• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

اسلام آباد: دہشت گردی کے 3 مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی کی ضمانت میں 26 جولائی تک توسیع

شائع July 19, 2023
— فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر
— فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر تشدد سے متعلق تین مقدمات میں ضمانت میں 26 جولائی تک توسیع کردی۔

مارچ کے شروع میں سابق وزیر اعظم کے خلاف دارالحکومت کی رمنا پولیس نے دو مقدمات درج کیے تھے، ان پر فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب ہجوم کی قیادت کرنے کا الزام ہے جب وہ سماعت کے لیے وہاں پیش ہوئے تھے۔

اس کے علاوہ گولڑہ پولیس اسٹیشن نے ان کے خلاف فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس کے باہر بے امنی پھیلانے کے الزام میں تیسرا مقدمہ درج کیا جب وہ 18 مارچ کو توشہ خانہ کیس کی سماعت کے لیے وہاں گئے تھے۔

گزشتہ سماعت کے دوران انسداد دہشت گردی نے چیئرمین پی ٹی آئی کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے اور انہیں 19 جولائی کو طلب کیا تھا۔

عدالت میں ان کی آمد سے قبل پی ٹی آئی نے بارش کے دوران سابق وزیر اعظم کی اسلام آباد پہنچنے کی ویڈیو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئر کی۔

آج انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے کیس کی سماعت کی، عمران خان کے وکیل سلمان صفدر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

دوران سماعت عدالت نے پولیس سے مکالمہ کیا کہ اگر بے گناہ ہے تو بے گناہ کر دیں، اگر کوئی ثبوت ہے تو بتائیں، جج نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اگر تفتیش ٹھیک نہ ہوئی تو آئی جی کو بھی ذاتی حیثیت میں طلب کر لوں گا، آپ کو ذہن نشین رہے تفتیش واضح ہونی چاہیے۔

عدالت نے پولیس پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی مذاق ہے، میں تو کبھی بھی ایسا نہیں ہونے دوں گا، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سابق وزیراعظم کو ملوث کیا ہوا ہے، اگر کچھ نہیں ہمارے خلاف تو بتا دیں، ہم اپنی ضمانت کی درخواست واپس لے لیں گے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ پولیس کمپلیننٹ، پولیس ہی تفتیش کر رہی ہے، عدالت عاشورہ کے بعد تک کیس ملتوی کر دے کیونکہ میں ان دس دنوں میں کام نہیں کرتا۔

اس دوران عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو روسٹرم پر طلب کر لیا، وکیل نے کہا کہ کیا کوئی ویڈیو ثبوت ہے سازش ہے، کیا ہے؟ اس دوران عدالت نے دروازہ کھولنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ یہ کھلی عدالت ہے، دروازہ بند نہ کریں۔

دلائل سننے کے بعد عدالت نے دہشت گردی کے تین مقدمات میں ضمانت میں 26 جولائی تک توسیع کردی، پولیس کی استدعا پر عدالت نے دہشت گردی کے تینوں مقدمات میں سماعت ملتوی کی۔

توشہ خانہ کیس قابلِ سماعت قرار دینے کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف توشہ خانہ کیس قابلِ سماعت قرار دینے کے خلاف سابق وزیراعظم کی اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں توشہ خانہ کیس کو قابل سماعت قرار دینے کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت چیف جسٹس عامر فاروق نے کی، چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے توشہ خانہ کیس کے ٹرائل پر حکم امتناع کی استدعا کر رکھی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس دوبارہ ٹرائل کورٹ کو بھیجا تھا، ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو درخواست پر فیصلہ کرنے کے لیے سات دن کا وقت دیا تھا، ٹرائل کورٹ نے 6 جولائی کو درخواست پر ابتدائی سماعت کی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ 8 جولائی کو ہم نے کیس 10 جولائی تک ملتوی کرنے کی استدعا کی، ٹرائل کورٹ نے ہماری استدعا مسترد کرتے ہوئے وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل سنے، ہمارا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ مجاز اتھارٹی کی جانب سے شکایت فائل نہیں کی گئی، عدالت نے 8 جولائی کو فیصلہ محفوظ ہونے کے 15 منٹ بعد فیصلہ سنا دیا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل کے 15 منٹ بعد ہی فیصلہ سنا دیا گیا۔

ٹرائل کورٹ نے پہلے تین سوالات کے جواب دیے، ٹرائل کورٹ نے باقی سوالات کا جواب نہیں دیا، ہائی کورٹ کی جانب سے سات دنوں میں فیصلہ کرنے کا وقت 12 جولائی کو مکمل ہونا تھا، 8 جولائی کو سماعت 10 جولائی تک ملتوی کرنے کی استدعا کو منظور نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ٹرائل کورٹ میں آئندہ سماعت کب ہونی ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ٹرائل کورٹ میں کیس کل سماعت کے لیے مقرر ہے، ہائی کورٹ کیس دوبارہ ٹرائل کورٹ کو بھیجے تو کسی دوسری عدالت کو بھیجتی ہے، ایک جج جو اپنا مائنڈ واضح کر چکا ہو اسے دوبارہ کیس نہیں بھیجا جاتا۔

