وفاق، صوبوں کو وسائل کی تقسیم آبادی کی تعداد سے علیحدہ کرنے کا خواہاں
مرکز نے آبادی کی بنیاد پر قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) سے صوبوں کے درمیان قابل وسائل کی تقسیم کو الگ کرنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ ساتویں قومی مردم شماری میں آبادی میں 2.8 فیصد سے زیادہ اضافہ دکھایا گیا ہے جس سے پاکستان دنیا میں سب سے تیزی سے بڑھتی آبادی کا ملک بن رہا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے ایک نیوز بریفنگ میں کہا کہ ’موجودہ (این ایف سی) فارمولا رجعت پسند ہے، کیونکہ اس میں وسائل کی 80 فیصد تقسیم آبادی کے حساب سے ہوتی ہے، جس سے درحقیقت آبادی میں اضافے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔‘
وفاقی وزیر نے کہا کہ اس کے نتیجے میں، یہاں تک کہ مستند مردم شماری کا انعقاد بھی ناممکن کے قریب ہو گیا ہے کیونکہ ’دو صوبوں سندھ اور بلوچستان میں سنگین فالٹ لائنز موجود ہیں‘ اور سندھ میں شہری-دیہی جبکہ بلوچستان میں بلوچ-پختون تقسیم کی وجہ سے میٹنگ پوائنٹس نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہر طبقہ روزگار، مالیات، نمائندگی اور اسی طرح کے معاملات میں زیادہ حصے کے لیے اپنی آبادی کو زیادہ دکھانا چاہتا ہے۔
ان کے تبصرے حال ہی میں مکمل ہونے والی ساتویں مردم شماری کی اپ ڈیٹس کے بارے میں ایک تفصیلی میٹنگ کے موقع پر سامنے آئے جس میں دونوں بڑے صوبوں نے مردم شماری میں ایک اور توسیع کا مطالبہ کیا۔
پنجاب نے مزید پانچ دن کا مطالبہ کیا اور سندھ نے دوبارہ تصدیق کا عمل مکمل کرنے کے لیے تین سے چار دن کی رعایتی مدت تجویز کی۔
وفاقی وزیر، جو مردم شماری سے متعلق مانیٹرنگ کمیٹی کے سربراہ ہیں، نے ہدایت کی کہ ’مردم شماری کے اعداد و شمار کی تصدیق اور اصلاح‘ کے لیے شواہد پر مبنی جواز فراہم کیا جائے۔
ایک عہدیدار کے مطابق یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ 15 مئی کو اس کے فیلڈ ورک کی تکمیل کے سرکاری اعلانات کے باوجود مردم شماری کا عمل اختتام پذیر ہونے میں وقت لگ سکتا ہے۔
یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں دسمبر 2014 میں میعاد ختم ہونے کے بعد مرکز اور اس کی فیڈریشن اکائیوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کے لیے این ایف سی ایوارڈ دینے میں کامیاب نہیں ہوسکیں حالانکہ آئین ہر پانچ سال بعد نئے این ایف سی کو لازمی قرار دیتا ہے۔
2009 کا متفقہ ایوارڈ صوبوں کو خاص طور پر آبادی کی بنیاد پر بہت زیادہ وسائل کی منتقلی اور بھاری قرضوں کی فراہمی اور دفاع سے نمٹنے کے لیے مرکز کو غریب کے طور پر چھوڑنے پر تنقید کی زد میں رہا تھا۔
احسن اقبال نے کہا کہ مردم شماری کے اعداد و شمار کی تصدیق کا کوئی حل نہیں ہوگا جب تک کہ اسے وسائل کی تقسیم سے الگ نہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ نئی مردم شماری کے تحت آبادی میں اضافہ چھٹی قومی مردم شماری کے 2.4 فیصد کے مقابلے میں تقریباً 2.7 فیصد ہے، اس کے بہت سنگین اثرات ہیں اور پاکستان ایک مذاق بن جائے گا۔
ایک اور عہدیدار نے کہا کہ آبادی میں اضافہ دراصل 2.8 فیصد تھا، گنتی سندھ میں 3 فیصد سے زیادہ اور بلوچستان کے کچھ اضلاع میں اس سے بھی زیادہ شرح ظاہر کرتی ہے جیسے پنجگور میں 22.3 فیصد، اسلام آباد کے دارالحکومت کے علاقے میں بھی آبادی میں 2.71 فیصد اضافہ ہوا۔
مردم شماری کمشنر نے کہا کہ آبادی میں اضافے اور گنتی کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستانیوں کی فی کس آمدنی میں کمی آئے گی، ملک کم درمیانی آمدنی والی ریاستوں میں گر سکتا ہے، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری متاثر ہو گی اور دیگر تمام سماجی اشاریے خراب ہوں گے۔