• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

غیر شرعی نکاح کیس: چیئرمین پی ٹی آئی، بشریٰ بی بی کی 26 جولائی تک ضمانت منظور

شائع July 24, 2023
چیئرمین پی ٹی آئی جج قدرت اللہ کی عدالت میں پیش ہوئے — فائل فوٹو: شٹراسٹاک
چیئرمین پی ٹی آئی جج قدرت اللہ کی عدالت میں پیش ہوئے — فائل فوٹو: شٹراسٹاک

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے غیر شرعی نکاح کیس میں سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی 26 جولائی تک ضمانت منظور کرلی۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں آج غیر شرعی نکاح کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، چیئرمین پی ٹی آئی جج قدرت اللہ کی عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت وکیل شیر افضل مروت نے عدالت کو کہا کہ آپ ضمانتی مچلکوں کا حکم آج کریں تو ہم جمع کریں گے، کیس پر آج بھی دلائل دینے کو تیار ہوں لیکن 26 کو ہمیں جواب الجواب میں سن لیں تو ہم قابل سماعت ہونے پر دلائل دیں گے، جج نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے آپ ہی کو سننا ہے۔

اس دوران بشریٰ بی بی کی جانب سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی، جج نے استفسار کیا کہ بشریٰ بی بی نے کن وجوہات پر استثنیٰ کی درخواست دائر کردی؟ شیر افضل مروت نے کہا کہ بشریٰ بی بی اسلام آباد ہائی کورٹ میں بائیو میٹرک کے لیے گئیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے بعد پولیس کے سامنے شامل تفتیش ہورہی ہے۔

شیر افضل مروت نے پوچھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی سماعت کے دوران حاضری ضروری تو نہیں؟ دریں اثنا عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو حاضری لگانے کے بعد جانے کی اجازت دے دی۔

عدالت نے 30 ہزار مچلکوں کے عوض چیئرمین پی ٹی آئی کی 26 جولائی تک ضمانت منظور کرلی، علاوہ ازیں عدالت نے بشریٰ بی بی کی بھی 30 ہزار مچلکوں کی عوض 26 جولائی تک ضمانت منظور کرلی۔

واضح رہے کہ رواں سال 5 اپریل کو عمران خان اور ان کی اہلیہ پر عدت کے دوران نکاح کے الزام پر دونوں کے خلاف کارروائی کے لیے عدالت میں درخواست دائر کی گئی تھی۔

شہری محمد حنیف نے اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں عمران خان، بشریٰ بی بی اور ریاست کو فریق بنایا گیا۔

شہری نے دونوں کے خلاف سیکشن 496 کے تحت کارروائی کے لیے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ بشریٰ بی بی نے عدت پوری کیے بغیر نکاح کیا جو غیرقانونی ہے، عمران خان اور بشریٰ بی بی کے نکاح کی کاپی بھی شکایت کے ساتھ منسلک ہے۔

بعد ازاں گزشتہ ماہ اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف عدت میں نکاح کے کیس کی جلد سماعت کی درخواست منظور کرلی تھی۔

رواں ماہ 18 جولائی کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے عمران خان کے خلاف غیر شرعی نکاح کیس قابل سماعت قرار دیتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو نوٹس جاری کردیے تھے۔

خاتون جج دھمکی کیس: چیئرمین پی ٹی آئی کو حاضری لگا کر جانے کی اجازت

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں عمران خان کے خلاف خاتون جج دھمکی کیس کی سماعت ہوئی، جوڈیشل مجسٹریٹ ملک امان نےکیس کی سماعت کی، چیئرمین پی ٹی آئی اپنے وکیل انتظار پنجوتھا کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران جج ملک امان نے استفسار کیا کہ دوسرے کیس میں کون سی تاریخ ہوئی ہے، پراسیکیوٹر صاحب کہہ رہے ہیں چھٹیوں کے بعد رکھ لیں، انتظار پنجوتھا نے کہا کہ پراسیکیوٹر کی ہر بات تو نہیں مانی جائے گی، کل یا پرسوں رکھ لیں ہمارے کیسز ہیں۔

