• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:34pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:59pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 4:03pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:34pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:59pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 4:03pm

آئندہ مالی سال کا بجٹ کن حالات میں تیار ہورہا ہے؟

ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ مالی سال میں حکومت کو مہنگائی کو کم کرنے اور قیمتوں میں اعتدال لانے میں مشکلات کا سامنا رہے گا۔
شائع June 7, 2023

آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ یہ بجٹ کیسا ہوگا؟ کیا یہ بجٹ انتخابی سیاسی بجٹ ہوگا یا پھر یہ آئی ایم ایف بجٹ ہوگا؟ کیا پاکستان پر ڈیفالٹ کی لٹکتی ہوئی تلوار ہٹ سکے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جوکہ ہر پاکستان خصوصاً کاروباری اور تجارتی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد تلاش کررہے ہیں۔

پاکستان میں آئندہ مالی سال کا بجٹ تخمینہ جس طرح کے بین الاقوامی، علاقائی اور مقامی سیاسی و معاشی حالات میں پیش کیا جارہا ہے، اس سے قبل ملکی تاریخ میں ایسے گنجلک اور پیچیدہ حالات کی مثال نہیں ملتی۔ پاکستانی معیشت میں تیزی اور مندی کی لہریں بہت تیزی سے آتی اور جاتی ہیں۔ 6 ماہ کے اندر اندر پاکستانی اسٹاک مارکیٹ اور کرنسی کبھی دنیا کی بہتر کارکردگی دکھانے والی مارکیٹس میں شامل ہوتی ہے تو اچانک ہی اس کی کارکردگی بدترین ہوجاتی ہے۔ یہ تیز ترین بدلاؤ، ملکی معیشت کے حوالے سے پالیسی سازی اور حکمت عملی کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے۔

وزارت خزانہ کے مطابق آئندہ مالی سال کے بجٹ کا مجموعی حجم 14 ہزار 600 ارب سے زیادہ رکھنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ بجٹ میں مزید کیا ہوگا اس حوالے سے ہم اس تحریر میں جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔ مگر اعداد و شمار سے بڑھ کر اس تحریر میں ان اقدامات اور حالات کا تجزیہ کیا جائے گا جو بجٹ کی تیاری پراثرانداز ہوں گے۔


سیاسی ماحول


آئندہ مالی سال کا بجٹ ایسے ماحول میں پیش کیا جارہا ہے جب ملکی سیاست شدید تلاطم کا شکار ہے۔ ایک جانب مشکل معاشی صورتحال کی وجہ سے موجودہ حکمران اتحاد کی سیاسی مقبولیت کم ترین سطح پر ہے تو دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کی جارحانہ سیاست نے ملک میں ہیجان کی سی کیفیت طاری کی ہوئی ہے۔

یہ بجٹ اس لیے بھی اہم ہے کہ ملک میں اس سال انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ اگست میں موجودہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی اور متوقع طور پر ستمبر یا اکتوبر میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان آئین کا تقاضہ ہے۔ ایسے میں حکومت کے لیے وہ اقدامات کرنا ناگزیر ہیں جن سے مہنگائی اور بےروزگاری کی ستائی ہوئی عوام کو کسی حد تک ریلیف مل سکے۔

  انتخابات کے پیشِ نظر یہ بجٹ کافی اہمیت کا حامل ہے
انتخابات کے پیشِ نظر یہ بجٹ کافی اہمیت کا حامل ہے

ساتھ ہی علاقائی سطح پر بھی بہت سی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کو ایک سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے اور اس کے بعد سے خطے میں بہت سی ایسی انہونی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جس سے مغرب خصوصاً امریکی مفادات کو شدید دھچکا پہنچا۔

ایران سعودی عرب سفارتی تعلقات کی بحالی، افغانستان میں طالبان کی مستحکم ہوتی ہوئی حکومت اور اس کی سی پیک میں شمولیت سے خطے کو استحکام کی جانب لے جانے میں مدد ملی ہے تو دوسری طرف بھارت کا جارحانہ رویہ خطے میں عدم استحکام پیدا کررہا ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان کشمیر کے ملحقہ علاقوں میں فوجی چھڑپوں کے بعد سے خطے میں ایک کشیدہ صورتحال ہے۔ بھارت امریکی ایما پر خطے میں عدم استحکام پیدا کر سکتا ہے۔

