بھارتی ریسلنگ فیڈریشن کے سربراہ پر ہراساں کرنے کے الزامات عائد
بھارت کی بہترین خواتین ریسلرز کی جانب سے فیڈریشن کے طاقتور سربراہ پر جنسی ہراساں کرنے کے الزام اور ملک گیر احتجاجی تحریک کے پانچ ماہ بعد پولیس نے ان پر یہ الزامات عائد کر دیے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے سربراہ اور دائیں بازو کی حکمران جماعت کے سینئر رکن اسمبلی برج بھوشن شرن سنگھ پر جنسی طور پر ہراساں کرنے اور پیچھا کرنے کے الزامات عائد کیے گئے۔
برج بھوشن نے تمام الزامات کی تردید کی ہے اور دعویٰ کیا کہ یہ ان کی ساکھ کو داغدار اور پارلیمنٹ سے باہر کرنے کی سازش ہے۔
دیہی شمالی بھارت میں کُشتی بہت مقبول ہے اور مئی میں پارلیمنٹ کی جانب مارچ کرنے کی کوشش کے دوران اسٹار ایتھلیٹس کو حراست میں لینے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں۔
جنوری سے اولمپیئنز اور کامن ویلتھ گیمز کی چیمپیئن سمیت سرفہرست بھارتی خواتین پہلوان جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ڈرانے دھمکانے کے الزامات پر برج بھوشن سنگھ کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے کے لیے سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہیں۔
نئی دہلی میں ہونے والے ایک مظاہرے میں دو بار کی عالمی چیمپیئن ونیش پھوگاٹ نے کہا کہ خواتین ریسلرز کو قومی کیمپوں میں کوچز اور ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔
اپنی پولیس شکایت میں سات پہلوانوں نے 66 سالہ برج بھوشن سنگھ پر الزام لگایا کہ وہ کئی مواقع پر ان سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہے اور جنسی خواہشات کی تسکین کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
جمعرات کو دہلی پولیس نے کہا کہ برج بھوشن سنگھ پر جنسی طور پر ہراساں کرنے اور پیچھا کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا، لیکن ایک نابالغ کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو واپس لے لیا گیا ہے، ان الزامات پر انہیں ممکنہ طور پر پانچ سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے اسسٹنٹ سیکریٹری کے طور پر خدمات انجام دینے والے برج بھوشن سنگھ کے ساتھی ونود تومر کو بھی ان الزامات کے ساتھ ساتھ مجرمانہ دھمکیوں اور ایسے فعل کی حوصلہ افزائی جیسے الزامات کا بھی سامنا ہے۔
برج بھوشن سنگھ نے ایک دہائی سے زائد عرصے تک ریسلنگ فیڈریشن کی سربراہی کی ہے اور وہ شمالی ریاست اتر پردیش سے چھٹی بار رکن اسمبلی کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے مظاہروں کو ایک سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی الزام ثابت ہوگیا تو وہ خود کو پھانسی دے دیں گے۔
اپنی جوانی میں ایک پہلوان رہنے والے برج بھوشن نے اس وقت سیاسی شہرت حاصل کی تھی جب 1992 میں ایودھیا کے مقدس مقام پر مذہبی انتہا پسندوں نے ایک صدیوں پرانی مسجد کو تباہ کر دیا اور اس کے بعد فرقہ وارانہ فسادات میں 2 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ان پر بابری مسجد کے انہدام میں ملوث ہونے کا الزام تھا لیکن وہ تمام الزامات سے بری ہوگئے تھے۔
جنوری میں شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد احتجاج کرنے والے اس وقت رک گئے تھے جب وزارت کھیل نے برج بھوشن سنگھ کے ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے انتظامی اختیارات واپس لے لیے تھے۔
اپریل میں یہ مظاہرے دوبارہ شروع ہوئے اور پہلوانوں نے کہا تھا کہ برج بھوشن کو گرفتار کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا، یہ تحریک چند درجن افراد سے بڑھ کر ہزاروں کے ہجوم تک پہنچ گئی تھی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے پولیس سے اس معاملے کی سست پیش رفت کا حساب مانگے جانے کے بعد پولیس نے برج بھوشن سنگھ کے خلاف الزامات کی تحقیقات شروع کر دی تھیں۔
مئی میں پولیس نے وسطی دہلی میں ایک ماہ پرانے احتجاجی کیمپ کو اس وقت توڑ دیا تھا جب مظاہرین نے نئی پارلیمنٹ کے افتتاح کے موقع پر اس جانب مارچ کی کوشش کی تھی، پہلوانوں نے اس وقت ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ پولیس اور نظام ہمارے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کر رہا ہے۔
پولیس نے کچھ مظاہرین پر فسادات کا الزام لگایا تھا لیکن پہلوان دوبارہ منظم ہو گئے تھے اور اپنے تمغے دریائے گنگا میں پھینکنے کی دھمکی دی تھی، پچھلے ہفتے، پہلوانوں نے ایک بار پھر اس وقت احتجاج کو روک دیا تھا جب حکومت نے تحقیقات مکمل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
حکومت نے کہا ہے کہ ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا میں برج بھوشن کا کوئی کردار نہیں ہوگا اور جولائی کے شروع میں انتخابات متوقع ہیں۔