• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

تنازعات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے خواتین صحافی کن مشکلات کا سامنا کرتی ہیں؟

تنازعات کی رپورٹنگ میں یہاں وہی خواتین صحافی نظر آتی ہیں جو ثابت کرچکی ہوتی ہیں کہ وہ ہر طرح کا کام کرسکتی ہیں یعنی وہ صحافت کو صرف تنخواہ کے لیے نہیں بلکہ ایک جنون کے طور پر اپناتی ہیں۔
شائع October 19, 2023 اپ ڈیٹ October 20, 2023

پاکستان 1980ء کی دہائی میں افغان جنگ کے زیرِ اثر رہا اور پھر 11 ستمبر 2001ء کا واقعہ ہوگیا جس کے اثرات آج تک ہم دیکھ رہے ہیں۔ کبھی خودکش بم دھماکے تو کبھی مذہبی اور سیاسی انتشار نے تنازعات کی صورت اختیار کی اور کبھی لسانی گروہوں نے شہروں کا نقشہ بدلا۔

کسی صنفی تفریق کے بغیر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان تمام حالات میں صحافت کرنا آسان کام نہیں رہا۔ خواتین صحافیوں کی بات کی جائے تو پاکستان میں ان کی تعداد کم ہے۔ فریڈم نیٹ ورک کی 2017ء کی رپورٹ میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے ڈیٹا کا حوالہ دیا گیا ہے کہ پاکستان میں 20 ہزار مرد صحافیوں کے مقابلے میں صرف 5 فیصد خواتین صحافی کام کرتی ہیں۔

تاہم یہ 5 سال پرانا ڈیٹا ہے۔ خواتین صحافیوں کی موجودہ تعداد جاننے کے لیے ہم نے کئی اداروں سے بات کی لیکن درست معلومات حاصل نہ ہوسکیں۔ خواتین صحافیوں کو کام کرنے کے دوران زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ رجحان ہمیں پوری دنیا میں نظر آتا ہے۔ اس تناظر میں اگر ’کونفلیکٹ یا تنازعات‘ میں کام کرنے والی خواتین صحافیوں کی بات کریں تو انہیں انگلیوں پر گِنا جاسکتا ہے۔

2023ء کی اقوامِ متحدہ کی سروے رپورٹ بتاتی ہے کہ 125 ممالک کی 73 فیصد صحافی خواتین کو ان کی رپورٹنگ کی وجہ سے آن لائن تشدد کا سامنا کرنا پڑا جبکہ انٹر نیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ کے مطابق 2022ء میں رپورٹنگ کی وجہ سے 10 خواتین صحافی ہلاک ہوئیں۔ ان میں سے زیادہ تر کونفلیکٹ رپورٹر تھیں۔

پاکستان میں صحافت کا شعبہ آسان نہیں ہے۔ اسی مقصد کے تحت ہم نے سینیئر خواتین صحافیوں سے بات کی تاکہ یہ جان سکیں کہ انہوں نے مردوں کا میدان سمجھے جانے والے اس شعبے میں خود کو کیسے منوایا۔ ہم نے پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی صحافی خواتین سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کی صحافت کس ڈگر پر چلی اور وہ آج کیا محسوس کرتی ہیں۔ وہ تنازعات کی رپورٹنگ کے دوران کہاں کہاں پہنچیں اور انہوں نے کیا کیا دیکھا۔


خیبرپختونخوا سے فرزانہ علی


خیبرپختونخوا کی صحافی فرزانہ علی صحافت میں دو دہائیوں سے زائد کا عرصہ گزار چکی ہیں اور پشاور میں آج نیوز کی بیورو چیف ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’خیبرپختونخواہ میں 11 ستمبر 2001ء کے بعد صورتحال تبدیل ہوگئی لیکن 2006ء میں پشاور میں بم دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا، بس آپ یہ سمجھ لیں کہ میں جب سے ہی تنازعات کو کور کررہی ہوں۔ 2008ء اور 2009ء کے دوران جتنے آپریشن ہوئے وہ سب کور کیے۔ اس وقت پشاور میں اسکرین پر خواتین کم آتی تھیں اور بڑے ٹی وی چینلز کی خاتون صحافی چُھپ گئیں تھیں۔ ان حالات میں تو مرد صحافی بھی اپنی جان بچاتے پھرتے تھے، پھر خواتین کا رپوٹنگ کرنا تو مشکل تر تھا۔ ان دنوں شام 7 بجے ہاٹ فرنٹیئر کے نام سے شو آن ایئر جاتا تھا جس کے لیے مجھے شہر کے مختلف مقامات پر جانا پڑتا تھا‘۔

  سینیئر صحافی فرزانہ علی کو خیبرپختونخوا کے متنازع زون میں رپورٹنگ کا تجربہ حاصل ہے
سینیئر صحافی فرزانہ علی کو خیبرپختونخوا کے متنازع زون میں رپورٹنگ کا تجربہ حاصل ہے

