ایران میں عوامی مقامات پر سر نہ ڈھانپنے والی خواتین کے خلاف پولیس کی کارروائی کا آغاز
ایرانی پولیس نے ملک میں لباس کے سخت قانون کے تحت سر کو نہ ڈھانپنے اور پردہ نہ کرنے والی خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کرتے ہوئے سڑکوں پر دوبارہ گشت شروع کر دیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق یہ اطلاعات ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہیں جب 10ماہ قبل 16 ستمبر کو 22 سالہ مہسا امینی کی دوران حراست موت واقع ہو گئی تھی جس کے بعد ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
10 ماہ قبل شروع ہونے والے احتجاج کے دوران ایران کو اپنی جدید تاریخ کے سب سے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس تمام عرصے کے دوران ملک کی اخلاقی پولیس سڑکوں سے غائب ہو گئی تھی حالانکہ اس دوران خواتین کی ایک بڑی تعداد نے کم و بیش روزانہ کی بنیاد پر قانون کی دھجیاں اڑائی تھیں۔
ایرانی کرد شہری مہسا امینی کو اخلاقی پولیس نے ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا جہاں اس قانون کے تحت خواتین کو سر اور گردن کو عوامی مقامات پر ڈھانپ کر رکھنا ہوتا ہے۔
جن دنوں اخلاقی پولیس غائب نظر آتی تھی، اس دوران حکام نے قانون کے نفاذ کے لیے دیگر اقدامات کیے تھے جن میں ایسے کاروباروں کی بندش شامل تھی جن کا عملہ قواعد کے مطابق نہیں تھا اور مجرموں کا سراغ لگانے کے لیے عوامی مقامات پر کیمرے بھی نصب کیے گئے تھے۔
لیکن اتوار سے اس روایتی انداز کو دوبارہ اپنانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جس میں اخلاقی پولیس نے عوامی مقامات پر اسکارف نہ پہننے والی خواتین کی پکڑ دھکڑ شروع کردی ہے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے پولیس کے ترجمان سعید منتظر المہدی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پولیس کار کے ساتھ ساتھ پیدل بھی گشت شروع کرے گی تاکہ ان لوگوں کو خبردار کیا جا سکے، قانونی اقدامات کیے جائیں اور ان لوگوں کے خلاف عدلیہ سے رجوع کیا جائے جو پولیس کے احکامات کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ قواعد و ضوابط کے برخلاف لباس پہننے کو ترجیح دیتے ہیں۔
آن لائن تصاویر میں سیاہ چادروں میں ملبوس خواتین پولیس اہلکاروں کو دیکھا جا سکتا ہے جو بغیر اسکارف یا ڈوپٹے کے گھومنے والی خواتین کو مارنے کے ساتھ ساتھ انہیں گرفتار بھی کررہی ہیں۔
البتہ اے ایف پی آزادانہ طور پر ان تصاویر کی صداقت کی تصدیق نہیں کر سکا۔
خواتین کے لباس کے حوالے سے قوانین ایران میں 1979 میں آنے والے انقلاب کے بعد سے نافذ ہیں۔
لیکن ایران کے اصلاح پسند اخبار شرق نے اتوار کو رپورٹ کیا کہ چار خواتین کو اضافی سزائیں دی گئی ہیں جن میں ’نفسیاتی کلاسز‘ میں شرکت اور ڈرائیونگ پر پابندی بھی شامل ہے۔
ایران میں کئی ماہ تک جاری رہنے والے مظاہروں کے دوران ہزاروں ایرانی شہریوں کو گرفتار کیا گیا اور درجنوں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت سینکڑوں افراد مارے گئے۔
ملک کی پارلیمنٹ اور حکومتی ایوانوں میں غلبہ رکھنے والے ایران کے قدامت پسند طبقے نے بھرپور جوش و خروش سے لباس کے اس قانون کا دفاع کیا تھا لیکن بہت سے ایرانیوں نے اس میں تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا۔
رواں سال مئی میں عدلیہ اور حکومت نے ’حجاب اور عفت کی ثقافت کی حمایت‘ کے بل کی تجویز پیش کی تھی جس کے بعد ملک میں اس معاملے پر گرما گرم بحث چھڑ گئی تھی۔
اس بل کے متن میں ’عوامی مقامات یا انٹرنیٹ پر اپنا نقاب ہٹانے والے کسی بھی خاتون کے لیے جرمانے میں اضافے کی تجویز دی گئی ہے لیکن انہیں جیل کی سزا دینے کی تجویز اس بل میں واپس لے لی گئی تھی۔
ماہر عمرانیات عباس عبدی نے کہا ہے کہ ایران کی قیادت کے اندر ’حجاب پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہے کیونکہ کچھ لوگ اس جبر کے حق میں ہیں جب کہ کچھ کا خیال ہے کہ دوسرے ذرائع کو بھی آزمایا جانا چاہیے۔
امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین نے احتجاجی تحریک کے خلاف کریک ڈاؤن اور کارروائی پر ایران پر کئی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