سابق وزیراعظم کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے توشہ خانہ کیس قابلِ سماعت قرار دینے کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس کے قابل ہونے کے خلاف درخواست پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم کرنے کی ہدایت کی تھی۔

توشہ خانہ ریفرنس

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں۔

گزشتہ برس اگست میں حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔

جج دھمکی کیس کی سماعت

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی جج دھمکی کیس میں عبوری ضمانت میں 24 جولائی تک توسیع کردی ہے۔ آئندہ سماعت پر اسپیشل پراسیکیوٹر سے بریت کی درخواست پر دلائل بھی طلب کرلیے ہیں۔

جوڈیشل مجسٹریٹ ملک امان نے چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف خاتون جج دھمکی کیس کی سماعت کی، دوران سماعت چیئرمین پی ٹی آئی اپنے وکیل سلمان صفدر کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کی بریت کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے سلمان صفدر نے موقف اپنایا کہ ہمارے خلاف جعلی کیسز بنائے گئے ہیں، آپ کی کورٹ میں دو اے سی اور 9 پنکھے لگیں ہیں، یہ ایک ٹھنڈی کورٹ ہے، میرے موکل نے کہا ٹھنڈی عدالتیں میں نے بنائیں مگر اب میرے ہی خلاف مقدمات سے گرم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ کیسز میں پہلے 7 اے ٹی اے اور پھر ہاتھ سے کچھ اور دفعات شامل کی گئیں، درخواست گزار نے کونسا جرم کیا یہ نہیں پتا، بس ذہن میں دہشت گردی کا مقدمہ آیا اور بنا دیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ ایف آئی آر میں لکھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ زیبا چوہدری آپ کے اوپر کیس کرنا ہے، ماتحت عدالتوں کے اوپر اعلیٰ عدلیہ موجود ہیں، کوئی بھی کیس کرسکتا ہے، پھر کہا گیا کہ شہباز گل کی گرفتاری پر ایف نائن پارک میں جلسے میں کار سرکار میں مداخلت کی گئی، کہا گیا کہ چیرمین پی ٹی آئی کی الفاظ سے ملک میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، شہباز گل کو مارا گیا، ان پر پریشر ڈالا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف گواہی دیں۔

انہوں نے کہا کہ کرکٹ کے بعد اب چیئرمین پی ٹی آئی عدالتوں کے بھی خوب عادی ہوگئے ہیں، عموماً کرپشن، اختیارات کے غلط استعمال و دیگر چیزوں پر مقدمات درج ہوتے ہیں، درخواست گزار کے خلاف ایسے کوئی شواہد نہیں ملے تو یہ چیزیں آگئیں، کبھی توشہ خانہ، کبھی ممنوع فنڈنگ، کبھی غداری، دہشت گردی، کبھی تحائف بیچنے جیسے کیسسز بنائے گئے۔

سلمان صفدر نے مزید کہا کہ تمام کیسز میں مدعی، فریق اور تفتیشی پولیس ہی ہے، درخواست گزار کے خلاف 71 سالہ زندگی میں کبھی کوئی کریمنل کیس درج نہیں ہوا، درخواست گزار کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے توہین عدالت کا نوٹس لیا تھا، پانچ رکنی بینچ نے کہا کہ کریمنل توہین عدالت بنتی نہیں اور کیس ختم ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ درخواست گزار سینئر وکلا کے ساتھ جج صاحبہ کی عدالت معافی مانگنے گئے، اگر کوئی یہ کہے کہ آپ کے خلاف کیس کرنا ہے تو اس میں کیا غلط ہے؟ توہین عدالت کیس ختم ہونے کے بعد جج صاحبہ سے معافی مانگی گئی تو اب بچا کیا ہے؟ یہ سیاسی مقاصد کے لیے بنایا گیا کیس ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے اپنے دلائل مکمل کر لیے تو عمران خان خود روسٹرم پر آئے۔

انہوں نے کہا کہ 27 سال قانون کی بالادستی کی جنگ لڑی ہے، میں نے جوش خطابت میں ایک مظاہرے میں یہ الفاظ کہے تھے، میں اپنے الفاظ پر معافی مانگنے کے لیے جج زیبا چوہدری کی عدالت بھی گیا، آج تک میں نے کوئی قانون نہیں تھوڑا۔

اس موقع پر پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ اگر معاملہ اتنا ہی آسان تھا تو ہائی کورٹ شاید کیس کو ہی ختم کردیتی، ٹرائل میں پتا چلے گا کہ انہوں نے کونسا ایکشن لینا تھا، اس کیس میں اے سی کے علاوہ بھی افسران موجود تھے اور پیمرا سے ریکارڈ بھی طلب کرلیا ہے۔ ویڈیو، فرانزک، ٹرانسکرپٹ اور پیمرا کے شواہد موجود ہیں۔

عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی عبوری ضمانت میں 24 جولائی تک توسیع کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی اور آئندہ سماعت پر اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی سے بریت کی درخواست پر دلائل طلب کرلیے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024