مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم-پاکستان کا انتخابات مل کر لڑنے کا اعلان
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ آج مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم پاکستان کے مابین یہ طے پایا ہے کہ ان شااللہ ہم 8 فروری کے انتخابات میں مل کر حصہ لیں گے۔
لاہور میں مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم (پاکستان) کے وفد کی ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں بات کرتے ہوئے سعد رفیق نے کہا کہ جب پی ڈی ایم کی پچھلی حکومت میں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) نے آپس میں مذاکرات کیے تو اس وقت بھی ہم نے ایک چارٹر پر دستخط کیے تھے اور ایک بڑی انڈراسٹینڈنگ موجود رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دونوں جماعتوں کے درمیان یہ خواہش بھی موجود رہی ہے کہ دونوں جماعتیں انتخابات میں مل کر حصہ لیں، یہ بھی طے پایا ہے کہ مختلف قومی امور پر معاشی امور پر، سیاسی معاملات پر، آئینی اور قانونی معاملات پر بھی آپس میں مشاورت بھی کی جائے گی اور اس ضمن میں دونوں جانب سے کمیٹیوں کا اعلان بھی کیا جائے گا اور باقی سیاسی قوتوں سے بھی وسیع تر قومی مفاد میں اور مختلف امور پر بات چیت کے دروازے کھلے رکھے جائیں گے اور بات چیت کی جائے گی، (ن) لیگ و پیپلزپارٹی سے ایم کیو ایم کی تعلقات کی لمبی تاریخ ہے، سندھ میں جے یو آئی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی فنکشنل لیگ سے بھی بات کریں گے۔
سعد رفیق نے کہا کہ اسی طرح یہ اعلان آپ پہلے سن چکے ہیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنے پارٹی رہنماؤں سے مشورے کے بعد بشیر میمن صاحب کو پاکستان مسلم لیگ (ن) سندھ کا نیا صدر نامزد کیا ہے اور شاہ محمد شاہ صاحب کو مرکزی نائب صدر مقرر کیا گیا ہے، بشیر میمن پر نظر کافی عرصے سے ہے قابو نہیں آتے، قانون والے شخص ہیں۔
پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے فاروق ستار کا کہنا تھا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ اس وقت ملک کی مجموعی صورتحال خاص طور پر جو سیاسی اور معاشی حالات کے بحران اور چیلنجز ہیں اس کا کس طرح مقابلہ کرنا ہے؟
انہوں نے کہا کہ صرف انتخابات لڑنا ہی نہیں ہے، انتخابات کے بعد جو حکومت بنے گی، جو پارلیمان قائم ہوگی، اسمبلیاں بنیں گی ان کے لیے جو چیلنجز ہیں کیا ان چیلنجز کو حل کرنے کے لیے ابھی سے کوئی پیشرفت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیا ابھی سے آپس میں بیٹھ کر مشورہ کر کے جو بنیادی مسائل ہیں پاکستان کی عوام کے، چاہے وہ مہنگائی سے متعلق ہوں، بے روزگاری سے متعلق ہوں، چاہے وہ مسائل غربت سے متعلق ہوں یعنی جو معیشت کے سنگین مسائل ہیں ان کے حل کے لیے جو چیلنجز ہیں اس کا مقابلہ کیسے کریں؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات واضح ہے کہ کوئی ایک جماعت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ ملک کے جملہ مسائل اور عوام جن دیگر مسائل میں پسے ہوئے ہیں ان سے ان کو باہر نکال سکے تو ضروری ہے کہ اس کے لیے ایک وسیع تر مفاہمت اور اشتراک عمل قائم کرنا ہے، چنانچہ ہمارے درمیان تو یہ طے ہوگیا کہ یہ اشتراک عمل گویا کہ جو سیاسی، معاشی، آئینی اصلاحات کے معاملات ہیں ان پر بھی ہمیں تبادلہ خیال کرنا ہے اور ایک چارٹر تیار کرنا ہے جس کے لیے کمیٹی دونوں جماعتوں کے 3،3 ارکان پر مشتمل ہوگی۔