جج ملک امان نے ریمارکس دیے کہ ستمبر کی کوئی تاریخ بتا دیں جس پر آپ کی حاضری یقینی ہو، کوئی ایسی تاریخ بتا دیں جس پر آپ کی کوئی تاریخ مقرر ہو، انتظار پنجوتھا نے کہا کہ ابھی تو کوئی ایسا کیس نہیں جس میں ستمبر کی تاریخ مقرر ہوئی ہو، چلیں سلمان صفدر سے بات کر کے بتا دیتے ہیں۔

دریں اثنا عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو حاضری لگا کر جانے کی اجازت دے دی، کیس کی آئندہ سماعت کی تاریخ بعد میں مقرر کی جائے گی۔

یاد رہے کہ خاتون جج دھمکی کیس میں 19 جولائی کو ہونے والی گزشتہ سماعت میں اسلام آباد کی مقامی عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی عبوری ضمانت میں 24 جولائی (آج) تک توسیع کردی تھی اور آئندہ سماعت پر اسپیشل پراسیکیوٹر سے بریت کی درخواست پر دلائل بھی طلب کیے تھے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کا اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع

دریں اثنا چیئرمین پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں درج مقدمات کی تفصیلات کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔

عمران خان نے وکیل شیر افضل مروت کے ذریعے درخواست دائر کی، مذکورہ درخواست میں سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد، ڈی جی ایف آئی اے فریق بنایا گیا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی پر ملک بھر میں اب تک 188 مقدمات درج کیے جاچکے، چیئرمین پی ٹی آئی سابق وزیر اعظم رہ چکے ہیں جن کو بیرونی سازش کے تحت ہٹایا گیا۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ بیرونی قوتوں نے ملک میں موجود ملک دشمن آلہ کاروں کے ذریعے رجیم چینج آپریشن کیا، چیئرمین پی ٹی آئی کو قانون کا بے دریغ غلط استعمال کرکے گرفتار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، ان کے خلاف درج مقدمات آرٹیکل 10 اے کی خلاف ورزی ہیں۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف گزشتہ ایک ماہ میں درج مقدمات کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دے اور چیئرمین پی ٹی آئی کو کسی بھی نئے مقدمے میں گرفتار کرنے سے روکے۔

**### توشہ خانہ کیس

دریں اثنا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ میں توشہ خانہ کیس کی سماعت ہوئی، چیئرمین پی ٹی آئی جج ہمایوں دلاور کی عدالت میں پیش ہوئے پیش ہوئے، وزیراعظم کے معاون خصوصی عطاتارڑ بھی جج ہمایوں دلاور کی عدالت میں موجود تھے۔

سماعت کے موقع پر جج ہمایوں دلاور کی عدالت کے باہر صحافیوں کو روک دیا گیا، عدالت کے باہر موجود سیکیورٹی نے صحافیوں کو کمرہ عدالت میں جانے سے روک دیا، ایف سی اور سیکیورٹی اہلکاروں کی بھاری نفری کمرہ عدالت کے باہر موجود تھی۔

جج ہمایوں دلاور نے چیرمین پی ٹی آئی کو حاضری لگا کر عدالت سے باہر جانے کی اجازت دے دی جس کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی جج ہمایوں دلاور کی عدالت سے روانہ ہوگئے۔

بعدازاں جج ہمایوں دلاور نے سماعت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو لکھا ہے کہ مجھے بھی انصاف چاہیے، ایسے سب کے سامنے فیس بک پوسٹس کے کاغذات لہرائے گئے، کوئی کسی کے لیے جج نہیں بن سکتا، مجھے بھی انصاف چاہیے۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں نے آپ کو گزشتہ سماعت پر کہا کہ جرح مکمل نہیں ہوسکتی، میں نے کہا تھا آئندہ سماعت پر جرح مکمل کرلوں گا۔

خواجہ حارث نے گزشتہ سماعت کے فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی گزشتہ سماعت کے فیصلے سے لگ رہا جیسے میں جان کر کمرہ عدالت سے چلا گیا۔

