عالمی ادارہ صحت نے ملیریا کی کم لاگت والی زیادہ مؤثر ویکسین کی منظوری دے دی
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خطرناک بیماری ملیریا سے بچاؤ کے لیے انتہائی مؤثر، کم لاگت اور بڑے پیمانے پر تیار کردہ نئی ویکسین کی منظوری دے دی۔
آر 21/ میٹرکس-ایم نامی ویکسین آکسفورڈ یونیورسٹی نے تیار کی ہے جو اب تک کی دوسری ویکسین ہے۔
ملیریا ایک ایسی بیماری ہے جو مخصوص مچھروں کے کاٹنے سے پھیلتی ہے، اس بیماری سے ہر سال تقریباً 5 لاکھ لوگ جان کی بازی ہار جاتے ہیں، ملیریا سے بنیادی طور پر پانچ سال سے کم عمر بچے اور حاملہ خواتین زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ادہانوم گیبریئسس کا کہنا تھا کہ ملیریا کے محقق کے طور پر یہ میرا خواب تھا کہ ہمارے پاس ملیریا کے خلاف ایک محفوظ اور مؤثر ویکسین ہو اور آج ہمارے پاس دو ویکسینز موجود ہیں۔
ملیریا کے خلاف پہلی ویکسین 2021 میں برطانوی دوا ساز کمپنی گلیکسو اسمتھ کلائن (جی ایس کے) نے تیار کی تھی جس کا نام آرٹی ایس تھا جس کی ڈبلیو ایچ او نے بھی منظوری دی تھی۔
تاہم مذکورہ ویکسین میں کم سرمایہ کاری اور دوا ساز کمپنی کو فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے اس کی خوراکیں انتہائی کم بنائی گئیں لیکن اب ڈبلیو ایچ او نے ایک اور دوا ساز کمپنی کی جانب سے بنائی گئی ویکسین کی منظوری دے دی ہے۔
ڈاکٹر ٹیڈروس نے کہا کہ توقع ہے کہ ڈبلیو ایچ او کی تجویز کردہ دوسری ویکسین سے زیادہ سے زیادہ بچے فائدہ اٹھا سکیں گے اور دنیا کو ملیریا سے پاک کرنے کے عزم کو پورا کریں گے۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ دونوں ویکسین میں کوئی میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے، دونوں کے فائدے ’ملتے جلتے‘ ہیں۔
تاہم اہم فرق یہ ہے کہ یونیورسٹی آف آکسفورڈ کی تیار کردہ ویکسین (جسے آر 21 کہا جاتا ہے) بڑے پیمانے پر تیار کی گئی ہے۔
سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا (عالمی سطح پر ویکسین بنانے والا سب سے بڑا ادارہ ہے) نے ہر سال 10 کروڑ سے زیادہ خوراکیں تیار کرنے کا وعدہ کیا ہے اور اسے سالانہ 20 کروڑ خوراکوں تک بڑھانے کا منصوبہ ہے۔
دوسری جانب پرانی ویکسین آر ٹی ایس ایس کی صرف ایک کروڑ 80 لاکھ خوراکیں ہیں۔
’دوسری ویکسین 75 فیصد زیادہ مؤثر ہے‘
2021 میں ملیریا کے 24 کروڑ 70 لاکھ کیسز سامنے آئے تھے اور 6 لاکھ 19 ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے، جن میں سے زیادہ تر 5 سال سے کم عمر کے بچے شامل تھے، ملیریا کے 95 فیصد سے زیادہ کیسز افریقہ سے ہیں۔
افریقا میں ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ماتشیڈیسو موتی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ملیریا کے خلاف دوسری ویکسین طلب اور رسد کے بڑے فرق کو ختم کرے گی‘۔
انہوں نے کہا کہ یہ ویکسین ملیریا کی روک تھام، بیماری کے کنٹرول اور لاکھوں نوجوانوں کی زندگیاں بچانے میں مدد کر سکتی ہیں۔
عام سائنسی جائزے کے بغیر جو ڈیٹا انٹرنیٹ پر دستیاب ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آر 21 ویکسین ملیریا کو روکنے میں 75 فیصد مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شرح پہلی ویکسین کے مقابلے زیادہ مؤثر ہے۔
آکسفورڈ میں جینر انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر سر ایڈریئن ہل نے کہا کہ یہ ویکسین آسانی سے قابل استعمال اور کم لاگت ہے، ان علاقوں میں تقسیم کے لیے تیار ہے جہاں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
پاکستان میں ملیریا کے کیسز
یاد رہے کہ اپریل 2023 میں عالمی ادارہ صحت نے بتایا تھا کہ پاکستان میں گزشتہ برس تباہ کن سیلاب کے سبب ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا تھا، جس کے بعد ملیریا کے کیسز چار گنا بڑھ کر 16 لاکھ ہو گئے ہیں۔
عالمی فنڈ کے سربراہ پیٹر سینڈز نے بتایا کہ مارچ میں ملاوی میں سائیکلون فریڈی کی وجہ سے 6 دنوں میں 6 مہینے جتنی بارش ہوئی، جس کے سبب وہاں بھی کیسز بڑھ گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان اور ملاوی جیسے ممالک کا حقیقی معنوں میں مشاہدہ کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے ملیریا پر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