نائجر: صدر کی بحال کا الٹی میٹم ختم، شہری نئی فوجی انتظامیہ کی حمایت میں سڑکوں پر آگئے
نائجر کے دارالحکومت نیامی کا ماحول اتوار کے روز پُرسکون رہا، ایک جانب جہاں ملک میں باغی رہنماؤں کا صدر کو بحال کرنے کے لیے دیا گیا الٹی میٹم ختم ہو رہا ہے وہاں دوسری جانب مغربی افریقہ کے علاقائی بلاک کی جانب سے فوجی مداخلت سے شہری بے خوف دکھائی دے رہے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق نیامی کی سڑکوں پر لوگ باہر ضرور آئے لیکن جنتا کے لیے مخالفت نظر نہیں آئی، لوگوں نے کہا ہے کہ وہ 26 جولائی کے اقتدار پر قبضے کے بعد افواج کو ہٹانے کے حوالے سے بیرونی دباؤ کا شکار نہیں ہوں گے۔
3 سالوں کے دوران مغربی اور وسطی افریقہ میں ہونے والی یہ ساتویں بغاوت ہے جس نے ’مغربی ساحلی ریجن‘ کو ہلا کر رکھ دیا ہے، نائجر دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے اور یہ جزوی طور پر یورینیم اور تیل کے ذخائر کی وجہ سے روس، چین اور دیگر مغربی ممالک کے لیے اسٹریٹجک اہمیت کا حامل بھی ہے۔
نائجر میں فوجی بغاوت کے بعد اس اقدام کے حامی ہزاروں افراد نیامی اسٹیڈیم میں جمع ہوئے، اس سے قبل 100 سے زائد افراد فوجی دھنیں اور ہارن بجاتے ہوئے نیامی میں ایک فضائی اڈے کے قریب جمع ہوئے اور ضرورت پڑنے پر فوج کی زیرِ قیادت نئی انتظامیہ کو حمایت کی پیشکش کی۔
موجودہ حکمران نیشنل کونسل فار دی سیف گارڈ آف دی ہوم لینڈ (سی این ایس پی) کے اراکین کا ایک وفد 30 ہزار افراد کی گنجائش والے اسٹیڈیم میں پہنچا جنہیں حامیوں نے خوش آمدید کہا، جہاں اکثر لوگوں نے روسی پرچم اور سی این ایس پی رہنماؤں کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔
یہ اسٹیڈیم جسے سابق صدر سینی کوونچے کے نام پر رکھا گیا ہے انہوں نے 1974ء میں نائجر کی پہلی بغاوت کی قیادت کی تھی، اے ایف پی کے صحافیوں نے دیکھا کہ یہ اسٹیڈیم تقریباً بھرا ہوا تھا اور یہاں تہوار کا سا سماں تھا۔
سی این ایس پی کے رہنما جنرل محمد تومبا نے ایک تقریر میں ان عناصر کی مذمت کی جو چھپ کر ’نائجر کے فارورڈ مارچ‘ کے خلاف ’تبدیلی کی سازش‘ کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم ان کے مکار منصوبے سے واقف ہیں‘۔
یہ مظاہرہ مغربی افریقی ریاستوں کی کاروباری برادری (ای سی او ڈبلیو اے ایس) کی طرف سے باغی رہنماؤں کو صدر محمد بازوم کی بحالی کے لیے دیے گئے الٹی میٹم کے خلاف ہے، لیکن اب تک 26 جولائی کو اقتدار پر قبضہ کرنے والے جرنیلوں نے اقتدار سے ہٹنے پر آمادگی ظاہر نہیں کی ہے۔
واضح رہے کہ نائجر میں پُرتشدد مظاہروں کے دوران منتخب صدر محمد بازوم کو حراست میں لیے جانے کے تین روز بعد فوجی جنرل عبدالرحمٰنے ٹچیانی نے خود کو ملک کا نیا سربراہ قرار دیا تھا۔
امریکا اور فرانس نے بھی اس بغاوت کی مذمت کی ہے حالانکہ نائجر کی فوج کو مغربی افریقہ کے ممالک مالی اور برکینا فاسو میں ان کے ہم منصبوں کی حمایت حاصل تھی۔
ای سی او ڈبلیو اے ایس کے فوجی سربراہان نے حال ہی میں فوجی مداخلت کے ایک منصوبے پر اتفاق کیا تھا جس میں یہ بھی شامل تھا کہ اگر گرفتار صدر محمد بازوم کو 6 اگست تک بحال نہیں کیا گیا تو انہیں کب اور کہاں حملہ کرنا ہے، البتہ ای سی او ڈبلیو اے ایس نے جواب نہیں دیا کہ اس کا اگلا اقدام کیا ہوگا، یا الٹی میٹم کس وقت ختم ہوگا، ان کے ترجمان نے کہا کہ وہ دن کے اختتام پر ایک بیان جاری کریں گے۔
اتوار کو ٹیلی ویژن نشریات میں ای سی او ڈبلیو اے ایس کی پابندیوں کے پیش نظر یکجہتی کو فروغ دینے پر ایک گول میز کانفرنس کی گئی، ان پابندیوں سے بجلی کی کٹوتیوں اور خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے، اس نے ایک ایسے خطے میں مزید تصادم کے خدشات کو جنم دیا ہے جو پہلے ہی ایک اسلام پسند بغاوت سے نبردآزما ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک جبکہ لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
ایک پنشنر امادو آدمو نے کہا کہ ’نائجر کے شہری سمجھ چکے ہیں کہ یہ سامراجی ہمارا خاتمہ چاہتے ہیں، اور خدا نے چاہا تو وہ اس کا خمیازہ بھگتیں گے‘۔
59 سالہ گھریلو خاتون ہجو ہجدیا نے کہا کہ ’میں اس حوالے سے فکرمند نہیں ہوں کیونکہ میں جانتی ہوں کہ نائجر میں ای سی او ڈبلیو اے ایس کی کوئی بھی فوجی مداخلت سے اسی تنظیم کا نقصان ہوگا، یہ ان کے رہنماؤں کے حق نہیں ہوگا‘۔