جج ہمایوں دلاور نے خواجہ حارث کو گزشتہ سماعت کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کی، اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جو آپ نے فیصلے میں لکھا ایسا تو کچھ نہیں ہوا تھا، میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد نہیں آسکتا، آپ نے 2 بجے آنے کا کہا لیکن میں دستیاب نہیں تھا جس کا آپ کو بتا دیاگیاتھا۔

جج ہمایوں دلاور نے ریمارکس دیے کہ نمازِ جمعہ کے بعد دستیاب نہ ہونے کی درخواست آپ کی زبانی تھی، خواجہ حارث نے کہا کہ ہم اس وقت زبانی ہی آپ کو کہہ سکتے تھے، ایسا تاثر تو نہیں جان چاہیے کہ میں کہہ رہاکہ پیر تک سماعت ملتوی کردیں اور میں جا رہا، میں کون سی سماعت اپنے حساب سے چلا رہا؟ توشہ خانہ کیس کی سماعت تو روزانہ کی بنیاد پر چل رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کون سے ٹرائل کے دوران تاخیری حربے استعمال کیے گئے؟ اعلیٰ عدلیہ اور سیشن عدالت میں درخواست دائر کرنا ہمارا حق ہے، ہماری طرف سے دائردرخواستوں کو تاخیری حربے نہیں سمجھنا چاہیے، آپ کے پاس اختیار ہے، جو فیصلہ چاہیں پاس کریں لیکن ہماری بات ریکارڈ پر ضرور لائیں، چیرمین پی ٹی آئی کی غیر حاضری سے کون سی سماعت رکی؟

دریں اثنا توشہ خانہ کیس میں وکیل صفائی خواجہ حارث نے گواہ وقاص ملک پر جرح شروع کردی، انہوں نے سوال کیا کہ عدالت کیسے کہہ سکتی ہے کہ گواہ کے دستخط اور انیشلز اصلی ہیں؟

جج ہمایوں دلاور نے ریمارکس دیے کہ آپ عدالت کو فیصلہ یا ریمارکس دینے سے نہیں روک سکتے، اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ آپ تو ہمیں وقت پر فیصلہ بھی نہیں مہیا کرتے۔

جج ہمایوں دلاور نے ریمارکس دیے کہ آپ سینیئر وکیل ہیں، آپ کے رویے پر افسوس ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ اور کچھ کہنا ہے تو آپ کہہ دیں، سماعت شروع کریں، اس پر جج ہمایوں دلاور نے ریمارکس دیے کہ آپ درست کہہ رہے، آپ جرح شروع کریں۔

خواجہ حارث نے استفسار کیا کہ جس فارم بی کا آپ نے بیان میں ذکر کیا آپ نے خود تیار کیا؟ گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو سال 2018، 2020 اور 2021 کے فارم بی میں نے تیار نہیں کیے۔

خواجہ حارث کے سوال پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے اعتراض کیا تو خواجہ حارث نے کہا کہ ہمیں تو عدالت وقت ہی نہیں دیتی، جو الیکشن کمیشن کے وکیل کہنا چاہتے گواہ وہی کہہ رہا۔

جج ہمایوں دلاور نے پی ٹی آئی کے دیگر وکلا سے مکالمہ کیا کہ آج میں نے دیگر وکلا کے خلاف ایکشن لیا ہے، جو کہنا ہے عدالت کو کہیں، دورانِ جرح نہ بولیں۔

گواہ وقاص ملک نے کہا کہ صفحہ ایک سے لے کر 44 تک منسلک کئے گئے دستاویزات پر میرے دستخط نہیں، ان 44 صفحات میں پہلے 4 تصدیق شدہ ہیں باقی صفحات غیر تصدیق شدہ ہیں۔

خواجہ حارث نے استفسار کیا کہ کیا توشہ خانہ کے کسی تحائف کی جانچ پڑتال آپ کی موجودگی میں ہوئیں؟ گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ میری موجودگی میں توشہ خانہ کے تحائف کی جانچ پڑتال نہیں ہوئیں۔

خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا آپ توشہ خانہ کے تحائف کے ماہر ہیں؟ گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ میں توشہ خانہ کے تحائف کی جانچ پڑتال کرنے کا ماہر نہیں۔

خواجہ حارث نے پوچھا کہ آپ نے بیان دیا کہ 19-2018 میں توشہ خانہ کےتحائف کی قیمت 107 ملین روپے تھی، آپ نے کسی سے جانچ پڑتال کروائی؟ گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ توشہ خانہ کے حوالے سے کسی سے معاونت حاصل نہیں کی۔

خواجہ حارث نے سوال کیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے تحائف کے حوالے سے شکایت دائر کرنے سے قبل کسی سے کوئی شہادت لی؟ گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ شکایت دائر کرنے سے قبل تحائف کے حوالے سے میں نے کسی سے کوئی شہادت نہیں لی، الیکشن کمیشن میں ہونی والی کارروائی کا میں حصہ نہیں تھا، میں نے اپنے شکایت میں کسی گواہ کا ذکر نہیں کیا جس نے تحائف کی فہرست تیار کی تھی، میں نے کسی ایسے پرائیویٹ گواہ کا اپنی شکایت میں ذکر نہیں کیا جس نے توشہ خانہ تحائف کی مالیت کا تعین کیا ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں نے اس سے متعلق کسی گواہ سے رابطہ بھی نہیں کیا، میں نے خود بھی کسی تحفے کی مالیت کا تعین نہیں کروایا، میں نے توشہ خانہ تحائف کی فہرست میں شامل کسی تحفے کی مالیت کا تعین کرنے کی کوشش بھی نہیں کی، توشہ خانہ تحائف کا جو ریکارڈ میں نے پیش کیا میں اس کی مالیت کا تعین کرنے کا خود بھی ماہر نہیں ہوں۔

اس دوران الیکشن کمیشن کے وکیل نے اعتراض کیا کہ کیا اس کیس میں تحائف کی مالیت سے متعلق فرد جرم عائد ہوا ہے؟ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ میں ان کے بیان سے متعلق پوچھ رہا ہوں، اس گواہ نے 107 ملین کا بیان دے رکھا ہے میرا سوال ہے اس سے متعلق کوئی گواہ ہے؟ وقاص ملک نے جواب دیا کہ اس سے متعلق گواہ نہیں ہے۔

خواجہ حارث نے سوال کیا کہ شکایت دائر کرنے سے قبل کیا بینک اسٹیٹمنٹ دیکھی تھی؟ گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ میں نے شکایت دائر کرنے سے قبل چیرمین پی ٹی آئی کی بینک دیکھی تھی، بینک اسٹیٹمنٹس کمپیوٹر سے آٹومیٹکلی نکلتی ہیں، تصدیق کی ضرورت نہیں پڑی۔

خواجہ حارث نے سوال کیا کہ اس دستاویز سے نہیں معلوم ہورہا کہ بنک اسٹیٹمننٹ کپمیوٹر سے نکالا گیا، گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ میں ماہر نہیں ہوں، کچھ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کمپیوٹر سے نکالا یا نہیں۔

خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا اسٹیٹ بینک سے بینک اسٹیٹمنٹ منگواتے وقت آپ موجود تھے؟ وقاص ملک نے جواب دیا کہ جب بینک اسٹیٹمنٹ آئی تو میں موجود نہیں تھا، الیکشن کمیشن نے بینک اسٹیٹمنٹ منگوائی۔

وکیل الیکشن کمیشن سعدحسن نے کہا کہ گواہ وقاص ملک توشہ خانہ کا ماہر نہیں ہے، صرف شکایت دائر کی۔

اس دوران پی ٹی آئی وکلا کی جانب سے دورانِ سماعت بار بار جملے بولنے پر جج ہمایوں دلاور نے اظہار برہم کیا، انہوں نے ریمارکس دیے کہ بیٹھ جائیں، آپ کو اس بار کہہ رہاہوں بیٹھ جائیں، جواب میں پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ میں بیٹھ رہاہوں لیکن آپ میری عزت مجروح نہ کریں۔