یادگار رپورٹنگ

فرزانہ علی یاد کرتی ہیں کہ ’2010ء میں جب باجوڑ کے علاقے ڈمہ ڈولہ کی قدرتی غاروں کو پاک فوج نے دہشتگروں سے خالی کروالیا تب میں اپنی ٹیم کے ہمراہ اس علاقے میں رپورٹنگ کرنے گئی۔ چونکہ ان غاروں میں دہشتگردوں کے ٹھکانے ہوتے تھے اس لیے ہر صحافی اس علاقے کو کور کرنا چاہتا تھا۔ میں پہلی خاتون صحافی تھی جس نے غاروں کے اندرونی مناظر دکھائے۔ بحیثیت خاتون صحافی مجھے یہ اسٹوری آج بھی یاد ہے‘۔

رپورٹنگ کے دوران خطروں سے متعلق سوال پر فرزانہ علی نے کہا کہ ’خطرہ تو ہر جگہ ہی تھا خاص طور پر سالار زئی اور مامون میں جہاں دہشتگرد موجود تھے۔ پاک فوج کے آپریشن کے بعد ہم اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں گئے جبکہ دہشتگردوں کی نظروں میں آنے کا خطرہ موجود تھا۔ اس وقت وہاں لوگ باہر آنے جانے لگے تھے اور بازار آہستہ آہستہ کھل رہے تھے۔ یاد رہے کہ ان دنوں جرگوں پر بھی حملے ہوتے تھے‘۔

  ڈمہ ڈولہ کو پاک فوج نے دہشتگردوں سے خالی کروایا تو فرزانہ علی وہاں رپورٹنگ کرنے پہنچنے والی پہلی خاتون صحافی تھیں
ڈمہ ڈولہ کو پاک فوج نے دہشتگردوں سے خالی کروایا تو فرزانہ علی وہاں رپورٹنگ کرنے پہنچنے والی پہلی خاتون صحافی تھیں

2014ء میں انہوں نے آپریشن ضربِ عضب کور کیا جس میں تقریبا 35 ہزار سپاہیوں نے حصہ لیتے ہوئے دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا۔ اس دوران 8 لاکھ 60 ہزار مقامی افراد نے نقل مکانی کی۔ ڈیڑھ ہزار دہشتگردوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ 3 ہزار 600 دہشتگردوں کو گرفتار کیا گیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’دو سال تک چلنے والے اس آپریشن کے دوران میں پہلی خاتون صحافی تھی جو بکاخیل، میرعلی اور میران شاہ گئی۔ ہم پہلی بار آزادانہ طور پر ان علاقوں میں رپورٹنگ کرنے کے لیے پہنچے تھے۔ یہاں بھی وہی بات تھی کہ خطرہ تو موجود تھا لیکن مقامی لوگوں کی آواز کو عوام تک پہنچانا بھی ضروری تھا‘۔

فرزانہ علی دو سال پہلے 15 اگست 2021ء کو افغان طالبان کی عبوری حکومت قائم ہونے کے بعد افغانستان گئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ میرے لیے ایک الگ تجربہ تھا۔ بحیثیت خاتون صحافی میں نے ستمبر 2021ء میں وہاں جا کر رپورٹنگ کی جبکہ طالبان نے ہمیں روک بھی لیا اور ساڑھے 3 گھنٹے قیدی بنا کر رکھا۔ وہ بھی ایک مشکل وقت تھا لیکن یہ سب نیا تجربہ تھا۔ بحیثیت بیورو چیف مجھے پتا چلا کہ خطرے میں اپنی اور اپنی ٹیم کی حفاظت کیسے کرنی چاہیے اور اس خطرے سے نمٹنا کیسے ہے‘۔


کراچی سے سدرہ ڈار


14 سال کا صحافتی تجربہ رکھنے والی سدرہ ڈار ایک بین الاقوامی نیوز ایجنسی سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جہاں تک تنازعات کی رپورٹنگ کی بات ہے تو ہمارا شہر کراچی کئی دہائیوں تک تنازعات کی زد میں رہا ہے۔ قتل و غارت، بم دھماکے، خودکش حملے اور ہنگامے، یہ سب ہماری زندگی کا حصہ بھی رہے اور میں نے انہیں کور بھی کیا ہے‘۔

  سدرہ ڈار، کبھی تنازعات کا گڑھ کہلائے جانے والے کراچی میں رپورٹنگ کا تجربہ رکھتی ہیں—تصویر: فیس بُک
سدرہ ڈار، کبھی تنازعات کا گڑھ کہلائے جانے والے کراچی میں رپورٹنگ کا تجربہ رکھتی ہیں—تصویر: فیس بُک

یادگار رپورٹنگ

وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ 2012ء میں لیاری میں گینگ وار چل رہی تھی اور مقامی لوگ وہاں سے نقل مکانی کررہے تھے، ایسے میں ہم وہاں رپورٹنگ کرنے پہنچے۔ ہم نے ابھی بات شروع ہی کی تھی کہ گینگ وار والوں کو پتا چل گیا کہ میڈیا وہاں موجود ہے۔ وہ ہمارے پاس آئے اور ہم سے باس پرس کی۔ ہم خطرے محسوس کرتے ہوئے وہاں سے نکل گئے‘۔

ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے سدرہ ڈار نے بتایا کہ ’سیاسی جلسے بھی تنازع میں بدل چکے تھے کیونکہ ایک مخصوص سیاسی جماعت کو ہمارے چینل کی پالیسی پسند نہیں تھی۔ لہٰذا وہاں موجود چند شرپسند کارکنوں نے ہماری ڈی ایس این جی کو دیکھ کر ٹیم کو گھیر لیا۔ انہوں نے مجھے رپورٹنگ کے دوران پتھر مارے، ہراساں اور زدوکوب بھی کیا۔ یہ سلسلہ کافی دیر تک چلا یہاں تک کہ جلسہ ختم ہوا اور جلسہ ختم ہوتے ہوتے پورا علاقہ ہی کونفلکیٹ زون بن چکا تھا۔ کئی اور واقعات ایسے بھی ہیں جہاں مجھے لگا کہ خطرہ زیادہ بڑھ گیا ہے اور ہم پھنس چکے ہیں‘۔

سدرہ ڈار نے ہمیں مزید بتایا کہ ’میں نے ہر طرح کی رپورٹنگ کی ہے۔ مجھے بہت سی چلینجنگ اسٹوریز یاد ہیں لیکن پچھلے سال میں نے سیلاب میں رپورٹنگ کی تھی۔ جب میں گراؤنڈ پر اتری تو نہ کوئی مقامی اور نہ ہی بین الاقوامی خاتون رپورٹر فیلڈ میں پہنچی تھی۔ میرے جانے کے بعد مختلف چینلز فیلڈ میں آئے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی کونفلکیٹ زون میں سب سے زیادہ خواتین ہی متاثر ہوتی ہیں۔ چاہے وہ دہشتگردی کے واقعات ہوں یا قدرتی آفات۔ اس صورتحال میں بحیثیت خاتون رپورٹر یہ میرے لیے ایک چیلنج بھی تھا اور ٹیسٹ بھی اور میں سمجھتی ہوں کہ میں نے اپنا کام پورا کیا ہے۔ کبھی کبھی مجھے فخر بھی ہوتا ہے کہ میں نے اتنے مشکل حالات میں رپورٹنگ کی اور کئی کئی دن تک فیلڈ میں رہ کر براہِ راست اور ریکارڈ رپورٹس پیش کیں‘۔

  سدرہ ڈار سیلاب کے دوران فیلڈ میں اترنے والی پہلی خاتون صحافی تھیں—تصویر: فیس بُک
سدرہ ڈار سیلاب کے دوران فیلڈ میں اترنے والی پہلی خاتون صحافی تھیں—تصویر: فیس بُک


لاہور سے زری جلیل


صحافت میں 23 سال کا تجربہ رکھنے والی زری جلیل نے اپنے کام کا آغاز بطور کرائم رپورٹر کیا۔ انہوں نے ڈان اور دی نیوز اخبار میں کام کیا۔ آج کل وہ انسانی حقوق پر کام کرنا زیادہ پسند کرتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم وائس پی کے کی شریک بانی بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’تنازع تو کبھی بھی اور کہیں بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ صحافی ذہنی طور پر تیار رہتے ہیں کہ کوئی بھی منظر کسی بھی وقت تنازع میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ لہٰذا یہ سمجھنا کہ تنازعات کی رپورٹنگ صرف جنگ اور سرحدوں سے ہوتی ہے تو یہ تاثر درست نہیں۔ یہ کسی بھی شہر اور کسی بھی وجہ سے ہوسکتی ہے۔ دھیان رہے کہ صحافیوں کو رپورٹنگ کرنے میں زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے‘۔

زری جلیل نے بتایا کہ ’میری کوشش ہوتی ہے کہ میں ایکسکلیوسیو اسٹوری نکال کر لاؤں یعنی خبر کا ایک ایسا پہلوں دیکھوں جس پر کام نہیں ہوا ہو اور تحقیق اور فیلڈ پر جائے بغیر یہ پہلو نکالنا ممکن نہیں۔ اس لیے میں فیلڈ میں جا کر فوٹیج اور اسٹوری لاتی ہوں‘۔

