات آڑے آسکتے ہیں۔
ڈبلیو ای او کی جانب سے پیش کردہ منظر مجموعی طور پر مایوس کن ہے جس میں مختصر اور درمیانی دونوں مدتوں میں عالمی شرح نمو سست رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے کہا کہ تقریباً 90 فیصد کے قریب ترقی یافتہ معیشتیں رواں سال سست شرح نمو کا تجربہ کریں گی جب کہ ایشیا کی ابھرتی ہوئی منڈیوں میں معاشی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ متوقع ہے،صرف بھارت اور چین میں ہی مجموعی ترقی کا آدھا ریکارڈ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کم آمدنی والے ممالک کا اس دوران بلند شرح سود کی وجہ سے قرض لینے کے زیادہ اخراجات، ان کی برآمدات کی طلب میں کمی کے باعث دوہری مشکل کا شکار ہونے کا خدشہ ہے اور اس سے ان ممالک میں غربت اور بھوک مزید بڑھ سکتی ہے۔
ڈبلیو ای او کی پیش گوئی کے مطابق آئی ایم ایف کو توقع ہے کہ عالمی افراط زر رواں برس 7 فیصد تک کم ہو جائے گا جو کہ گزشتہ سال 8.7 فیصد تھی۔