جی ایچ کیو حملہ کیس: شاہ محمود قریشی کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد، اڈیالہ جیل بھیجنے کا حکم
سابق وزیر خارجہ اور سینیئر رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) شاہ محمود قریشی کے خلاف جی ایچ کیو حملہ کیس میں جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے عدالت نے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔
’ڈان نیوز ٹی وی‘ کے مطابق شاہ محمود قریشی کو گزشتہ روز دوبارہ گرفتار کیے جانے کے بعد آج سخت سیکیورٹی میں ڈیوٹی مجسٹریٹ راولپنڈی کی عدالت میں پیش کیاگیا، اُن کو بکتر بند گاڑی میں جوڈیشل کمپلیکس لایا گیا، پولیس اہلکاروں نے انہیں ہتھکڑیاں لگا کر ڈیوٹی مجسٹریٹ سید جہانگیر علی کی عدالت میں پیش کیا۔
کمرہ عدالت میں شاہ محمود قریشی نے ڈیوٹی مجسٹریٹ سے استدعا کی کہ میں بیان ریکارڈ کرانا چاہتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سمیت 3 جسٹس صاحبان نے ضمانت دی، مچلکہ جمع کرا کر مجھے ضمانت کا حکم دیا گیا، میری رہائی کی روبکار جاری ہوتے ہی تھری ایم پی او جاری کیا گیا۔
شاہ محمود قریشی نے استفسار کیا کہ میں کیسے عوام کے لیے خطرہ ہوں؟ میں کئی ماہ سے اڈیالہ جیل میں قید ہوں، مجھے ایک رات آکر کہا گیا کہ تھری ایم پی او واپس لیتے ہیں، 26 تاریخ کو تھری ایم پی او کا آرڈر دیا گیا ،پھر واپس لے لیا گیا، ہاتھ سے 26 تاریخ کاٹ کر 27 کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے غیرقانونی طور پر رکھا گیا، میں جیل کی حدود میں تھا وہاں پنجاب پولیس گرفتار کرنے پہنچی، میں 5 بار رکن پارلیمنٹ رہ چکا ہوں، ایس ایچ او جمال نے مجھے مکے لاتیں ماریں، ایس ایچ او اشفاق چیمہ نے مجھے گالیاں دیں، میری چھاتی میں درد ہورہی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ کئی دفعہ ایس پی کو کہا کے ڈاکٹر کے پاس لے جائیں، پوچھا گیا کہ آپ کو کس ہسپتال میں لے کر جائیں؟ مجھے کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں لے کر گئے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ایک ٹیم آئی کے 9 مئی کے لئے بیان ریکارڈ کرنا ہے، یہ لوگ مجھے 9مئی کے مقدمات میں ملوث کرنا چاہتے ہیں، میں 9 مئی کو کراچی میں تھا بیگم کی سرجری ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا میں موقع پر موجود نہیں تھا، مجھ سے بیان لینے پہنچ گئے، مجھے کل رات ایک ٹھنڈے کمرے میں رکھا گیا، مجھے رات بھر سونے نہیں دیا گیا،مجھے لائٹیں جلا کر بار بار جگایا گیا شور مچایا گیا، مجھے ذہنی اور جسمانی طور پر تنگ کیا گیا۔
شاہ محمود قریشی کمرہ عدالت میں آبدیدہ
اس دوران شاہ محمود قریشی کمرہ عدالت میں گفتگو کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے، جج کی ہدایت پر شاہ محمود قریشی کی ہتھکڑیاں کھول دی گئیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں نے پاکستان کا عالمی سطح پر مقدمہ لڑا میں پاکستان اور اداروں کی عالمی دنیا میں صفائیاں دیتا رہا ہوں، کیا یہ انصاف ہے؟
انہوں نے کہا کہ رات بھر مجھے ٹھنڈے انتہائی فریزی روم میں رکھا گیا، میری لائٹس بند کر کے موم بتی جلا دی۔
ان کا کہنا تھا کہ نہ موقع پر، نہ ایف آئی آر میں نام کئی ماہ بعد کیس میں شامل کیا، قرآن پاک پر حلف دیتا میں 9 مئی کو راولپنڈی ہی نہیں پنجاب میں بھی نہیں تھا، حالت خراب تھی طبی امداد کی استدعا کی پولیس افسران انکاری ہوگئے۔
شاہ محمود قریشی کو مقدمہ سے ڈسچارج کیا جائے، وکیل
دوران سماعت شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے مقدمہ سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے دلائل دیے کہ مجھے قوانین کا مکمل طور پر ادراک ہے، میرے مؤکل کو آپ کے ہوتے ہوئے ہتھکڑی نہیں لگائی جا سکتی، میرے مؤکل کے خلاف پراسیکیوشن کے خلاف صرف ایک ٹوئٹ ہے۔