وکیل خواجہ حارث نے گواہ سے پوچھا کہ کیا چیئرمین پی ٹی آئی کے بینک الفلاح اکائونٹ کی بینک اسٹیٹمنٹ آپ کی موجودگی میں تیار کی گئی، جس پر گواہ وقاص ملک نے کہا کہ درست ہے کہ بینک الفلاح کی بینک اسٹیٹمنٹ میری موجودگی میں تیار نہیں کی گئی۔

خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا کمپلینٹ فائل کرنے سے پہلے آپ نے بینک الفلاح کی بینک اسٹیٹمنٹ دیکھی تھی، کیا آپ نے بینک اسٹیٹمنٹ کی سرٹیفائیڈ کاپی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔

گواہ وقاص ملک نے کہا کہ بینک اسٹیٹمنٹ کی کاپی کمپیوٹر جنریٹڈ ہوتی ہے اور عام طور پر یہ سرٹیفائیڈ نہیں ہوتی ، یہ درست ہے کہ دستاویز پر کسی بینکر کی جانب سے دستخط نہیں کیے گئے ۔

گواہ وقاص ملک نے کہا کہ بینک اسٹیٹمنٹ الیکشن کمیشن نے اسٹیٹ بینک کے ذریعے حاصل کی۔

وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن نے جب بینک اسٹیٹمنٹ کے لیے اسٹیٹ بینک کو خط لکھا کیا آپ اس میں شامل تھے، اس پر گواہ نے کہا کہ جب خط لکھا گیا میں اس میں شامل نہیں تھا، بینک اسٹیٹمنٹ میں نے وصول نہیں کی، میں اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ بینک نے کب کمپیوٹر جنریٹڈ اسٹیٹمنٹ جاری کی ۔

خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ توشہ خانہ سے تحفہ لیا جاتا ہے تو اس کی ایک قیمت ادا کرنا ہوتی ہے ۔

الیکش کمیشن کے وکیل نے کہا کہ گواہ توشہ خانہ کے ماہر نہیں ہیں اس لیے اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے، گواہ کا تعلق الیکشن کمیشن سے ہے نہ کابینہ ڈویژن سے۔

گواہ وقاص ملک نے کہا کہ کابینہ ڈویژن کا توشہ خانہ کی تحائف کی ایولیو ایشن سے متعلق ڈاکومنٹ میں نے نہیں پڑھا، یہ درست ہے دستاویز میں لکھا ہوا ہے کہ جو تحائف ایک خاص حد سے کم کے ہوں انھیں تحفہ وصول کرنے والا رکھ سکتا ہے، اگر ایک خاص حد سے زیادہ مالیت کا تحفہ ہو تو اسے قمیت کی مخصوص مالیت جمع کروا کر رکھا جاسکتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ تحفہ کی ایویلیو ایشن کی بنیاد پر رقم جمع کروانا ہوتی ہے، میرے بیان کے مطابق 2 کروڑ 15 لاکھ سے زائد رقم ملزم نے تحائف رکھنے کے لیے قومی خزانے میں جمع کروائی، شکایت کے ساتھ لگائے گئے اثاثہ جات اور انکم ٹیکس کے دستاویزات میں نے پڑھے تھے ۔

گواہ نے کہا کہ بینک الفلاح کے اکائونٹ کی بینک اسٹیٹمنٹ بھی میں نے دیکھی تھی، ملزم کا موقف تھا کہ تحائف جون 2019 سے پہلے بیچ دیے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کیا دیکھا گیا کہ تحائف کی فروخت سے جو رقم آئی اسے ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کیا گیا یا نہیں، گواہ نے کہا کہ 5 کروڑ 80 لاکھ کی رقم 2018-19 کے ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر کی گئی تھی، اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ توشہ خانہ کے تحائف سے آنے والی رقم ہے۔

