پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) میں اختلاف نہیں، مستقبل میں بھی سنگین اختلافات نظر نہیں آرہے، بلاول بھٹو
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے حکمران اتحاد میں اختلافات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان کوئی سیاسی اختلاف ہے اور آگے جاکر بھی مجھے کوئی سیاسی اختلافات یا سنگین سیاسی اختلافات نظر نہیں آرہے۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے نومنتخب میئر کراچی اور ڈپٹی میئر کراچی کی تقریبِ حلف برداری کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس شہر کے عوام کی امیدوں پر پورا اتریں گے، ہم پر دھاندلی کے جھوٹے الزامات لگانے والوں کو اپنی محنت اور کارکردگی سے جواب دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سے الیکشن چھینے جاتے ہیں، ہم الیکشن نہیں چھینتے، اب سہولت کاروں کا دور ختم ہوا ہے تو سیاسی یتیم کراچی سے کشمیر تک الیکشن ہار رہے ہیں اور پیپلزپارٹی کے جیالے جیت رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں پارٹی کے کامیاب امیدواروں کو کہتا ہوں کہ آپ نے صوبائی حکومت کے ساتھ تعاون کرکے اپنے علاقے کے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنی ہے، ماضی میں پارٹی نے خدمت کی، آئندہ بھی کرے گی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جہاں تک کراچی کی بات ہے تو یہ ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، اس ملک کو کوئی شہر بچا سکتا ہے، اس کو تمام مسائل سے نکال سکتا ہے تو وہ کراچی ہے، اس شہر کی ترقی کے لیے میں ذاتی دلچسپی لوں گا، یہ شہر میری ذاتی ذمہ داری ہوگا، آپ دیکھیں گے کہ 5 سال کے اندر آپ مجھ سے جواب لیں گے کہ ہم نے کیا کروایا اور مرتضیٰ وہاب اور سلمان عبداللہ مراد کی کارکردگی ماضی کے تمام ادوار سے بہتر ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ اب ہماری جماعت کے کونسلر اور دوسری جماعتوں کے کونسلرز میں کوئی فرق نہیں ہوگا، سب کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے، تقسیم اور نفرت کی سیاست کو رد کرنا ہے اور شہر کے مسائل کو حل کرنا ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ کراچی شہر میں کافی مسائل وفاقی اور صوبائی حکومت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، امید ہے ان کے حل کے لیے تمام حکومتیں تعاون کریں گی، کراچی میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ اپنے فنڈز پیدا کرسکتا ہے اور ان سے اپنے کام کروا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب شہر اپنے ٹیکس خود جمع کرے گا تو اس سے آمدنی میں اضافہ ہوگا، وہ پیسہ ہم کراچی پر لگائیں گے، جس طرح سے صوبائی حکومت نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی ایک مثال قائم کی ہے، امید ہے کہ کے ایم سی بھی کراچی میں پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں جماعت اسلامی کو مشورہ دوں گا کہ وہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کرے، جو لوگ 9 مئی کے واقعات میں ملوث تھے، افسوس کی بات کہ ان واقعات کے بعد جماعت اسلامی کے دوست زمان پارک گئے اور ان کے ساتھ مل کر کراچی پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن شکر ہے کہ مرتضیٰ وہاب اور سلمان عبداللہ کامیاب ہوئے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جو کراچی کے عوام کو لسانی یا کسی اور بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے تھے، وہ ہار چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ حکومت سیلاب متاثرین کی امداد و بحالی کے حوالے سے ہماری شکایات کو دور کرے گی، سیلاب فنڈز بجٹ میں اولین ترجیح ہونی چاہیے تھی لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس کو اب سب سے آخر میں شامل کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا نہیں خیال کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہمارا کوئی سیاسی اختلاف ہے، میں سمجھتا ہوں کہ جہاں تک پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی بات ہے، ہم آج ایک اتحاد میں ہیں، مل کر حکومت میں ہیں، لیکن ہم نے تو مسلسل آگے جاکر پیپلزپارٹی نے ہی اس ملک میں رہ کر سیاست کرنی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف اور شہید بینظیر بھٹو کے درمیان دستخط کردہ میثاق جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے تحت ہم اپنی سیاست کو آگے بڑھائیں، وہ دستاویز بہت وسیع ہے، اگر اس حد تک نہیں تو بھی ہم اپنی مخالفت سیاست کی حد تک رکھیں گے، کوئی ذاتی مخالفت نہیں ہوگی۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ چاہے ہم حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں رہے ہوں، میاں نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز کے ساتھ میرا بہت اچھا ورکنگ ریلیشن شپ رہا ہے، حکومت کے اندر ہمارا کوئی اختلاف ہو تو ہم مناسب فورم پر اٹھاتے رہیں گے، اگر ہم محسوس کرتے ہیں کہ کوئی ایسا ایشو ہے جو ہمیں عوام میں اٹھانا چاہیے تو وہ ہم کریں گے مگر میں نہیں سمجھتا ہوں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان کوئی سیاسی اختلاف ہے اور آگے جا کر بھی مجھے کوئی سیاسی اختلافات یا سنگین سیاسی اختلافات نظر نہیں آرہے، ہاں پالیسی پر اختلافات ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں غیر متنازع مردم شماری چاہیے، صرف شہر سے ہی نہیں بلکہ دیگر شہروں اور صوبوں سے بھی اس حوالے سے اعتراضات سامنے آ رہے ہیںِ، نئی مردم شماری کرانے کی وجہ گزشتہ مردم شماری پر ہمارے اعتراضات تھے، افسوس کی بات ہے کہ آواز اٹھائے جانے کے باوجود یہ عمل متنازع ہی رہا ہے، خاص طور پر کبھی ایک صوبے میں، کبھی ایک شہر، کبھی دوسرے شہر میں اس کی مدت میں اضافہ کیا گیا، میں سمجھتا ہوں کہ یہ مردم شماری آگے جا کر بھی متنازع ہی رہے گی، اس حوالے سے ہمیں غیر متنازع طریقہ کار چاہیے جس پر سب کا بھروسہ ہو۔