علاقائی معاملات سے آگے نکل کر دیکھیں تو چین اور امریکا کی براہِ راست تجارتی محاذ آرائی اس وقت سفارتی محاذ آرائی سے آگے نکلتے ہوئے کسی بھی وقت عسکری کشیدگی میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ امریکا کی جانب سے تجارتی عالمگیریت کے برخلاف چین پر پابندیاں عائد کرنے سے ایک کشیدہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ اسی طرح روس اور یوکرین جنگ نے یورپ میں سلامتی اور ایندھن کے ایسے مسائل کھڑے کردیے ہیں جس کے اثرات عالمی منڈی اور خصوصاً ہمارے خطے پر بھی پڑ رہے ہیں۔

ایسے میں پاکستان کو اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے اضافی بجٹ کے علاوہ ایسی معاشی پالیسی بھی دینا ہوں گی جوکہ چین اور امریکی بلاکس میں توازن کو قائم رکھ سکے۔ پاکستان میں متعدد ایسے اقدامات سامنے آرہے ہیں جس سے امریکی مفادات کو ٹھیس لگتی محسوس ہورہی ہے۔ پاکستان کا روس سے ایندھن کی خریداری کا عمل شروع کرنے کے علاوہ روس، ایران اور افغانستان کے ساتھ بارٹر، یعنی مال کے بدلے مال کی تجارت شروع کرنا اور ایران کے ساتھ سرحدی مارکیٹ کا قیام اس سلسلے کی کڑی ہیں۔ ماہرین اس بات کی توقع کررہے ہیں کہ بجٹ میں اس حوالے سے قانون سازی کے لیے تجاویز فنانس بل کا حصہ ہوسکتی ہیں۔


کاروباری اور کارپوریٹ سیکٹر کی توقعات


پاکستان میں نجی کاروبار کو سبسڈی فراہم کرنا یا انہیں مارکیٹ کی رسائی کا تحفظ فراہم کرنا ایک عام سی بات ہے۔ پاکستان میں ہر صنعت جیسے ٹیکسٹائل، فولاد سازی، آٹوموبیل، ادویات سازی، موبائل فونز وغیرہ کو 200 فیصد تک مالیاتی یا غیرمالیاتی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے جس سے قومی خزانے کو نقصان ہوتا ہے۔ کیا صنعتوں اور کاروبار کو دیا جانے والا تحفظ برقرار رہےگا یا پھر اس میں کوئی تبدیلی ہوگی؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب عوام سے زیادہ اشرافیہ یعنی تاجر، صنعت کار اور بزنس کمیونٹی تلاش کررہی ہے۔

  ٹیکس کے اثرات کارپوریٹ سیکٹر کے مالیاتی نتائج کو متاثر کررہے ہیں
ٹیکس کے اثرات کارپوریٹ سیکٹر کے مالیاتی نتائج کو متاثر کررہے ہیں

پاکستان کی سب سے بڑی برآمدات ٹیکسٹائل کی ہے۔ اس صنعت سمیت 5 برآمدی صنعتوں کو ہر حکومت نے بڑی مراعات سے نوازا ہے۔ برآمدی شعبے کے لیے اسٹیٹ بینک کے سستے قرضوں کی اسکیم ایکسپورٹ ری فنانس تو ہر وقت ہی بزنس کمیونٹی کو دستیاب رہی ہے۔ اس کے علاوہ کبھی فریٹ سبسڈی، کبھی سستی بجلی اور گیس، اور سب سے بڑھ کر بڑے کارپوریٹ ادارے جنہوں نے مقامی طلب پورا کرنے کے لیے صنعت لگائی ہے، انہیں دیا جانے والا تحفظ ہے۔

عارف حبیب گروپ سے وابستہ سینیئر معاشی ماہر نسیم بیگ سے آئندہ بجٹ اور کارپوریٹ سیکٹر کی توقعات پر بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں یہ بجٹ انتہائی مشکل سیاسی اور معاشی حالات میں آرہا ہے۔ آئندہ اکتوبر میں پی ڈی ایم جماعتوں کو الیکشن کا سامنا ہے جس کے لیے پی ڈی ایم جماعتوں کو تیاری کرنا ہوگی۔ حکومت کا خسارہ دن بہ دن بڑھ رہا ہے اور اس وقت کارپوریٹ سیکٹر یہ سمجھتا ہے کہ مزید ٹیکس لگنے کے امکانات ہیں۔