یادگار رپورٹنگ

زری جلیل سمجھتی ہیں کہ خواتین صحافیوں کو حالات سے آگاہ رہنا چاہیے کیونکہ ایسے کئی واقعات ہیں جن کی رپورٹنگ کے دوران میں وہ مشکل میں گھر جاتی تھیں۔ انہوں نے 2015ء میں یوحنا آباد میں ہونے والے لگاتار دو دھماکے رپورٹ کرنے کا تجربہ ہمیں بتایا کہ ’میں جب یوحنا آباد پہنچی تو وہاں آپس میں جھگڑا شروع ہوچکا تھا۔ وہاں آپے سے باہر ایک ہجوم تھا جس میں باہر سے آئے ہوئے لڑکے بھی شامل ہوچکے تھے، جنہوں نے شراب پی رکھی تھی اور ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھا رکھے تھے۔ میں بالکل سڑک کے کنارے پر کھڑی تھی۔ اب یہ میری غلطی تھی یا بے وقوفی کہ میں وہاں پھنس گئی۔ مجھے اس وقت دیگر صحافیوں کے ساتھ ہی رہنا چاہیے تھا۔ میں کیونکہ مقامی سورس کے ساتھ تھی اور مجھے لگا کہ میں صحیح کر رہی ہوں۔

  زری جلیل فیلڈ میں جاکر اسٹوری کا دوسرا اینگل تلاش کرتی ہیں—تصویر: فیس بُک
زری جلیل فیلڈ میں جاکر اسٹوری کا دوسرا اینگل تلاش کرتی ہیں—تصویر: فیس بُک

’مقامی آبادی سے گفتگو ابھی چل ہی رہی تھی کہ ہجوم نے مجھے گھیرنا شروع کردیا جس سے مجھے ایک دم خطرہ محسوس ہوا۔ آپ جب اس طرح کے ہجوم میں گِھر جاتے ہیں تو آپ کو ہراسانی کا اور کسی بھی وقت ہجوم کے ری ایکشن کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان کے ذہن میں کوئی بات نہیں آرہی تھی۔ وہ ایک ہی بات کررہے تھے کہ ایک عورت بچے کو مار کر بھاگ گئی ہے اور یہ سچ بھی تھا لیکن ہجوم نے یہ سمجھنا شروع کردیا تھا کہ وہ عورت میں ہوں۔ یہ میری غلطی تھی کہ میں نے خطرے کو دیر سے بھانپا۔ البتہ میری سورس نے مجھے وہاں سے باہر نکالا‘۔

اسی واقعے سے متعلق انہوں نے مزید بتایا کہ ’اگلے دن جب میں کالونی کے اندر لوگوں سے بات کررہی تھی تو افواہ پھیل گئی کہ یوحنا آباد سے متصل مسلم آبادی سے ہتھیاروں سے لیس ایک ہجوم یہاں آرہا ہے۔ کوئی معمولی سا جھگڑا ہوا ہوگا جس پر اتنی بڑی باتیں شروع ہوگئیں۔ سب لوگوں نے بھاگنا شروع کردیا اور میں پریشان کھڑی رہ گئی۔ میں سمجھ نہیں پارہی تھی کہ میں اس وقت اکیلی جس صورتحال میں گھر چکی ہوں اس سے کیسے نکلوں‘۔


کوئٹہ سے رانی واحدی


رانی واحدی نے 2013ء میں ویمن شیڈز میگزین سے صحافت کا آغاز کیا۔ ڈی ڈبلیو سے منسلک رانی واحدی اب ڈاکومینٹریز سے پہچانی جاتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس 9 سالہ صحافتی سفر میں انہوں نے ان موضوعات پر کام کیا ہے جن پر کوئی بات نہیں کرتا۔

  رانی واحدی ڈی ڈبلیو کے لیے صحافتی خدمات سرانجام دے رہی ہیں—تصویر: لینکڈ ان
رانی واحدی ڈی ڈبلیو کے لیے صحافتی خدمات سرانجام دے رہی ہیں—تصویر: لینکڈ ان

وہ بتاتی ہیں کہ ’بحیثیت خاتون صحافی یہ میرے لیے ایک مشکل امر رہا۔ خاص طور پر اقلیت اور پناہ گزینوں پر کام میرے لیے مشکل موضوع رہا۔ اب ایک انٹرنیشنل ادارے سے منسلک ہونے کی وجہ سے مجھ سے براہ راست سوال کیا جاتا ہے کہ میں ان موضوعات پر کام کیوں کرتی ہوں۔ ان کی خواہش ہے کہ میں اپنے صوبے کے ہر حصے میں پہنچوں اور وہاں لوگوں کی کہانیاں سناؤں۔ ہمارے صوبے میں ایسے بہت سے علاقے ہیں جن کی وجہ شہرت بین الاقوامی سطح پر ہے جیسے ریکوڈک، سینڈک اور ہماری کوسٹل ہائی وے سے جڑی فشریز۔ وہاں کے عام لوگوں کی کہانیاں سنانا میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ اس سال میں نے ان ہی موضوعات پر کام کیا ہے‘۔


