القادر ٹرسٹ کیس: نیب نے عمران خان کو دستاویزات کے ساتھ کل طلب کرلیا
قومی احتساب بیورو (نیب) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس کی تحقیقات کے لیے کل (18 مئی) کو ہیڈکوارٹرز راولپنڈی میں طلب کرلیا۔
القادر ٹرسٹ کیس میں تحقیقات کے حوالے سے نیب کی طرف سے جاری کردہ نوٹس کی تفصیلات سامنے آگئی ہیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو نیب کی طرف سے تین صفحات پر مبنی نوٹس ارسال کیا گیا۔
نیب کی طرف سے جارہ کردہ نوٹس میں پی ٹی آئی عمران خان کو کل صبح 10 بجے نیب روالپنڈی میں پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔
نوٹس میں عمران خان سے 20 نکات پر مشتمل سوالات کے دستاویزات ساتھ لانے کی ہدایت کی گئی ہے اور حکومتِ پاکستان کی جانب سے دستخط کی گئی خفیہ معاہدے کے دستاویزات بھی ساتھ لانے کا کہا گیا ہے۔
پی ٹی آئی چیئرمین کو ملک ریاض کے خاندان اور این سی اے کے درمیان ہونے والے معاہدے کی تفصیلات بھی لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
نیب نے پی ٹی آئی چیئرمین کو حکومتِ پاکستان اور این سی اے کے درمیان ہونے والی خط و کتاب کا مکمل ریکارڈ فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔
نوٹس میں کہا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے درمیان ہونے والی خط و کتابت کا ریکارڈ بھی ساتھ لایا جائے جبکہ القادر یونیورسٹی کی تعمیر اور معاہدے سے متعلق دستاویزات بھی فراہم کی جائیں۔
القادر ٹرسٹ کیس
یہ سب 5 سال پہلے اس وقت شروع ہوا جب برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے خاندان کے ساتھ 19 کروڑ پاؤنڈز مالیت کے تصفیے پر اتفاق کیا۔
این سی اے کے جاری کردہ بیان کے مطابق تصفیے میں برطانیہ کی ایک جائیداد، 1 ہائیڈ پارک پلیس، لندن، شامل تھی جس کی مالیت تقریباً 5 کروڑ پاؤنڈ تھی اور تمام رقم ملک ریاض کے منجمد اکاؤنٹس میں آگئیں۔
اسی سال جب یہ پتا چلا تھا کہ ملک ریاض نے کراچی کے مضافات میں ضلع ملیر میں ہزاروں ایکڑ اراضی غیر قانونی طور پر حاصل کی تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس کے عوض ملک ریاض کی رئیل اسٹیٹ کمپنی، بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کی جانب سے 460 ارب روپے کے سیٹلمنٹ واجبات کی پیشکش قبول کر لی تھی۔
این سی اے کے فیصلے کے چند گھنٹے بعد ملک ریاض نے ٹوئٹ کیا تھا کہ برآمد شدہ رقم، سپریم کورٹ کے 460 ارب روپے جرمانے کی ادائیگی میں جائیں گے۔
بعدازاں جب این سی اے نے 3 دسمبر کو اپنے فیصلے کا اعلان کیا تو یہ رقم حکومت پاکستان کے اکاؤنٹ کے بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹس میں منتقل کر دی گئی جبکہ اس وقت کے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے دعویٰ کیا تھا کہ رقم براہ راست ریاست کے پاس آئے گی۔
بعد میں اس ابہام کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے جواب دیا تھا کہ ’کیا سپریم کورٹ حکومت کا حصہ نہیں ہے؟ لہٰذا اگر پیسہ سپریم کورٹ میں جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پیسہ ریاست کے پاس آتا ہے‘۔
جون 2022 میں یہ معاملہ ایک مبینہ آڈیو لیک ہونے کے بعد دوبارہ سامنے آیا جس میں مبینہ طور پر ملک ریاض اور ان کی بیٹی کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی تھی، جس میں دونوں کو عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دوست فرح خان عرف گوگی کے فرضی مطالبات کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔
عمران خان کی حکومت کے کچھ مبینہ احسانات پر، خاتون نے اپنے والد کو بتایا کہ فرح نے انہیں بتایا تھا کہ (سابق) خاتون اول نے ان سے 3 قیراط کی ہیرے کی انگوٹھی قبول نہ کرنے کو کہا تھا اور 5 قیراط کا مطالبہ کیا تھا۔
گزشتہ برس یکم دسمبر کو بظاہر رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے قریبی ساتھیوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش میں قومی احتساب بیورو نے علی ریاض اور دیگر فائدہ اٹھانے والوں کو پیش ہونے کو کہا۔
نیب کے نوٹس میں کہا گیا کہ اختیارات کے غلط استعمال، مالی فوائد اور اعتماد کی مجرمانہ خلاف ورزی کے الزامات کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ علی ریاض ملک اور دیگر نے حکومت پاکستان کو فنڈز کی واپسی کے لیے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کا معاہدہ کیا۔
مزید برآں میسرز بحریہ ٹاؤن نے القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے موضع برکالا، تحصیل سوہاوہ، ضلع جہلم میں واقع 458 ایکڑ، چار مرلہ اور 58 مربع فٹ زمین عطیہ کی ہے، لہٰذا آپ کے پاس ہر وہ معلومات/شواہد ہیں جو مذکورہ جرم (جرائم) کے کمیشن سے متعلق ہیں۔
غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق عمران خان کی اہلیہ ٹرسٹ کے ٹرسٹیز میں سے ایک ہیں۔