آئی ایم ایف کا دباؤ: نگران حکومت کا گیس کی قیمتیں بڑھانے سمیت دیگر اقدامات پر غور
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے گردشی قرضوں پر قابو پانے کے لیے نگران حکومت کو گیس کے شعبے میں قیمتوں میں ردوبدل سمیت دیگر اقدامات فوری اٹھانے ہوں گے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان اقدامات میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے شہری علاقوں کے وصول کنندگان کو ادائیگیوں میں اضافہ، بلوچستان میں موسم سرما کے دوران گیس کے لیے فنڈز مختص کرنا اور توانائی کے اداروں کے درمیان انٹر کارپوریٹ ادائیگیوں اور وصولیوں کو طے کرنے کے لیے کیش اور نان کیش بک ایڈجسٹمنٹ کرنا شامل ہیں۔
علاوہ ازیں نگران حکومت کو طویل مدتی انتظامی تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہوگی، جس میں 2 موجودہ سوئی گیس کمپنیوں سے ٹرانسمیشن نیٹ ورک کو الگ کرنا، مقامی گیس اور درآمدی ایل این جی کی اوسط لاگت کی طرف بڑھنا اور تیل و گیس کے مالیکیولز کی پیداوار میں اضافہ شامل ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا)، وزارت خزانہ اور وزارت توانائی کے ساتھ سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) اور سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) کے نمائندے قیمتوں کا تعین کرنے کے طریقہ کار اور توانائی کے شعبے کے اداروں کی ادائیگیوں اور وصولیوں کی ری اسٹرکچرنگ میں مصروف رہے اور آج بھی مشاورت جاری رکھیں گے۔
بنیادی چیلنج یہ ہے کہ شہری مراکز میں غریب گھرانوں کو گیس کی قیمتوں میں اضافے سے کیسے بچایا جائے، شہری گھرانے دیہی علاقوں کے مقابلے میں گیس کی سستی قیمتوں کے عادی ہیں، جو ایل پی جی اور دیگر مہنگے متبادل ایندھن کی بھاری قیمت ادا کرتے ہیں۔
بلوچستان میں یہ معاملہ اور بھی پیچیدہ ہوجاتا ہے، جہاں شدید سردیوں کے دوران ہزاروں افراد کی بقا کے لیے گیس کی فراہمی بہت ضروری ہے، یہ لازمی طور پر ایس ایس جی سی ایل کے ’ان-اکاؤنٹڈ فار گیس (یو ایف جی) لاسز ’کی قیمت پر کیا جانا چاہیے، جو 14 فیصد اور 18 فیصد کے درمیان ہے۔
بلوچستان میں غریبوں کے تحفظ کے لیے تقریباً 10 ارب روپے کی سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے، جبکہ بی آئی ایس پی کے تحت نقد رقم میں اضافے پر کام کیا جا رہا ہے تاکہ شہروں میں غریب گھریلو صارفین گیس کی قیمتوں میں رواں مالی سال 45 سے 50 فیصد اضافے کا اضافی بوجھ برداشت کر سکیں۔
سینئر سرکاری حکام نے بتایا کہ ہمیں کم آمدنی والے صارفین کا خیال رکھنا ہے، مثال کے طور پر بلوچستان میں کم آمدنی والے صارفین نسبتاً زیادہ کمزور ہیں اس کی وجہ سردیوں میں درجہ حرارت میں شدید کمی اور سالانہ سردی کی لہر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کے کم آمدنی والے صارفین کے لیے رواں برس 10 ارب روپے کی لاگت سے خصوصی ٹیرف پر کام کیا جا رہا ہے اور مستقبل میں اس میں اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
حکام نے مشاہدہ کیا کہ دور دراز کے علاقوں کے رہائشی مہنگے گیس سلنڈر استعمال کرنے پر مجبور ہیں جبکہ شہری علاقوں کے لوگوں کو نمایاں طور پر کم قیمت پر پائپ لائن کے ذریعے گیس ملتی ہے۔
نگران وزیر برائے توانائی محمد علی نے رپورٹ کیا کہ گیس سیکٹر کے گردشی قرضے 15 ستمبر تک 29 کھرب تک جا پہنچے ہیں، جو ایک ہفتے قبل 27 کھرب تھے، ان کے پیش رو نے 9 اگست کو اپنی وزارت کے آخری روز 17 کھرب روپے کے گردشی قرضے بتائے تھے۔
گردشی قرضوں کے بڑے حصے کو 30 ستمبر سے پہلے اور یکم جولائی سے نافذ العمل قیمت کو ایڈجسٹ کر کے پُر کرنا ہوگا تاکہ موسم سرما میں استعمال میں اضافے سے قبل بوجھ کا کچھ حصے کا صارفین کو بل بھیجا جاسکے۔
ستمبر کے آخر میں آئی ایم ایف کے آئندہ جائزے کے دباؤ کی وجہ سے، اسٹیک ہولڈرز گیس کی قیمتوں میں ایڈجسٹمنٹ اور اس کے بعد وفاقی کابینہ کی توثیق اور باضابطہ نوٹی فکیشن کے حوالے سے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے لیے سمری کو حتمی شکل دینے کے لیے منگل کو دوبارہ اجلاس کریں گے۔
گیس کی قیمتوں میں تمام صارفین کے لیے اضافہ کیا جائے گا، سب سے زیادہ بوجھ زیادہ استعمال کرنے والے صارفین پر پڑے گا۔