’تنازعات‘ کی رپورٹنگ کرتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟


صحافت میں دو دہائیاں گزارنے کے بعد فرزانہ علی سمجھتی ہیں کہ ’ہر صحافی کو سب سے پہلے اپنی زندگی کا خیال رکھنا چاہیے۔ پہلے یہ نکتہ ہمیں بھی نہیں پتا تھا لیکن وقت اور تجربے کے ساتھ سمجھ آگیا۔ خیال رہے کہ آپ کسی مشکل میں نہ آئیں لیکن آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اگر آپ کسی مشکل میں پھنس جائیں تو اس سے نکلنا کیسے ہے۔ میں جب افغانستان میں پھنسی تو اس وقت وہ بہت سے صحافیوں کو پکڑ رہے تھے۔ مردوں کو اتنی مشکل پیش نہیں آرہی تھی لیکن میں چونکہ خاتون تھی تو مجھے روک لیا گیا۔ ہمیں بطور صحافی ایسی صورتحال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

’اس لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنے ادارے اور خاندان کو اعتماد میں لےکر ان سے مسلسل رابطے میں رہیں۔ جیسے جب ہم افغانستان میں تھے تو ہمیں تاکید کی گئی تھی کہ ایک ہی جگہ زیادہ دیر نہیں رہنا۔ ہم اپنا کام کرکے فوراً جگہ چھوڑ دیتے تھے۔ مزید یہ کہ تنازعات کی رپورٹنگ کرتے وقت آپ کے پاس گیجٹس بھی ہونے چاہئیں بالخصوص پروٹیکشن کِٹ۔ اکثر ادارے یہ نہیں دیتے لیکن ہمیں بطور صحافی ہنگامی حالات کے لیے کچھ نہ کچھ رکھنا چاہیے‘۔

  تنازعات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے بطور صحافی ہر طرح کے حالات کے لیے تیار رہنا چاہیے
تنازعات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے بطور صحافی ہر طرح کے حالات کے لیے تیار رہنا چاہیے

اس حوالے سے سدرہ ڈار کا کہنا ہے کہ ’ہر صحافی کسی بھی اسٹوری پر کام کرنے سے پہلے اور بعد میں بھی لازمی رِسک اسسمنٹ کروائیں۔ میں ہر رپورٹر سے کہوں گی کہ خود سے سوال کریں کہ میں جہاں جارہی ہوں وہ جگہ تنازعات سے بھری ہوئی ہے وہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے اور ہو بھی رہا ہے تو کیا میں وہاں جانے کے لیے تیار بھی ہوں یا نہیں؟ یعنی صحافی ذہنی اور جسمانی طور پر تیار ہیں بھی یا نہیں یا پھر زبردستی جا رہے ہیں، یا پھر وہ صرف اس لیے جا رہے ہیں کہ سب جارہے ہیں۔ اس کے بعد مرحلہ آتا ہے کہ تیاری کیا کرنی ہے۔

’ہمیں بطور صحافی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر آپ کو ڈر ہے یا آپ خوفزدہ ہیں تو اس کا اظہار کرنے میں کوئی شرم کی بات نہیں۔ یا اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ غیر جانبدار نہیں رہ سکیں گے یا آپ کی جان کو خطرہ ہے تو فوراً ان تمام باتوں سے اپنے ادارے کو مطلع کریں‘۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس سیاسی جلسے میں انہیں پتھراؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا، وہاں وہ گاڑی کی چھت پر کھڑی ہوکر لائیو بیپر دے رہی تھیں۔ ’یہ میری غلطی تھی اور اس کے بعد میں نے پھر کبھی یہ غلطی نہیں دہرائی‘۔

زری جلیل کا خیال ہے کہ انہوں نے اپنی غلطیوں سے سیکھا ہے۔ ’یاد رہے کہ سورس پر ہمیشہ اعتبار کیا جائے گا۔ پھر رپورٹنگ کے دوران آپ کے پاس پانی کی بوتل موجود ہونی چاہیے کیونکہ آپ کو پیاس لگ سکتی ہے اور پولیس بے قابو ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کرسکتی ہے۔ آپ کے موبائل کی بیٹری پوری ہو اور ڈیٹا بھی چل رہا ہو تاکہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں آپ کا رابطہ بحال رہے‘۔

رانی واحدی کا کہنا ہے کہ ’سب سے پہلے ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہم جہاں جارہے ہیں، ہمیں وہاں کے لوگوں کی طرح رہنا ہے۔ تنازعات پر بات کرتے ہوئے ہمیں بطور ذمہ دار صحافی دونوں طرف کا مؤقف پیش کرنا چاہیے۔ خیال رہے کہ یک طرفہ رپورٹنگ نہ ہو اور بات واضح رہے۔ اس کے علاوہ ہماری رپورٹنگ میں صرف مسئلے پر بات نہ ہو بلکہ اس پر بھی بات ہو کہ مسئلہ کیوں ہوا اور اس کا حل کیا ہے؟ یعنی رپورٹ مکمل ہونی چاہیے۔ اس سے آپ، آپ کا سورس اور اسٹوری کریکٹر بھی محفوظ رہتے ہیں‘۔

  خیال رہے کہ یک طرفہ رپورٹنگ نہ ہو اور بات واضح رہے
خیال رہے کہ یک طرفہ رپورٹنگ نہ ہو اور بات واضح رہے