’یوں لگتا ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر پر ٹیکس کو جاری رکھیں گے۔ مگر اس ٹیکس کے اثرات کارپوریٹ سیکٹر کے مالیاتی نتائج کو متاثر کررہے ہیں۔ لیکن بینکوں اور آئل و گیس کمپنیوں کی آمدنی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ بینکوں کو بلند ترین سطح پر افراطِ زر کی وجہ سے شرح سود میں اضافے نے بہت زیادہ فائدہ پہنچایا ہے جبکہ آئل و گیس کمپنیوں کو روپے کی قدر میں کمی کا فائدہ ہوا ہے۔ اس سے یوں لگتا ہے کہ حکومت ان دونوں شعبوں پر خصوصی ٹیکس عائد کرسکتی ہے۔


ڈیفالٹ کے خدشات اور آئی ایم ایف پروگرام


عالمی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف، پاکستان اور دنیا بھر میں ایک نہایت ہی غیرمقبول ادارہ ہے۔ مگر اس کے بغیر حکومتوں کا گزارا بھی نہیں۔ آئی ایم ایف معاشی مشکلات کے شکار ممالک کی معیشت میں اصلاحات کی کڑی شرائط پر قرض دیتا ہے اور یہی عوامی اور سیاسی سطح پر اس کی غیرمقبولیت کی وجہ ہے۔ کوئی سیاسی حکومت یہ نہیں چاہتی کہ اس کو آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر قرض لینا پڑے مگر کیا کریں جب بین الاقوامی ادائیگیوں کے لیے زرمبادلہ نہ ہو تو آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں ہے۔

پاکستان اس وقت آئی ایم ایف سے 23 پروگرام لے چکا ہے اور 2 کے علاوہ کسی بھی پروگرام کی تکمیل نہیں ہوسکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کمزور سیاسی حکومتیں مشکل معاشی فیصلوں کا بوجھ اٹھانے سے ہمیشہ گھبراتی رہی ہیں۔

مگر موجودہ معاشی ٹیم جس کی قیادت وزیرِ خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار کر رہے ہیں، اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ ان کے مطابق گھانا اور سری لنکا سے پاکستان کا موازنہ گمراہ کن ہے۔ پاکستان نے آئندہ مالی سال 24-2023ء میں تقریباً 25 ارب ڈالر کے قرضوں کو واپس کرنا ہے۔ جس میں تجارتی قرضوں کا حجم 10 فیصد ہے۔ باقی 90 فیصد عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کے ساتھ دوطرفہ قرض ہیں۔

  آئی ایم ایف کے بغیر حکومتوں کا گزارا مشکل ہے
آئی ایم ایف کے بغیر حکومتوں کا گزارا مشکل ہے

پاکستان کا کہنا ہے کہ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام کے لیے کڑی شرائط کو پورا کیا گیا ہے۔ جس میں مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج ریٹ اور شرح سود میں ایڈجسٹمنٹ شامل ہیں۔ حکومت کے مالیاتی حالات بہتر بنانے کے لیے مالی سال کے وسط میں نئے ٹیکس عائد کیے گئے، پیٹرولیم لیوی، اور دیگر شرائط عمل کیا گیا ہے۔

جیساکہ اوپر تحریر کیا جاچکا ہے کہ آئی ایم ایف کے سخت پروگرام میں تعطل کی وجہ سے پاکستان کو اس وقت بدترین معاشی حالات کا سامنا ہے۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اندرونی معیشت کے بجائے بیرونی وسائل کی قلت ہے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں اور طویل عرصے سے انتہائی کم ترین سطح پر موجود ہیں۔

پاکستان نے اس سال جون تک اصل زر اور سود کی مد میں 4.1 ارب ڈالرز کی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ جس کے بعد مالی سال کے آغاز پر ملکی سرکاری زرمبادلہ ذخائر چین کے قرضوں کے رول اوور کے ساتھ صرف 3 ارب ڈالرز رہ جائیں گے۔ اور متوقع طور پر ستمبر میں یہ ڈیڑھ ارب ڈالر یا اس سے کم ہوں گے۔ اسی بنیاد پر مفتاح اسمعٰیل کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے آئی ایم ایف پروگرام نہیں لیا تو اس مالی سال میں نہیں تو آئندہ مالی سال میں اکتوبر یا نومبر میں ملک ڈیفالٹ ہوجائے گا۔

کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جنرنلسٹس نے مفتاح اسمعٰیل کے ساتھ ایک طویل بات چیت کی نشست کا اہتمام کیا۔ اس نشست میں راقم نے یہ سوال کیا کہ اگر آپ وزیرِ خزانہ ہوتے تو کیسا بجٹ پیش کرتے؟