فاروق ستار نے کہا کہ جو مشترکہ حکمت عملی کی بات ہوئی ہے تو انتخابات میں بھی مشترکہ حکمت عملی کی جائے گی، مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے پر اتفاق ہوا ہے اور اگر ہم ایک چارٹر تیار کر لیتے ہیں تو قومی اتفاق رائے کے لیے باقی ہم خیال جماعتیں ہیں اور جو ہم خیال نہیں ہیں ان کو بھی سمجھانا ہے کہ وقت کے تقاضے کو سمجھو، جو حالات کا جبر ہے وہ کیا کہہ رہا ہے، ہماری سیاسی، اخلاقی، قومی، آئینی ذمہ داری کیا ہے، ہم اس کو سمجھیں اور ایک مشترکہ قومی اتفاق رائے اختیار کریں تاکہ آنے والی جو حکومت ہے اور جو اپوزیشن ہے ان دونوں کے لیے آگے کے راستے آسان ہوجائیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس وقت میں ہم یہ کام کرتے ہیں تو شاید پاکستان کے عوام کو ساری جماعتیں ایک بہت بڑا اعتماد دینے میں کامیاب ہوجائیں گی، کراچی کا نمایاں کردار ہوگا قومی سیاست میں بھی اربن ایریا کے لوگ بہت میٹر کرتے ہیں، کلیم نہیں کر رہے کون نمبر ون ہیں جھگڑا چھوڑیں کراچی مسائل کے حل کے لیے قومی اتفاق رائے میں کراچی پر بھی اتفاق رائے کرنا ہوگا۔
مصطفیٰ کمال نے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں سیدھی بات کرتا ہوں آپ سے کہ پاکستان اس وقت ٹھیک نہیں ہے، پاکستان کی پوزیشن ایسی ہے کہ روزانہ آپ ایک بری خبر سنتے ہیں، دنیا تجزیے کر رہی ہے تو یہ کوئی آئیڈیل حالات تو نہیں ہیں آج اس بحران میں، میں ماضی کی بات نہیں کر رہا کہ کون لے کر گیا کیسے لے کر گیا، اس کو نکالنا کیسے ہے؟ اس کو کسی مضبوط لیڈرشپ نے نکالنا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف کو لوگ سب سے سینئر سیاستدان کہہ رہے ہیں اور وہ ہیں بھی، جو ان کو تجربات ہوگئے حکومت میں رہنے کے اور نکالے جانے کے وہ کسی اور کو شاید نہیں ہوئے تو آج ہم یہ روداد لے کر آئے ہیں یہاں پر کہ بھئی اس ملک کو بہت زیادہ سخت اور مشکل فیصلوں کی ضرورت ہے اور وہ فیصلے پاکستان کی بڑی جماعتوں نے کرنے ہیں۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ یہاں پر انتخابات میں اتحاد اب اس بات پر نہیں ہوگا کہ کس کے پاس کیا وزارت جانی ہے، اس کا موقع ہی نہیں آنا، پاکستان کے مسائل اتنے گہرے ہوگئے ہیں کہ اگر ہم نے لوگوں کو ان مسائل سے باہر نکالنے کا کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار نہیں کیا، اس پر عمل نہیں کیا تو ہم سب لوگوں کی شاید یہ آخری باری ہو، عجیب صورتحال ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سندھ کے بڑے شہر کراچی سے آئے ہیں کراچی شہر کا چالیس سالہ مینڈیٹ ہے، چالیس فیصد ریونیو دیتا ہے اگر مسائل کا حل ہے تو اس کا شئیر دے کر ہی ہے، نواز شریف نے باتوں کو سنا کوئی لین دین نہیں ملک کی بات کی ہے، بیس سے سترہ والی پوزیشن پر واپس آچکے ہیں، ہم پورا مینڈیٹ لے کر آئے ہیں۔
بشیر میمن نے پریس کانفرنس میں کہا کہ قیادت نے اعتماد کیا ہے، نواز شریف نے لواری ٹنل سے لے کر معیشت کی بات کی ہے، ملک کو ترقی دینی ہے تو 2017 میں جو سلسلہ ٹوٹا تھا اسے دوبارہ جوڑیں گے، ترقی کی شرح 6.8 سے زیادہ ہوگی، ایم کیو ایم سے اتحاد کریں گے، ہم خیال جماعتیں سندھ کی ترقی کے لیے آگے بڑھیں۔