• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

’مکینک جیسے ڈاکٹر بنے تو مسیحا نہیں بن سکیں گے‘

شائع August 16, 2023

’پہلی چار زچگیاں سیزیرین سے ہوئیں، پانچواں حمل ہے تقریباً چھے ہفتوں کا۔ مریضہ بری طرح تڑپ رہی ہے، پلیز دیکھ کر رائے دیجیے‘۔

انسانی مرض کی گتھیاں کھولنا ڈاکٹروں کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا۔ زیادہ تر مریضوں کے ساتھ تو کسوٹی کھیلنی پڑتی ہے۔

یہ کروں؟ یا وہ کروں؟ کون سی دوائی؟ کون سا آپریشن؟ یا ابھی کچھ بھی نہ کروں؟ کس دوائی یا آپریشن کی صورت میں کیا نتیجہ نکلے گا؟

تیس، بتیس سالہ خاتون الٹرا ساؤنڈ روم میں کاؤچ پر لیٹی ہوئی تھیں۔ چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں تھے۔

’کب درد شروع ہوا‘؟

’چار، پانچ گھنٹے پہلے‘۔۔۔

’کیسا درد تھا‘؟

’جیسے کوئی چھری سے اندر سوراخ کر رہا ہو‘۔۔۔

’کیا پہلے کوئی الٹراساؤنڈ کروایا تھا‘؟

’نہیں‘۔۔۔

ہم نے پیٹ پر ہاتھ رکھا تو وہ اچھل پڑیں۔ پیٹ مضروب تھا۔ بلڈ پریشر کی طرف نظر کی تو نارمل تھا، نبض کچھ تیز تھی مگر بہت زیادہ نہیں۔ ویجائنل الٹرا ساؤنڈ پر بچے دانی خالی تھی، لیکن اردگرد مائع تیرتا ہوا نظر آیا۔

خون؟

اووریز اور ٹیوبز میں بھی کچھ نہیں تھا۔ ’بیٹا ایچ سی جی کروائیں، ارجنٹ‘، ہم نے کہا۔

حمل کس درجے پر ہے اور ٹھیک ہے کہ نہیں، اس کا پتا خون میں موجود بیٹا ایچ سی جی نامی ہارمون بتاتا ہے۔

’ڈاکٹر، تشخیص کیا ہے‘؟ مریض کے لواحقین نے پوچھا۔

’بیٹا ایچ سی جی کے بعد تفصیل سے بات کریں گے‘، ہم نے کہا۔

بیٹا ایچ سی جی 2200 تھا۔ اب دماغ نے فیصلہ کرنا تھا کہ کیا کیا جائے؟

انسانی مرض کی گتھیاں کھولنا ڈاکٹروں کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا
انسانی مرض کی گتھیاں کھولنا ڈاکٹروں کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا

یہ حمل اگر نارمل ہوتا تو بیٹا ایچ سی جی کے مطابق بچے دانی میں نظر آنا چاہیے تھا۔ اگر بچے دانی خالی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حمل ہے تو سہی مگر کہیں اور۔ اگر حمل بچے دانی سے باہر پایا جائے تو ایکٹوپک (ectopic) حمل کہلاتا ہے۔ ایکٹوپک حمل بعض اوقات الٹرا ساؤنڈ میں نظر آتا ہے اور بعض دفعہ نہیں۔

اب ہمارے سامنے کچھ سوال تھے

کیا ایکٹوپک حمل ٹیوب میں تھا جو پھٹ گئی؟

کیا بچے دانی کے گرد نظر آنے والا مائع خون ہے جو ٹیوب کے پھٹ جانے کی وجہ سے نکلا؟

کیا ٹیوب پھٹی؟

یا ٹیوب سے حمل باہر نکلا یعنی ٹیوبل ابارشن؟

کیا حمل کہیں اور ہے جو الٹراساؤنڈ میں نظر نہیں آرہا؟

اب کیا کیا جائے؟

کیا فوراً آپریشن کیا جائے کہ پیٹ میں بلیڈنگ کے آثار موجود ہیں؟

کیا ایکٹوپک حمل کو ختم کرنے والا ٹیکہ لگایا جائے؟

کیا انتظار کیا جائے تاکہ صورت حال مزید واضح ہو جائے؟

ہر طریقہ علاج کے حق میں کچھ باتیں اور کچھ خلاف۔۔۔

اس صورت حال میں فوری آپریشن کیا جاسکتا تھا کیونکہ بیٹا ایچ سی جی 2200 تھا اور اس بیٹا ایچ سی جی پر اگر بچے دانی خالی ہے تو یہ لازمی ایکٹوپک حمل ہے۔ ساتھ میں مریض کو پیٹ میں درد بھی ہے اور پیٹ میں بلیڈنگ موجود ہونے کے آثار بھی تھے۔

اس وقت اگر کوئی بھی ڈاکٹر اس مریض کا آپریشن کرنا چاہے تو اسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ایک اور بات بھی سوچی جاسکتی ہے۔۔۔