اس پر مفتاح اسمعٰیل نے برجستہ جواب دیا کہ ’ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے اقدامات کرتا اور کوشش کرتا کہ آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد ہوجائے‘۔ ان کے خیال میں موجودہ معاشی ٹیم نے بہت سا قیمتی وقت گنوا دیا ہے۔ مفتاح اسمعٰیل کا کہنا ہے کہ اگر آئی ایم ایف پروگرام نہیں ملا تو پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔

  مفتاح اسمٰعیل اگر آئی ایم ایف پروگرام نہیں ملا تو ملک ڈیفالٹ ہوجائے گا
مفتاح اسمٰعیل اگر آئی ایم ایف پروگرام نہیں ملا تو ملک ڈیفالٹ ہوجائے گا

اس وقت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان فنانسنگ گیپ پر معاملات اٹکے ہوئے ہیں۔ پروگرام کی تکمیل کے لیے پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف اور آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹالینا جارجیوا کے درمیان بات چیت بھی ہوئی۔

گزشتہ دنوں غیر ملکی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط پوری کردی ہیں، امید ہے رواں ماہ آئی ایم ایف کے ساتھ حتمی معاہدہ ہو جائے گا۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ہم اب بھی بہت پرامید ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام عمل میں آئے گا، آئی ایم ایف کی طرف سے ہمارا 9 واں جائزہ تمام شرائط و ضوابط سے مطابقت رکھتا ہے اور امید ہے کہ ہمیں اس مہینے کچھ اچھی خبر ملے گی۔

آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ پاکستان قرض پروگرام بحالی کے لیے 6 ارب ڈالر کی اضافی فنانسنگ کا بندوبست کرے جبکہ پاکستان کا اصرار ہے کہ آئی ایم ایف جس پیشگی یقین دہانی کو طلب کررہا ہےاس پر سعودی عرب 2 ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات ایک ارب ڈالر فراہمی کا یقین آئی ایم ایف کو دلواچکے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے، کفایت شعاری اور درآمدی کنٹرول کو کم کرکے بیرونی فنانسنگ کی ضروریات کو کم کیا اور اب 6 ارب ڈالرز کی ضرورت نہیں لیکن آئی ایم ایف اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔


مہنگائی یا افراطِ زر


کسی بھی سیاسی حکومت کے لیے مہنگائی ایک زہرِ قاتل کی طرح ہے اور یہی وہ بنیادی چیز ہے جس کی وجہ سے سیاسی حکومتیں عوام میں اپنی مقبولیت کھو دیتی ہیں۔ وزیرِ مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا کا کہنا ہے کہ آئندہ بجٹ میں خسارے اور مہنگائی کا توازن قائم کرنا ہوگا، آئندہ بجٹ میں مہنگائی کنٹرول کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔

بجا طور پر یہ ایک چیلنج ہے بھی کیونکہ خود حکومت کے ادارہِ شماریات کے اعدادوشمار ایک سال میں ہونے والی مہنگائی کی داستان سنا رہے ہیں۔ مئی 2022ء سے لے کر مئی 2023ء کے درمیان عام استعمال کی اشیا کی قیمت بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں اور عام آدمی کی پہنچ سے کھانا پینا بھی دور ہوگیا ہے۔ اہم غذائی اجناس جیسے آلو 108، آٹا 99 اور گندم 94.8 اور انڈے 90.3 فیصد مہنگے ہوئے۔ عام کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ تعلیم کے لیے درسی کتب 114 اور اسٹیشنری بھی 79.3 فیصد مہنگی ہوئیں۔

  آئندہ بجٹ میں مہنگائی کو کنٹرول کرنا سب سے بڑا چیلنج ہوگا
آئندہ بجٹ میں مہنگائی کو کنٹرول کرنا سب سے بڑا چیلنج ہوگا

اس کے علاوہ گاڑیوں کا ایندھن 69.9، گیس 62.8، بجلی 59.2، گاڑیوں کے پرزہ جات 45، گھریلو سامان 41، تعمیراتی سامان اور گاڑیاں 38 فیصد مہنگی ہوئیں۔

پاکستان میں مہنگائی کی دوبڑی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ ہے افراطِ زر جبکہ دوسری وجہ ہے مارکیٹ کی نگرانی کا نظام۔ اسٹیٹ بینک کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے۔ وہ یہ اقدام ملک میں زر کے پھیلاؤ کو کم کرکے حاصل کرتا ہے اور اس مقصد کے لیے مانیٹری پالیسی کے ذریعے اقدامات اٹھاتا ہے۔ اس وقت افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک نے بنیادی شرح سود کو 21 فیصد کردیا ہے جوکہ موجودہ صدی کی بلند ترین بنیادی شرح سود ہے۔