عمران خان کے وکیل نے پوچھا کہ کیا آپ نے جاننے کی کوشش کی کہ 5 کروڑ 80 لاکھ کس چیز کے ملے تھے اس پر گواہ نے کہا کہ ملزم نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ رقم بینک الفلاح کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی، میرے پاس اتھارٹی نہیں تھی کہ میں معلوم کرسکتا کہ رقم کہان سے آئی تھی۔

وکیل نے پوچھا کہ کیا الیکش کمیشن کے پاس بھی دستاویزات منگوانے کی اتھارٹی نہیں تھی۔

گواہ وقاص ملک نے کہا کہ 2 کروڑ 15 لاکھ روپے جمع کرائے گئے 5 کروڑ 80 لاکھ روپے کے تحائف بیچے گئے اسی طرح 3 کروڑ 65 لاکھ کا منافع ہوا۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کیا کمپلینٹ فائل کرنے سے پہلے آپ کے نوٹس میں آیا کہ 3 کروڑ 60 لاکھ بطور دوسرے ذرائع سے آمدن ظاہر کیے گئے۔

گواہ نے کہا کہ شکایت فائل کرنے سے پہلے یہ میرے نوٹس میں نہیں آیا، یہ درست ہے کہ ملزم نے منافع 90 لاکھ سے زائد ٹیکس ادا کیا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے اعتراض کیا کہ ٹیکس ریٹرن کے حوالے سے جرح کی جارہی ہے جس کے گواہ ایکسپرٹ نہیں، اور نہ ہی گوہ ٹیکس ریٹرن کے جواب دینے کے لیے تیار ہیں، گواہ کا تعلق الیکشن کمیشن سے ہے، معاملہ جھوٹا ڈیکلریشن دینے کا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ٹیکس ریٹرن سے الیکشن کمیشن کے گواہ کا تعلق کیا ہے، منافع اور ٹیکس دیکھنا ٹیکس افسر کا کام ہے، گواہ کا تعلق ایف بی آر سے نہیں ہے۔

گواہ وقاص ملک نے کہا کہ چیرمین پی ٹی آئی نے اپنے بیان میں کہا کہ 58 ملین روپے کی رقم نجی بینک اکاؤنٹ میں جمع کروائی، میرے پاس اتھارٹی نہیں کہ معلوم کروں کہ رقم کہاں سے آئی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے اعتراض کیا کہ گواہ کا تعلق الیکشن کمیشن سے ہے، ٹیکس ریٹرن پر جواب دینے کو تیار نہیں، ٹیکس ریٹرن سے الیکشن کمیشن کے گواہ کا تعلق کیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ منافع اور ٹیکس دیکھنا ٹیکس افسر کا کام ہے، گواہ کا تعلق ایف بی ار سے نہیں ہے، گواہ سے ٹیکس ریکارڈ کا حساب کتاب پوچھنا غیراہم ہے، دستاویزات موجود ہیں۔

بعدازاں جج ہمایوں دلاور نے عمران خان کے وکیل خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آج جو کچھ ہوا اس کے خلاف کارروائی کروں گا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ وکلا کی جانب سے معافی مانگتا ہوں۔

جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ اس سے قبل میں خصوصی عدالت کا جج تھا ایک سال میں 13 قتل کے کیسز کا فیصلہ کیا، آپ کوئی ایک دن بتائیں جس دن آپ نے اپنے انداز میں کلاس نہ لی ہو، آپ سینیئر کونسل ہیں ، لیکن آپ پنچنگ انداز میں بات کرتے ہیں۔

جج نے کہا کہ ’خواجہ حارث صرف آپ کی وجہ سے میں تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایکشن نہیں لوں گا، آپ نرم مزاجی سے جیسے کلائنٹ کو ہینڈل کرتے ہیں ویسے ہی عدالت کو بھی ٹھنڈا کر رہے ہیں‘۔

عدالت نے خواجہ حارث کی استدعا پر آج ہونے والے واقعہ کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل 10:30 تک ملتوی کردی۔ الیکشن کمیشن کے گواہ وقاص ملک پر جرح کل بھی جارہ رہے گی۔

**

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024