رانی واحدی مزید کہتی ہیں کہ ’صحافی ہمیشہ خود کو محفوظ رکھتے ہوئے کام کریں۔ کونفلیکٹ رپورٹر کو اتنا ماہر ہونا چاہیے کہ وہ جان سکے کہ وہ جس موضوع پر کام کررہا ہے وہ کتنا حساس ہے۔ آیا اس میں موجود افراد کی شناخت کی جاسکتی ہے یا وہ افراد اور آپ خطرے میں آسکتے ہیں۔ مجھے ہمیشہ بلوچستان یونیورسٹی کے اپنے استاد کی نصحیت یاد آتی ہے کہ ’سچ اتنا ہی بولو کہ آئندہ سچ بولنے کے لیے زندہ رہو‘۔ کونفلیکٹ زون میں میرا آج بھی یہی فارمولا ہے‘۔


ذہنی دباؤ: کانفلیکٹ رپورٹنگ کا سب سے بڑا نقصان


فرزانہ علی جو پچھلی دو دہائیوں سے تنازعات کی خبریں پیش کررہی ہیں، بتاتی ہیں کہ ’جی ہاں، صحت متاثر ہوتی ہے کیونکہ مسلسل سفر اور سخت رپورٹنگ کرنا آسان کام نہیں۔ میں نے سب سے زیادہ ذہنی دباؤ 2014ء میں آرمی پبلک اسکول حملے کے بعد محسوس کیا۔ ہر طرف بے بسی تھی کیونکہ مسلسل 16 ماہ تک طویل ٹرانسمیشن اور لائیو رپورٹنگ کرنا کسی بھی صحافی کو دباؤ میں لا سکتا ہے۔ اس کے لیے میں نے ورکشاپ اور سیشن لیے جس سے ذہنی دباؤ سے نکلنے میں مجھے مدد ملی۔

سدرہ ڈار کے خیال میں ’جب میں نے رپورٹنگ کا آغاز کیا تھا تب کا کراچی اور تھا۔ اب پھر بھی یہ پُرامن شہر ہے۔ اس وقت دھماکے، کٹی پھٹی خون آلود لاشیں، اسپتال کے وارڈ، عمارتوں کا گر جانا، شہر میں ماردھاڑ، ہر جگہ ٹراما موجود تھا۔ ایک واقعے کا اثر ختم نہیں ہوتا تھا کہ دوسرا واقعہ ہوجاتا تھا۔

’مجھ پر ان سب باتوں کا اثر پچھلے سال پی ٹی ایس ڈی کی صورت میں ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ میں مارکیٹ میں ہوتی تھی تو لگتا تھا کہ بم دھماکا ہوجائے گا۔ رینجرز کی موبائل دیکھتی تو خیال آتا کہ کہیں ان پر حملہ نہ ہوجائے۔ رات کو ڈرؤانے خواب آتے۔ آنکھ کھل جاتی تھی کہ کہیں دھماکا ہوگیا ہے یا کوئی قدرتی آفت آگئی ہے۔ یعنی میری ذہنی صحت کو میرے کام نے بےحد متاثر کیا۔

  تنازعات کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے
تنازعات کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے

’ہمارے ہاں صحافی کی ذہنی صحت پر کوئی بات ہی نہیں کرتا نہ ان سے کوئی کہتا ہے کہ انہیں کونسلنگ کی ضرورت ہے لیکن میرے ساتھ اچھی بات یہ ہوئی کہ میں نے بروقت توجہ دی، کونسلنگ کروائی اور دو ماہ کے اندر اس مسئلے پر قابو پالیا‘۔

رانی واحدی بھی تسلیم کرتی ہیں کہ ہر رپورٹر کو ذہنی دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔ پھر مسلسل اس طرح کی رپورٹنگ میں لوگوں سے ملنا ہوتا ہے، بار بار ان مقامات پر جانا یعنی فیلڈ ورک، یہ سب تھکا دینے والا کام ہے۔ یقیناً ان سب باتوں کا آپ کی صحت پر بھی اثر پڑتا ہے جس وجہ سے عام طور پر صحافی ذہنی دباؤ کا شکار ہوکر ڈپریشن اور انزائٹی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’کونفلیکٹ زون رپورٹنگ جتنی دیر تک چلتی ہے اس کا اثر رہتا ہے۔ کچھ اسٹوریز آج تک مجھے یاد آتی ہیں۔ میں نہیں کہتی کہ میں ان کہانیوں کو یاد کرکے روتی ہوں لیکن دماغ پر دباؤ ضرور محسوس کرتی ہوں۔ لہٰذا اس کیفیت سے نکلنے کے لیے میں یوگا کرتی ہوں۔ میں یہ سب محسوس کرنا نہیں چاہتی لیکن یہ حقیقت ہے۔ میری والدہ مجھ سے کہتی ہیں کہ میں اس سلسلے میں ڈاکٹر سے مشورہ کروں‘۔