دوسری جانب انتظامی اقدامات، مارکیٹوں کی نگرانی کے ذریعے بھی مہنگائی کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ یہ اقدامات صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہیں۔ مگر وفاقی حکومت اس وقت صوبہ پنجاب اور خبیرپختونخوا میں قائم نگراں حکومتوں کے حوالے سے زیادہ مطمئن نظر نہیں آتی ہے۔ ان کے مطابق دونوں حکومتیں اگر ناجائز منافع خوری اور پرائس مانیٹرنگ پر اپنی کارکردگی بہتر کریں تو قیمتوں میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ مالی سال میں حکومت کو مہنگائی کو کم کرنے اور قیمتوں میں اعتدال لانے میں مشکلات کا سامنا رہے گا۔


روپے کی قدر میں کمی


پاکستان کی معیشت کا بہت حد تک انحصار ڈالر کی قدر پر ہے کیونکہ پاکستان بڑے پیمانے پر ایندھن کے علاوہ اشیا خورونوش بھی درآمد کرتا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی سے مقامی کرنسی میں ایندھن اور غذائی اجناس مہنگی ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے عام آدمی متاثر ہوتا ہے گو کہ روپے کی قدر کا کنٹرول بظاہر حکومت نے اسٹیٹ بینک کے تحت مارکیٹ بیس کردیا ہے مگر حقیقت میں روپے کی قدر کو حکومت کنٹرول کرتی ہے اور قانونی آزادی ہونے کے باوجود اسٹیٹ بینک کو اس حوالے سے آزاد فیصلے کرنے کا اختیار نہیں۔

موجودہ حکومت کے قیام کے وقت روپے کی قدر 185 روپے تھی جوکہ اب بڑھ کر انٹر بینک میں 258 روپے کے قریب ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں 311 روپے کی قدر کو چھو چکی ہے۔

روپے کی قدر میں کمی سے پاکستانی معیشت کی عالمی ویلیو ایشن میں بھی کمی ہوتی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری کے باعث رواں مالی سال پاکستان کی معیشت کا حجم 34 ارب ڈالر تک سکڑ گیا ہے اور یہ 375 ارب روپے سے کم ہوکر 341 ارب ڈالرز رہ گیا ہے۔

  ’اسحٰق ڈار کو ڈالر کی قیمت قابو میں رکھنے کا شوق ہے‘
’اسحٰق ڈار کو ڈالر کی قیمت قابو میں رکھنے کا شوق ہے‘

موجودہ حکومت کی ڈالر پالیسی پر انہی کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل کڑی تنقید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اسحٰق ڈار کو ڈالر اور ایندھن کی قیمت قابو میں رکھنے کا بہت شوق ہے۔ جس کی وجہ سے معیشت میں کچھ لوگوں کو بہت زیادہ فائدہ اور عوام کو نقصان ہوتا ہے۔ مفتاح اسمعٰیل کے مطابق روپے کو ڈی ویلیو ہونے دیں۔ ایک آدمی جو 5 کروڑ کی گاڑی خریدتا ہے، وہ 7 کروڑ کی گاڑی بھی خرید سکتا ہے۔

موجودہ حکومت نے بینکوں کے ایل سی کھولنے کی حد مقرر کردی ہے اور بینک ماہانہ 30 سے 50 کروڑ ڈالرز تک کی ایل سی کھول سکتے ہیں۔ اس سے بینکوں کے پاس ایک طاقت آگئی ہے۔ بااثر افراد کی ایل سیز کھل جاتی ہیں۔ چھوٹے لوگ ایل سی نہیں کھول سکتے ہیں۔ اسی ایل سی کے چکر میں صرف خوردنی تیل کی درآمد پر ایک کمپنی نے 2 ارب روپے کا فائدہ اٹھایا ہے۔

روپے کے قدر میں کمی سے صرف نقصانات نہیں ہورہے بلکہ برآمد کنندہ گان کو فائدہ بھی ہورہا ہے۔ روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر سے برآمد کنندہ کو ہر روز اپنی مصنوعات کی فروخت پر فائدہ ہوتا ہے۔ مفتاح اسمعٰیل کے مطابق برآمد کنندہ گان کو جس چیز پر پہلے 10 روپے نفع ہورہا تھا، اب یہ نفع بڑھ کر 50 سے 60 روپے ہوگیا ہے۔ 2، 3 ماہ میں لوگوں کے کاروبار نے بہت کمایا ہے۔


