اقوام متحدہ کی پاکستان میں مہنگائی کی شرح بدستور زائد رہنے کی پیش گوئی
اقوام متحدہ کے عالمی اقتصادی صورتحال کے بارے میں سال کے وسط میں کیے گئے سروے میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ مقامی کرنسی کی قدر میں کمی اور سپلائی کی رکاوٹوں کی وجہ سے آنے والے مہینوں میں پاکستان میں افراط زر کی شرح دوہرے ہندسوں میں رہنے کی توقع ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے سماجی امور کے محکمے کی جانب سے منگل کو جاری رپورٹ کے مطابق ملک میں مخصوص عوامل کی وجہ سے مقامی سطح پر غذائی افراط زر کی شرح بدستور بلند ہے جو پورے جنوبی ایشیائی خطے بالخصوص افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان میں غذائی تحفظ کے لیے بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ کے سروے میں کہا گیا کہ بلند افراط زر، مشکل مالی حالات، کمزور نجی کھپت اور بیرونی عدم توازن 2023 میں ترقی کو متاثر کرتے رہیں گے، چونکہ یہ خطہ سخت موسمیاتی حالات کے سبب انتہائی خطرات سے دوچار ہے، ممکنہ خشک سالی اور سیلاب سے بھی اقتصادی منظر نامے کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
جنوبی ایشیا کی معیشت میں 2023 میں 4.7 فیصد اور 2024 میں 5.8 فیصد اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جو جنوری میں کی گئی پیش گوئیوں کے مقابلے میں دونوں سالوں کے لیے 0.1 فیصد پوائنٹس کی معمولی کمی کو ظاہر کرتا ہے، مقامی صارفین کے لیے مہنگائی کی شرح 2023 میں اوسطاً 11 فیصد اور 2024 میں 9.4 فیصد رہنے کا امکان ہے جو 2022 میں ریکارڈ کی گئی 12.9 فیصد کی شرح سے قدرے کم ہے۔
خطے کے مرکزی بینکوں نے افراط زر سے نمٹنے اور شرح تبادلہ کو مستحکم کرنے کے لیے 2023 کے اوائل میں شرح سود میں اضافہ جاری رکھا۔
سروے کے مطابق سخت مہنگائی، بڑھتی ہوئی شرح سود اور بے یقینی صورتحال کے پیش نظر عالمی اقتصادی بحالی کے امکانات معدوم ہیں، اس کے بجائے، عالمی معیشت کی سست روی سے ترقی کے طویل مدتی خطرات کا سامنا ہے کیونکہ کووڈ-19 اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے ساتھ ساتھ میکرو اکنامک کے ڈھانچہ جاتی چیلنجز کا ازالہ نہیں کیا گیا۔
اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ اب 2023 میں عالمی معیشت کی 2.3 فیصد اور 2024 میں 2.5 فیصد تک ترقی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
گیس کی کم قیمتوں اور صارفین کے بڑے پیمانے پر اخراجات سے چلنے والی یورپی یونین کی معیشت میں 0.9 فیصد تک وسعت کا امکان ہے، کووڈ 19 سے متعلقہ پابندیاں ہٹائے جانے کی بدولت اب چین میں 5.3 فیصد معاشی نمو کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
تاہم اس اضافے کے باوجود، شرح نمو اب بھی کووڈ آنے سے قبل کی دو دہائیوں کی اوسطاً 3.1 کی شرح سے بہت کم ہے، قرض کی سخت شرائط اور بیرونی مالی اعانت کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے پیش نظر ترقی پذیر ممالک کے لیے ترقی کے امکانات متاثر ہوئے ہیں۔
جغرافیائی سیاسی کشیدگی، عالمی طلب میں کمی اور سخت مانیٹری اور مالیاتی پالیسیوں کی وجہ سے عالمی تجارت دباؤ کا شکار ہے، 2023 میں اشیا اور سروسز کی عالمی تجارت کے حجم میں 2.3 فیصد اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے جو کہ وبائی امراض سے پہلے کے رجحان سے بہت کم ہے۔