تنازعات کی رپورٹنگ میں خواتین صحافیوں کی تعداد کم کیوں ہے؟


یہ سوال ہم نے جہاں خاتون صحافیوں کے سامنے رکھا وہاں سینیئر مرد صحافیوں سے بھی جاننے کی کوشش کی کہ آخر مشکل کہاں پیش آرہی ہے۔

جیو ٹی وی کراچی کے بیورو چیف طارق معین صدیقی کا کہنا ہے کہ ’تنازعات کی رپورٹنگ میں خواتین رپورٹر کئی مواقع پر بہتر طور پر کام کرتی نظر آتی ہیں اور خاص طور جب کسی بڑے حادثے، دہشتگردی اور کشیدہ صورتحال میں فیملی اور خواتین کے خیالات جاننے کے لیے خاتون رپورٹر کو بھیجا جائے تو وہ بہتر انداز میں متاثرین سے بات چیت کرلیتی ہیں۔ بہرحال بات ماننی پڑے گی کہ ہمارے معاشرے میں جہاں خواتین کو کئی معاملات میں ناانصافی کا سامنا ہے وہیں خواتین کو بہت زیادہ عزت و احترام اور تحفظ بھی حاصل ہے۔

’مثال کے طور پر تنازعات کی رپورٹنگ میں ادارہ دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے کہ خاتون رپورٹر راضی ہے تو اسے یہ کام دیا جائے کیونکہ ہنگامی حالات میں ان کا تحفظ ترجیح ہوتا ہے۔ بہرحال کیمرہ مین ساتھی کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے کام کے ساتھ اس کے تحفظ کو بھی مدنظر رکھے۔ مشکل ترین حالات میں کئی خواتین نے کرائم رپورٹنگ اور ایسے دوردراز علاقوں میں جاکر بہترین رپورٹنگ کی ہے جہاں کام کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے لیکن اس طرح کے معاملات دنیا بھر میں ہیں اس کا جائزہ لیا جاسکتا ہے کہ دنیا کے بڑے اداروں میں کتنی خواتین کانفلیکٹ رپورٹنگ کررہی ہے اور شرح کا اندازہ کریں تو شاید ہمارے ہاں بھی اب وہی شرح ہوسکتی ہے‘۔

  غزہ میں رپورٹنگ کے دوران الجزیرہ کی خاتون رپورٹر کے قریب اسرائیلی طیاروں نے بمباری کی—تصویر: اسکرین شاٹ
غزہ میں رپورٹنگ کے دوران الجزیرہ کی خاتون رپورٹر کے قریب اسرائیلی طیاروں نے بمباری کی—تصویر: اسکرین شاٹ

بینش عباس جی ٹی وی میں ایگزیکٹیو پروڈیوسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’خواتین صحافیوں کی کمی کی سب سے بڑی وجہ ہمارا ’مردوں کا معاشرہ‘ ہے۔ یہی سوچ ہمیں صحافت میں بھی نظر آتی ہے جہاں خواتین صحافیوں کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ جب موسم کی خبر دینی ہو، کوئی تصویری نمائش ہو یا کوئی ہلکی پھلکی خبر ہو تو خاتون صحافی کو بھیج دو وہ اسے اچھے سے پیش کردیں گی۔

’ماضی میں چند ہی نیوز چینل تھے تب اس وقت کی رپورٹرز جیسے عاصمہ شیرازی اور دیگر نے انتخابات اور قدرتی آفات جیسے بڑے بڑے ایشوز کور کیے ہیں۔ پھر ہماری نیوز کاسٹرز جیسے ندا سمیر، ناجیہ اشعر اور عائشہ بخش، انہوں نے گھنٹوں گھنٹوں نشریات پیش کی ہیں جن کے پاس معلومات اور خبروں کی کمی نظر نہیں آتی تھی جبکہ آج کل کی رپورٹرز میں تحقیق کا فقدان نظر آتا ہے۔ ہمارے کئی چینلز کی خواتین رپورٹر کے پاس معلومات کی کمی سب محسوس کرلیتے ہیں۔ وہ کیمرے کے سامنے کچھ بھی بول دیتی ہیں۔ اس کا حل یہ ہی کہ اپنے خواتین رپورٹرز کو تربیت دیں تاکہ وہ بہتر کام کرسکیں اور وہ بہتر کام کرسکتی ہیں‘۔

  آج کل ہماری خواتین رپورٹرز میں تحقیق کا فقدان نظر آتا ہے
آج کل ہماری خواتین رپورٹرز میں تحقیق کا فقدان نظر آتا ہے