سالانہ ترقیاتی پروگرام


بجٹ میں متوقع طور پر 1100 ارب روپے کا سالانہ ترقیاتی پروگرام رکھا جائے گا۔ یہ وہ پروگرام ہے جوکہ حکومت کو سیاسی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ کیونکہ صوبائی اور وفاقی ترقیاتی پروگرام میں اراکین اسمبلی کی مشاورت سے ان کے حلقہ انتخاب میں ترقیاتی کام کیے جاتے ہیں یا حکومت بڑی سڑکوں، پلوں، نہروں کے پکا کرنے، اسپتال اور اسکولوں کی تعمیر کے لیے فنڈز سیاسی بنیادوں پر جاری کرتی ہے۔ مگر ان پروگرامز کی افادیت پر بھی سوالیہ نشان اٹھتے ہیں۔

  آئندہ بجٹ میں 1100 ارب روپے ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص کیا جائے گا
آئندہ بجٹ میں 1100 ارب روپے ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص کیا جائے گا

حکومت کو ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ بنیادی نوعیت کے ترقیاتی کاموں کو وفاقی یا صوبائی حکومت کے بجائے مقامی حکومت کے تحت کیا جائے۔ جس سے مقامی سطح پر عوامی شمولیت اور عوامی ذمہ داری کے علاوہ فنڈز کے درست استعمال اور منصوبے کی معیار اور معاہدے کے مطابق تکمیل کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

حکومت کے سابق مشیر، سابق وفاقی وزیر اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین کا کہنا ہے کہ ’حقیقی منصوبہ بندی اضلاع میں ہوسکتی ہے، کراچی، لاہور اسلام آباد کوئٹہ، پشاور کے دفاتر میں بیٹھ کر نہیں۔ مگر لگتا یہی ہے کہ حکومت اس ترقیاتی بجٹ کو زیادہ سے زیادہ اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرسکتی ہے‘۔


ٹیکس اور ایف بی آر ریونیو


حکومت کے لیے ٹیکس نظام اور ٹیکس مشینری بہت زیادہ مسائل کا شکار ہے۔ سال 2005ء سے مسلسل اصلاحات، تربیت اور مراعات کے باوجود پاکستان میں ٹیکس کی وصولی کا نظام اپنی جڑ مضبوط نہیں کرسکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت پہلے دن سے ہی قرضہ لینا شروع کردیتی ہیں اور آخری دن تک قرض لیتی رہتی ہے۔

ٹیکس چونکہ فیصد میں لگایا جاتا ہے۔ اس لیے افراطِ زر اور مہنگائی بڑھنے سے حکومت کے ٹیکس میں خود بہ خود اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی اگر افراط زر 39 فیصد ہے تو ٹیکسوں کی وصولی خود بہ خود 39 فیصد تک بڑھ جانی چاہیے مگر ایف بی آر کی کارکردگی افراط زر کے باوجود مایوس کُن رہی اور وہ ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو گزشتہ مالی سال 2023ء کے لیے طے کردہ 66 کھرب 40 ارب روپے کا ٹیکس ہدف پورا کرنے بھی ناکام رہا۔ ایف بی آر نے 62 کھرب 10 ارب روپے وصول کیے جوکہ ہدف سے 430 ارب روپے کم ہیں۔

  ایف بی آر ٹیکس ہدف پورا کرنے میں ناکام رہا
ایف بی آر ٹیکس ہدف پورا کرنے میں ناکام رہا

حکومت گزشتہ 15 سال سے ٹیکس بیس بڑھانے کی بات کرتی آرہی ہے مگر انہیں لوگوں پر ٹیکس لگا پاتی ہے جوکہ پہلے سے ٹیکس ادا کررہے ہوتے ہیں۔ سال 16-2015ء میں وِد ہولڈنگ ٹیکس، بینک لین دین پر ٹیکس، اسٹاک مارکیٹ پر ٹیکس اور نہ جانے کس کس طرح سے ٹیکس لگائے گئے۔ لیکن وہ فرد جو ملک میں دستاویزی کاروبار کرتا ہے اور حکومت کو ٹیکس ریٹرن جمع بھی کرواتا ہے، ان تمام عوامل سے اس پر ٹیکس کا بوجھ بڑھتا ہے جبکہ حکومت نے ایک طبقہ نان فائلر کا بھی متعارف کروایا ہے جوکہ انکم ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرتا اور اس سے کسی قسم کی پوچھ گچھ بھی نہیں کی جاتی ہے۔

