ملک میں ہر کسی کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہے، بلاول بھٹو زرداری

شائع September 12, 2023
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے واپس آنے کے پیچھے جو کہانی ہے، اب کھلنی چاہیے — فوٹو: ڈان نیوز
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے واپس آنے کے پیچھے جو کہانی ہے، اب کھلنی چاہیے — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ملک میں ہر کسی کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہے۔

سکھر میں قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہونے والے سندھی اخبار اور ٹی وی کے صحافی جان محمد مہر کے اہل خانہ سے تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک صحافی نے ان سے سوال پوچھا کہ کیا لیول پلیئنگ فیلڈ ہے کیونکہ عمران خان جیل میں ہیں اور نواز شریف ملک سے باہر ہیں، جس کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ملک میں اس وقت ہر کسی کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہے اور یہی میرا اعتراض ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ صحافی جان محمد مہر کا قتل پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری دنوں میں ہوا تھا جس پر اُس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی تھی کہ قاتلوں کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ آج مجھے بتایا گیا کہ جس طریقے سے اس کیس کی پیش رفت ہونی چاہیے تھی اس طریقے سے نہیں ہوئی اور کافی سوالات ہیں، نگران حکومت اور بیوروکریسی کو اندازہ ہونا چاہیے کہ ہم کیوں چاہتے ہیں کہ جلد از جلد انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں جو افسران آئے ہیں وہ دیگر صوبوں سے ہیں، اس لیے شاید انہیں اندازہ نہ ہو لیکن پورے سندھ کا مطالبہ ہے کہ صحافی جان محمد مہر کو انصاف دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ کہا کہ امید ہے کہ نگران وزیر اعلیٰ سندھ خود اہل خانہ کے پاس تشریف لائیں گے۔

’افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی ہتھیار کچے کے دہشتگردوں کے پاس پہنچے ہیں‘

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کا مقابلہ کرنے والے پولیس اہلکاروں کو ہم سب کی مدد کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی ہتھیار خیبرپختونخوا اور سندھ کے کچے کے علاقے میں دہشت گردوں کے پاس پہنچے ہیں تو اندازہ ہونا چاہیے کہ عمران خان کی پالیسی کتنی خطرناک تھی جس کے اثرات اب ظاہر ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک بھر میں اس لیے دہشت گردی سر اٹھا رہی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کی پالیسی پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، 2014 کے آپریشن سے قبل تمام جماعتیں کہتی تھیں کہ دہشت گردوں سے بات چیت کی جائے لیکن پیپلز پارٹی ہی تھی جس نے کہا تھا کہ دہشت گردوں سے مقابلہ کرنا ہوگا۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عمران خان نے نیشنل سیکیورٹی پالیسی کو چند دنوں میں خراب کر دیا اور جب افغانستان میں طالبان حکومت آئی تو انہوں نے ان دہشت گردوں کے لیے بھی راستے کھول دیے، جو افغانستان کی جیلوں سے فرار ہو کر یہاں آئے، انہوں نے ان کو آباد کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

انہوں نے کہا کہ کیا سابق فوجی افسر جنرل (ر) فیض حمید اور عمران خان کو اندازہ نہیں تھا کہ اگر وہ ان دہشت گردوں کو فاٹا کے علاقے میں پھر سے آباد کریں گے تو ان کو کراچی پہنچنے تک کتنی دیر لگے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اب کیسے ممکن ہے کہ پاکستان کے شہری، سیاستدان، پولیس، فوج شہادتیں دے، ہم وہ کام کریں جو نیٹو افغانستان میں نہیں کر سکا، وہ ہم یہاں کیسے کریں اور قوم کے دشمن کو معاف کرنے کا فیصلہ قوم کے دو، تین فرد کریں۔

’ملک کو پرانے طریقے پر چلانا چھوڑا جائے، شہریوں اور شہدا کے ساتھ انصاف کرنا چاہیے‘

سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس ملک کو چلانے کا پرانا طریقہ چھوڑا جائے، ہم اپنے عوام، شہریوں، شہدا اور ریاست کے ساتھ انصاف کریں، اور جو لوگ اس غلط فیصلے میں ملوث تھے تو ان کا احتساب ہونا چاہیے، اگر وہ سیاستدان ہیں تو ان کا احتساب عوام کریں گے اور وہ کسی اور ادارے سے ہیں تو ان کا احتساب وہ ادارہ کرے کہ پاکستان کے دشمنوں کو ایک بار پھر پاکستان میں مسلط کیا گیا تو اس کے پیچھے ایک کہانی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام اور شہدا کے خاندانوں کو بتایا جائے کہ دہشت گردوں کے واپس آنے کے پیچھے جو کہانی ہے، اب کھلنی چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق جن علاقوں سے گیس دریافت ہوتی ہے سب سے پہلے ان کو حق ملنا چاہیے، پھر اس کے بعد باقی علاقوں کو بیچیں، ہمیں کہا جاتا ہے کہ آپ مہنگی ایل این جی خریدیں، اور آپ کی جو سستی گیس ہے، اسے دور دور تک پہنچانا ہے، لہٰذا اس ناانصافی کو ختم کرنا ہوگا،

ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہم اس ناانصافی کو ختم نہیں کرسکتے تب تک اس بجلی کے مسئلے کو حل نہیں کیا جاسکتا۔

’بجلی ملتی نہیں، اور بل ایسا آتا ہے کہ 24 گھنٹے استعمال کی ہو‘

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آئی ایم ایف یہ نہیں کہتا کہ جہاں آپ بجلی دے بھی نہیں رہے، مطلب 18 گھنٹے بجلی نہیں ہے اور بجلی کا بل ایسے آتا ہے کہ آپ نے 24 گھنٹے بجلی استعمال کی ہے، تو چوری آپ کر رہے ہیں یا بل بھیجے والا، چلیں میں مانتا ہوں کہ بجلی مہنگی ہوگئی ہے اور استعمال کے مطابق ضرور قیمت لیں۔

انتخابات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر سابق وزر خارجہ نے کہا کہ عام انتخابات کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، اس لیے ہم ان سے ہی تاریخ دینے کا کہہ رہے ہیں، مزید کہا کہ مہنگائی اور معیشت بھی انتخابات سے جڑے ہیں کیونکہ اگر منتخب نمائندے کو اسلام آباد میں بٹھائیں گے تو وہ آپ کی نمائندگی کر سکیں گے، اور ان مسائل کو حل کر سکیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 4 اکتوبر 2024
کارٹون : 3 اکتوبر 2024