یہ حمل اگر نارمل ہوتا تو بیٹا ایچ سی جی کے مطابق نظر آنا چاہیے تھا
یہ حمل اگر نارمل ہوتا تو بیٹا ایچ سی جی کے مطابق نظر آنا چاہیے تھا

ہو سکتا ہے کہ یہ ٹیوبل ابارشن ہو، مزید بلیڈنگ نہ ہو رہی ہو جس کا ثبوت بلڈ پریشر اور نبض کا تیز نہ ہونا ہے۔ تو کیا حرج ہے اگر ابھی آپریشن نہ کیا جائے اور انتظار کر لیا جائے۔ اگر مریض کی حالت بگڑی تو آپریشن کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے۔

یہ حل صرف وہ ڈاکٹر سوچے گا جس نے ڈاکٹری کو ایمان کی طرح پریکٹس کرنا ہو۔ آپ اندازہ لگا ہی چکے ہوں گے کہ ہمارا فیصلہ کیا تھا؟

’مریض کو کچھ کھانے پینے مت دینا، ہمیں نہیں پتا کب آپریشن کی ضرورت پڑ جائے؟

درد کا انجکشن مت لگانا۔ زیادہ درد کی صورت میں ہی ہمیں پتا چلے گا کہ اندر صورت حال بگڑ رہی ہے۔ درد کا انجکشن بعض اوقات اصل صورت حال پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ بلڈ پریشر اور نبض ہر پندرہ منٹ بعد ریکارڈ کرنی ہے۔ اگر اس میں کچھ تبدیلی ہو تو ہمیں بتایا جائے۔ اگر مریضہ ٹھیک رہی تو بیٹا ایچ سی جی اب سے اڑتالیس گھنٹے بعد کروایا جائے گا۔۔۔ باقی کا احوال اس وقت’۔

مریضہ اور لواحقین کو یہ سب تفصیلات سنا کر ہم گھر سدھارے۔ رات کو کوئی فون نہیں آیا، مطلب مریضہ ٹھیک تھی۔ اگلی صبح دیکھا تو پیٹ کا درد کچھ کم تھا۔

’ڈاکٹر صاحبہ اب الٹرا ساؤنڈ کر کے دیکھیں، ایک رشتے دار بولی‘۔

’نہیں ابھی ضرورت نہیں ہے۔ جب ہوگی، ہم آپ کے بغیر کہے کریں گے۔۔۔‘ ہم نے کہا۔

مریضہ اگلے اڑتالیس گھنٹے ٹھیک رہی۔ بلڈ پریشر اور نبض نارمل۔ پیٹ کا درد کم۔ اڑتالیس گھنٹے کے بعد بیٹا ایچ سی جی کروایا گیا تو وہ 1700 نکلا۔ الٹرا ساؤنڈ پر نظر آنے والا مائع بھی پہلے سے کم تھا۔ ہماری تشخیص ٹھیک تھی۔ یہ ٹیوبل ابارشن تھا۔

’کیا اب ہم گھر جائیں‘؟ مریضہ نے پوچھا۔

’نہیں، ابھی نہیں‘، ہم نے کہا۔

’کیوں‘؟

’دیکھیے، بیٹا ایچ سی جی پہلے سے کم ہوا، لیکن ابھی بھی کافی زیادہ ہے۔ ایکٹوپک حمل میں ہمیں محتاط رہنا پڑتا ہے۔ اڑتالیس گھنٹے بعد پھر ایک بیٹا ایچ سی جی ٹیسٹ ہوگا‘۔

دو دن کے بعد بیٹا ایچ سی جی 900 تھا۔ الٹرا ساؤنڈ پر بہت کم مائع نظر آیا۔

لیجیے جناب، مریضہ گھر جانے کو تیار تھی۔

’لیکن جب تک بیٹا ایچ سی جی زیرو نہ ہو جائے تمہیں فالو اپ کے لیے اسپتال آنا ہوگا اور ہاں ابھی ازدواجی تعلقات میں احتیاط۔۔۔‘ ہم نے مریضہ کو ضروری ہدایات دیتے ہوئے کہا۔

صاحب۔۔۔ ڈاکٹری سے اگر لطف اٹھانا ہو تو اسے شطرنج کی بازی سمجھ کر کھیلنا چاہیے، ہر چال پر غوروفکر اور اس کے نتیجے میں کیا ہوگا اس پر آپ کی نظر ہونی چاہیے۔ اگر آپ بیزار مکینک جیسے ڈاکٹر بنے تو مسیحا نہیں بن سکیں گے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی پیشے کے اعتبار سے کنسلٹنٹ گائناکالوجسٹ ہیں۔ آپ اردو بلاگ نگاری اور پنجابی زبان میں شاعری بھی کرتی ہیں۔ آپ کی دو کتابیں بعنوان 'مجھے فیمینسٹ نہ کہو' اور 'کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ' بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آپ نے گائنی فیمنزم کا خیال پیش کیا ہے۔ آپ سمجھتی ہیں کہ خواتین کو اس وقت تک بااختیار نہیں بنایا جاسکتا جب تک وہ معاشرتی ممنوعات کو توڑتے ہوئے اپنے جسم کے بارے میں کھل کر بات نہ کرسکیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024