سیلز ٹیکس کی چوری روکنے کے لیے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم متعارف ہوا۔ اس کو بڑی اور اچھی کمپنیوں نے تو استعمال کیا اور انہیں مکمل ٹیکس ادا کرنا پڑا جبکہ ان کے مد مقابل چھوٹی کمپنیوں کو ٹیکس سے چھوٹ مل گئی۔

فروری 2023ء میں تمباکو پر 150 فیصد ایف ای ڈی بڑھائی گئی جس کے بعد کمپنیوں نے ایف ای ڈی کو لاگو کیا۔ جبکہ باقی چھوٹی کمپنیاں عدالت میں گئیں۔ چھوٹی کمپنیوں کے سیگریٹ سستی ہونے کی وجہ سے ان کی فروخت بڑھ گئی اور بڑی کمپنیوں کی فروخت میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ حکومت کی ٹیکس وصولی کم ہوگئی۔ اسی طرح جوسز پر ایف ای ڈی بڑھائی گئی تو ان کی فروخت کم ہوئی، حکومتی ٹیکس بھی کم ہوا اور غیر دستاویزی اور غیر معیاری مارکیٹ بڑھ گئی۔ یہی غیر متوازن ٹیکس پالیسی ہے جس کی وجہ سے ملک میں غیر دستاویزی صنعت بڑھ رہی ہے اور دستاویزی صنعت سکڑ رہی ہے۔

اور اب لوگ بینکوں کے بجائے نقد لین دین کررہے ہیں تاکہ ٹیکس سے بچت ہوسکے یہی وجہ ہے کہ مالی سال 2015ء میں زیرِ گردش سرمایہ 30 فیصد تھا جوکہ اب بڑھ کر 45 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکس کے حوالے سے وکلا، ڈاکٹرز، ریٹیلرز اور جائیداد کی خرید و فروخت پر ٹیکس عائد ہونا چاہیے۔

مفتاح اسمعٰیل کہتے ہیں کہ جائیداد پر ٹیکس جمع ہونا چاہیے۔ بھارت کا شہر پونا پورے صوبہ پنجاب سے زیادہ پراپرٹی ٹیکس جمع کرتا ہے۔ ہمیں زرعی آمدنی پر بھی ٹیکس لگانا چاہیے۔ ریٹیل سکیٹر ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔ ملک بھر میں 22 لاکھ دکانوں میں سے صرف 30 ہزار ٹیکس دیتی ہیں۔

  حکومت کی ٹیکس پالیسی کی وجہ سے ملک میں غیر دستاویزی صنعت بڑھ رہی ہے
حکومت کی ٹیکس پالیسی کی وجہ سے ملک میں غیر دستاویزی صنعت بڑھ رہی ہے

جائیداد کی خرید و فروخت کے حوالے سے یہ تجویز کیا جارہا ہے کہ بڑی بڑی نجی رہائشی سوسائٹیز کے خرید وفروخت، لین دین کے نظام کو ایف بی آر سے اسی طرح منسلک کیا جائے جس طرح بڑی ریٹیل مارکیٹس کو منسلک کیا گیا ہے۔ کوشش کی جائے کہ جائیداد کی ڈی سی، ایف بی آر ویلیو کو ختم کر کے حقیقی ویلیو پر ٹیکس عائد کیا جائے۔ اس کے ساتھ سال 19-2018ء کے بجٹ میں تجویز کردہ بائی بیک بیورو بنانے یا بائی بیک اتھارٹی قائم کی جائے تاکہ کم قیمت پر جائیداد کی خرید و فروخت کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔

اب چونکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے اس لیے کسی بھی جائیداد کی خرید و فروخت کے لیے ایک ایکس چینج قائم کیا جائے جس میں جائیداد کو رجسٹر کروانے کے بعد اس کی بولی لگا کر نیلامی کی جائے اور زیادہ بولی دینے والے کو جائیداد فروخت کردی جائے۔

اس کے علاوہ حکومت فائلر اور نان فائلر کی تمیز کو ختم کرتے ہوئے جائیداد اور گاڑی خریدنے کی اجازت انہیں پاکستانیوں کو دے گی جو کہ انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں۔

ذرائع ایف بی آر کا کہنا ہے کہ آئندہ بجٹ میں روز مرہ استعمال کی اشیا پر سیلز ٹیکس 18 فیصد پر برقرار رکھا جائے گا۔ بچوں کے درآمدی دودھ، ڈبوں میں بند گوشت، مرغی اور مچھلی پر سیلز ٹیکس 18 فیصد کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔


جی ڈی پی


ڈالر کی قلت نے پاکستانی معیشت کو بڑا دھچکا دیا ہے۔ رواں مالی سال مجموعی مقامی پیداوار صرف 0.29 فیصد رہی جبکہ حکومت کا ہدف 5 فیصد تھا۔ اس کی بڑی وجہ صنعت، خدمات اور زراعت کے شعبے کی مایوس کن کارکردگی ہے۔ بڑی صنعتوں سمیت ہول سیل اور ریٹیل نے ترقی معکوس دیکھی۔

زرمبادلہ کی قلت آئندہ مالی سال بھی معیشت کو متاثر کرنے والی ہے۔ جس کی وجہ سے آئندہ مالی سال جی ڈی پی کا ہدف 3.5 فیصد رکھنے کا امکان ہے۔

  آئندہ مالی سال جی ڈی پی کا ہدف 3.5 فیصد رکھنے کا امکان ہے
آئندہ مالی سال جی ڈی پی کا ہدف 3.5 فیصد رکھنے کا امکان ہے

آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا شمار دنیا کے 5 بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ چین، بھارت، انڈونشیا، امریکا کے بعد پاکستان آبادی کا بڑا حصہ ہے۔ دنیا کی آبادی کا 3 فیصد پاکستان میں ہے۔ دنیا کے جی ڈی پی میں ان 5 ممالک کا حصہ 45 فیصد ہے اور اگر آبادی کے لحاظ سے 10 بڑے ممالک کا جائزہ لیا جائے تو ان کی عالمی جی ڈی پی 60 فیصد سے زائد ہے۔ مگر پاکستان کا حصہ اس میں صرف 0.4 فیصد ہے۔

سیلاب کی تباہ کاریاں، روس یوکرین جنگ، سیاسی عدم استحکام اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری، رواں مالی سال پاکستان کی معیشت کی تباہی میں ان عوامل کا سب سے بڑا ہاتھ رہا۔


فی کس آمدنی


  بجٹ میں فی کس آمدنی بڑھانے کے اقدامات کرنا ہوں گے
بجٹ میں فی کس آمدنی بڑھانے کے اقدامات کرنا ہوں گے

رواں مالی سال حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا فی کس آمدنی میں کمی ہے۔ رواں مالی سال فی کس سالانہ آمدن ایک ہزار 568 ڈالرز رہی جوکہ گزشتہ مالی سال میں ایک ہزار 766 ڈالرز تھی۔ اس طرح فی کس آمدنی میں 198 ڈالر کی نمایاں کمی ہوئی ہے جس کی بڑی وجہ صنعتوں کی بندش، بےروزگاری میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی ہے۔ حکومت کو آئندہ مالی سال کے لیے فی کس آمدن بڑھانے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔


بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام


ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت اپنے ووٹ بینک کو بچانے اور آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرتے ہوئے ایک کھلی سبسڈی کی اسکیم کے بجائے پسماندہ طبقات کو سبسڈی فراہم کرنے اور ان کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے اقدامات کرے گی۔ توقع کی جارہی ہے کہ حکومت بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں مالی اور عددی اعتبار سے اضافہ کرے گی۔

  حکومت ووٹ بینک بچانے کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ میں مالی اعتبار سے اضافہ کرے گی
حکومت ووٹ بینک بچانے کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ میں مالی اعتبار سے اضافہ کرے گی

اس مد میں رواں بجٹ میں اضافہ کیا گیا اور اس کو 250 ارب روپے سے بڑھا کر 400 ارب روپے کردیا گیا تھا۔ توقع ہے کہ اس میں مزید 100 ارب روپے کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں توسیع کی مفتاح اسمعٰیل اور نسیم بیگ بھی تائید کرتے ہیں۔

یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں توسیع شہری علاقوں کے پسماندہ طبقات کے لیے کی جاتی ہے یا دیہی علاقوں کے لیے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت دیہی سے زیادہ شہری علاقوں میں غربت بڑھی ہے۔ معاشی سست روی، صنعتوں اور کاروبار کی بندش کی وجہ سے شہری محنت کش بے روزگار ہوئے ہیں جبکہ افراطِ زر بھی شہروں میں رہنے والے غریبوں کو زیادہ متاثر کیا ہے۔


ہیڈر: رجا معینی

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