ایران: میٹرو میں خواتین پولیس افسران کے مبینہ حملے میں زخمی 16 سالہ لڑکی کی ’دماغی موت‘
ایران میں خواتین پولیس افسران کی جانب سے مبینہ حملے کے نتیجے میں کومہ میں جانے والی 16 سالہ لڑکی کی ممکنہ طور پر دماغی طور پر موت ہو چکی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 16 سالہ ارمیتا گاروند کے بارے میں سب سے پہلے 3 اکتوبر کو انسانی حقوق کے گروپ ’ہینگا‘ نے رپورٹ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ میٹرو اسٹیشن میں ہونے والے حملے کے دوران شدید زخمی ہوگئیں۔
یہ حادثہ ایرانی نوجوان خاتون مہسا امینی کے ایران میں سخت لباس کے ضابطوں کی خلاف ورزی پر قتل کے صرف ایک سال بعد پیش آیا، مہسا امینی کے قتل نے ایران میں بڑی تعداد میں مظاہروں کو جنم دیا تھا۔
حکومت سے وابستہ برنا نیوز کا کہنا تھا کہ ’ یہ بات یقینی معلوم ہو تی ہے کہ ارمیتا گاروند کی ’دماغی طور‘ پر موت واقع ہو چکی ہے۔
سرکاری نیوز ایجنسی ’ارنا‘ کے مطابق ارمیتا گاروند کم بلڈ پریشر ہونے کے باعث بے ہوش ہوگئی تھی، مگر ہینگا کا کہنا تھا کہ وہ میٹرو اسٹیشن پر خواتین پولیس اہلکار کے ساتھ ہونے والے تصادم میں زخمی ہوئی، کیونکہ مبینہ طور پر انہوں نے ایران کے سخت لباس کے ضابطوں کی خلاف ورزی کی تھی۔
ہینگا نے بتایا تھا کہ ان کا علاج بھاری سیکیورٹی میں تہران کے فجر ہسپتال میں جاری ہے، اور ان کے والدین کو بھی ارمیتا گاروند تک صحیح طرح سے رسائی میسر نہیں، مزید کہا تھا کہ ان کی والدہ شاہین احمدی کو ہسپتال کے نزدیک سیکیورٹی اہلکاروں نے تحویل میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے، ارمیتا گاروند تہران میں رہائش پذیر تھی، مگر ان کا تعلق کرمان شاہ سے تھا، جو کرد مغربی ایران کا ایک شہر ہے۔
جرمنی کی وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر لکھا تھا کہ ایک بار پھر ایرانی نوجوان خاتون سب وے پر بال کی نمائش کرنے کی وجہ سے اپنی زندگی کے لیے جنگ لڑ رہی ہے، ایران کے لیے امریکا کے قائم مقام خصوصی ایلچی ابرام پالے نے ایکس پر لکھا تھا کہ واشنگٹن حملے کی اطلاعات پر ’حیران اورفکر مند‘ ہے۔
مگر ایران نے اس تنقید کو رد کردیا، ایران کے وزرات خارجہ کے ترجمان نے’ایکس’ پر بیان جاری کیا کہ مداخلت پسندانہ اور متعصبانہ تبصروں اور ایرانی لڑکیوں اور خواتین کے حوالے سے غیر مخلصانہ تشویش کا اظہار کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ آپ امریکا، جرمنی اور برطانیہ کے شعبہ صحت کے عملےاور مریضوں کی صورتحال بہتر کرنے پر توجہ دیں۔