• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج

شائع October 24, 2023
چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی — فائل فوٹو: اے ایف پی
چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی — فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ نے ملک بھر میں عام انتخابات ایک تاریخ کو کرانے کی درخواست واپس لیے جانے کی بنیاد پر خارج کردی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے ملک بھر میں عام انتخابات ایک تاریخ کو کرانے کی درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر درخواست گزار سردار کاشف خان کے وکیل شاہ خاور نے درخواست واپس لینے کی استدعا کردی۔

شاہ خاور نے کہا کہ اس وقت ایک کوشش کی گئی کہ انتخابات کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا ہو، اب عدالت پورے ملک کے انتخابات کے حوالے سے مقدمہ سن رہی ہے۔

چیف جسٹس نے وکیل شاہ خاور سے استفسار کیا کہ کیا مطلب؟ میں سمجھا نہیں، آپ کیا بات کر رہے ہیں؟ شاہ خاور نے جواب دیا کہ اُس وقت سپریم کورٹ نے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کروانے کا حکم جاری کیا تھا، پھر ہم نے ملک میں بھی ایک ساتھ انتخابات کروانے کی درخواست دائر کی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہی تو سارا جھگڑا ہے، کیا اس وقت کوئی عدالتی حکم جاری ہوا تھا؟ 4 عدالتی احکامات جاری ہوئے تھے، کسی مقدمے پر مختلف رائے ہو تو ایک عدالتی حکم جاری ہوتا ہے، ہمارا کام تو ہے سوال پوچھنا، شاہ خاور نے جواب دیا کہ اس طرح کا عدالتی حکم نہیں تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کو تو سپریم کورٹ کے آڈر کی خلاف ورزی کی درخواست دائر کرنا چاہیے تھی، آپ نے یہ دخواست دائر کرکے آئین کی خلاف ورزی کی کوشش نہیں کی؟

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا عدالت کے پاس ایسا اختیار ہے کہ کوئی فیصلہ جاری کر سکے؟ اگر 4 سال بعد انتخابات کا حکم دیں تو کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ قانون کے برخلاف تو کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ آپ کا مؤقف یہی تھا کہ ایک ساتھ انتخابات ہوں، شاہ خاور نے کہا کہ میرا مؤقف ہے کہ معاملہ ختم ہوگیا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کل کو دوبارہ ایسی صورتحال پیدا ہو جائے تو پھر؟ شاہ خاور نے جواب دیا کہ ہم پھر ایک درخواست دائر کردیں گے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تو پھر اس معاملے پر ایک ہی بار فیصلہ نہ کردیں؟ اگر عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہو تو توہین عدالت کی درخواست دائر کر سکتے ہیں، آپ اکثریت کا فیصلہ چیلنج کریں، عدالتی حکم کی اہمیت ہوتی ہے، ایک عدالتی حکم نہ ہو تو ہر جج کہے گا یہ عدالتی احکامات ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ انتخابات کے معاملے پر 4 آڈر آف دا کورٹ تھے یا 5؟

پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ اس کیس میں مذاکراتی کمیٹی بات چیت کے لیے بنی تھی۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ سینیئر وکیل ہیں، آڈر آف دا کورٹ سے اکثریت واضح ہوجاتی ہے، آرڈر آف دا کورٹ سے فیصلے کا نتیجہ مل جاتا ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ نگران حکومت آئین کے دیباچے کے خلاف ہیں، 6 ماہ کے لیے نگران سیٹ اپ کیسے ہوسکتا ہے؟

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے فاروق ایچ نائیک سے استفسار کیا کہ نگران حکومت کا مقصد کیا ہے، فاروق نائیک نے جواب دیا کہ نگران حکومت کا مقصد صاف اور شفاف انتخابات ہیں، آج تک صاف شفاف انتخابات نگران حکومت نہیں کروا سکی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کروانا تو الیکشن کمیشن کا کام ہے، الیکشن کا فیصلہ دینے والے بینچ کا آرڈر آف دی کورٹ کہاں ہے؟ آرڈر وہ ہوتا ہے جس پر سب ججز کے دستخط ہوں۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 14 مئی کے الیکشن کا فیصلہ دینے والا آرڈر آف دی کورٹ موجود ہی نہیں، 90 روز کی آئینی مدت کی خود عدالت نے بھی خلاف ورزی کی، عدالت نے 14 مئی کا آرڈر دیا وہ 90 دن سے باہر تھا۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہی تو سمجھ نہیں آرہی وہ کیا آرڈر تھا، یہ وہی کیس ہے نا جس میں بہت سے ججز نے اپنا اپنا آرڈر لکھا، آرڈر آف دی کورٹ کیا ہوتا ہے اسی کے لیے اپ 21 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ پڑھیں، اس فیصلے میں اختلاف موجود تھا مگر دستخط سب ججز نے کیے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ آئینی تجدید کا آڈر کون لایا تھا؟ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ 1985 میں ضیا الحق سی آر او لائے تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب آپ فاروق ایچ نائیک پر طنز نہ کیجیے گا کہ انہوں نے ضیا الحق کی بات کردی، 2 انتخابات نگران حکومتوں کے بغیر بھی ہوئے، 2002 کے الیکشن بھی نگران حکومتوں کے بغیر ہوئے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ انتخابات کے پروگرام کا اعلان کرے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 2 نومبر کا نوٹس کردیا ہے، آپ بھی اس دن آجائیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سیاسی استحکام آئینی ضرورت ہے، سیاسی استحکام ہمارا کام نہیں سیاسی لوگوں کا کام ہے، صرف صاف شفاف انتخابات نہیں بلکہ ہر کسی کو لیول پلیئنگ فیلڈ بھی ملنی چاہیے، لیول پلیئنگ فیلڈ کو آپ سیاسی لوگوں کو یقینی بنانا ہے۔

دریں اثنا سپریم کورٹ نے عام انتخابات ایک تاریخ کو کرانے کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردی۔

یاد رہے کہ ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے درخواست پر سپریم کورٹ میں 5 مئی کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ معاملہ سیاسی عمل پر چھوڑا جائے۔

واضح رہے کہ سردار کاشف خان نامی شہری نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ملک بھر میں ایک ہی تاریخ کو عام انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔

درخواست میں وفاقی حکومت اور قانون اور انصاف ڈویژن کو فریق بنایا گیا تھا۔

خیال رہے کہ 4 اپریل کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی ہونے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا اور 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کا حکم دیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024