فرزانہ علی بھی بینش عباس سے اتفاق کرتی ہیں اور وہ معاشرتی سوچ کو بڑی رکاوٹ قرار دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’کچھ خواتین صحافیوں کو ان کے گھر والے فیلڈ رپورٹنگ کی اجازت نہیں دیتے۔ پھر رات کے وقت یا بم دھماکوں کو رپورٹ کرنے کے لیے خاتون صحافی پہلی ترجیح نہیں ہوتی۔ جب آپ تنازع کو کور کر رہے ہوتے ہیں، خاص طور پر جنگ زدہ ماحول میں، اس وقت آپ کی رہائش ایک اہم مسئلہ ہوتی ہے۔ صحافی کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے کہ کسی ہنگامی نوعیت میں آپ کو کھلے علاقے میں سونا پڑ سکتا ہے۔ پھر خاندان پسند نہیں کرتا کہ کسی ہنگامی نوعیت میں مردوں کے ساتھ سفر کریں۔ ان سب حالات کی وجہ سے خواتین صحافی رسک نہیں لیتیں لیکن یہ بات بے معنی ہوچکی ہے کہ خاتون صحافی یہ کام نہیں کرسکتی کیونکہ ہماری خاتون صحافی یہ کرکے دکھا رہی ہیں‘۔

سدرہ ڈار س حوالے سے ایک بالکل الگ بات کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ سوال سب سے پہلے ہمیں خواتین رپورٹرز سے کرنا چاہیے کیونکہ جب ہم کہتے ہیں کہ ہمیں برابر تنخواہ نہیں ملتی، برابر سہولیات اور مواقع نہیں ملتے تو ہمیں بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم ہر طرح کے حالات میں کام کرنے کے لیے تیار ہیں؟ میری بات کچھ لوگوں کو شاید کو پسند نہ آئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں خواتین صحافت میں آتی ہیں تو وہ سمجھتی ہیں کہ یہ 9 سے 5 والی نوکری ہے۔ پھر وہ چاہتی ہیں کہ شام کو وقت پر اپنے گھر پہنچ جائیں۔ ان کی ایک سوشل لائف اور پرسنل لائف بھی ہو اور انہیں دیر تک کام نہ کرنا پڑے۔

’ان چیزوں کے بعد صرف وہ خواتین رہ جاتی ہیں جو 24 گھنٹے کام کرنے کے لیے تیار رہتی ہیں۔ اپنی اسٹوریز کے لیے دن رات کام کرتی ہیں۔ خبر کے پیچھے بھی بھاگتی ہیں اور اپنی نیندیں بھی قربان کرتی ہیں جبکہ وہ ہر طرح کے حالات میں کھڑی ہوجاتی ہیں۔ لہذا جب تنازعات کی رپورٹنگ کرنے کی بات آتی ہے تو وہی خواتین صحافی نظر آتی ہیں جو ثابت کرچکی ہوتی ہیں کہ وہ ہر طرح کا کام کرسکتی ہیں یعنی وہ صحافت کو صرف تنخواہ کے لیے نہیں بلکہ ایک جنون کے طور پر اپناتی ہیں۔ لہٰذا ان کی سوشل لائف ہی نہیں بلکہ ذاتی زندگی بھی ختم ہوجاتی ہے۔ ایسی تمام چلینجنگ فیلڈ میں خواتین کم نظر آتی ہیں اسی لیے صحافت میں خواتین کی تعداد کم ہے‘۔

  تنازعات کی رپورٹنگ میں وہی خاتون رپورٹر نظر آتی ہے جو صحافت کو اپنے جنون کے طور پر اپناتی ہے
تنازعات کی رپورٹنگ میں وہی خاتون رپورٹر نظر آتی ہے جو صحافت کو اپنے جنون کے طور پر اپناتی ہے

زری جلیل سمجھتی ہیں کہ ’ہمارے ہاں خواتین صحافیوں کو اس طرح نہیں سراہا جاتا جیسے مرد صحافیوں کو سراہا جاتا ہے۔ ٹریننگ اور انہیں تحفظ فراہم کرکے ہم اس فیلڈ میں خواتین صحافیوں کی تعداد کو بڑھا سکتے ہیں۔ پھر خواتین کی گھریلو ذمہ داریاں بھی انہیں 9 سے 5 والی نوکری کرنے کی ہی اجازت دیتی ہیں۔ اگر معاشرہ انہیں اس حوالے سے مدد فراہم کرے تو یقیناً ان کی تعداد بڑھ جائے گی‘۔

بلوچستان کے تناطر میں رانی واحدی سمجھتی ہیں کہ ’کسی متنازع علاقے میں خواتین صحافیوں کو زیادہ سہولیات چاہیے ہوتی ہیں۔ انہیں ٹرانسپورٹ اور کون کون ساتھ جارہا ہے، اس کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ شادی شدہ صحافی ہیں تو الگ مسئلے اور غیر شادی شدہ ہیں تو الگ مسئلے۔ اس لیے ادارے ان تمام باتوں سے بچنے کے لیے خواتین رپورٹر رکھتے ہی نہیں لیکن خواتین رپورٹر کوئٹہ شہر میں اچھا کام کررہی ہیں۔ وہ کرائم رپورٹنگ بھی کر رہی ہیں اور سافٹ رپورٹنگ بھی۔ خواتین صحافیوں کے خدشات کا واحد حل حفاظت اور کام کی محفوظ جگہ ہے‘۔

شیما صدیقی

شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