علی بخاری نے شاہ محمود قریشی کی ٹوئٹ عدالت میں پڑھ کر سناتے ہوئے بتایا کہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ نکلیں یکجہتی کے لیے۔
انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کو 24 گھنٹے تک غیر قانونی تحویل میں رکھا گیا، شاہ محمود قریشی کو مقدمہ سے ڈسچارج کیا جائے، جج کو ریمانڈ دینے کی وجوہات دینی ہوں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ میرے مؤکل سے کچھ برآمد تو کرنا نہیں ہے، جو شاہ محمود قریشی نے ابھی بیان دیا،اس بیان کو عدالت لکھنے کی پابند ہے، جسمانی ریمانڈ کا مقصد ازیت دینا ہے۔
علی بخاری نے نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کا مقدمہ میں نام نہیں، سپلیمنٹری کیس میں سزا نہیں ہوتی ڈسچارج کیا جاتا ہے، چالان پیش ہو گیا تو جسمانی ریمانڈ کیسے دیا جائے، پولیس کے چالان میں شاہ محمود کا نام نہیں۔
انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی 10 اور 11 مئی کو اسلام آباد پہنچے، 11 مئی کو میرے مؤکل کو جی بی ہاوس سے تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا، اس ایم پی او حکم کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ختم کر دیا، انہیں سائفر کیس میں گرفتار کیا گیا تھا جس میں سپریم کورٹ نے انہیں ضمانت دے دی۔
پراسیکیوٹر کی شاہ محمود قریشی کو مقدمے سے ڈسچارج کرنے کی مخالفت
دریں اثنا پراسیکیوٹر اکرام امین منہاس نے شاہ محمود قریشی کے ریمانڈ کے لے دلائل دیتے ہوئے اُن کو مقدمے سے ڈسچارج کرنے کی مخالفت کر دی۔
انہوں نے کہا کہ شاہ محمود کا بیان 9 مئی کا تھا،ہمیں ستمبر میں پیمرا و دیگر اداروں سے ملا، یہ ٹرائل کورٹ نہیں ڈسچارج کا معاملہ نہیں آسکتا،تفتیش کا مطلب برآمدگی نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے مقدمہ میں 90 روز تک ریمانڈ ہوسکتا ہے، ہم نے ایف آئی اے، پیمرا اور ایف آئی سے رپورٹ لی، اس سب میں شاہ محمود کے خلاف شواہد ملے، سوشل میڈیا پر بھی شواہد سامنے آئے، تمام تر ثبوتوں کو عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔
پراسیکیوٹر اکرام امین نے کہا کہ میں شواہد کو عدالت میں پڑھ کر سنانا چاہتا ہوں، شاہ محمود قریشی کی تقریر کو دیکھنا ہوگا، حاصل شدہ شواہد پر شاہ محمود کو گرفتار کیا، شاہ محمود قریشی کی تقریر معمولی چیز نہیں تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ہمارا کیس نہیں ہے کہ شاہ محمود قریشی جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں میں موجود تھے، ہمارا کیس یہ ہے کے شاہ محمود قریشی کی تقریر کے بعد جی ایچ کیو پر حملہ والا معاملہ ہوا۔
بہت ذمہ دار شخص نے کہا کہ میں 9 مئی میں صاف ہوں، شاہ محمود قریشی
پراسیکیوٹر نے 2 جنوری تک شاہ محمود قریشی کے ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ریمانڈ میں ہم نے دیکھنا ہے کے تقریر کا کتنا اثر ہوا، ہمارے پاس شاہ محمود قریشی کے خلاف بہت ٹھوس شواہد ہیں۔
اس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میری تقریر کا حوالہ دیا مکمل بات نہیں کر رہے، میں نے کہا قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا، ویڈیو عدالت منگوا لے۔
انہوں نے کہا کہ پُرامن احتجاج عوام کا حق ہے، علیحدگی میں چاہیں گے تو بتا دوں گا، بہت ذمہ دار شخص نے کہا کہ میں 9 مئی میں صاف ہوں، کہیں گے تو میں آپ کو نام دے دوں گا، یہ سب کیس گھڑا جا رہا ہے، سائفر میں بیل ہوئی تو یہاں موجود ہوں۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہمیں تقاریر و دیگر چیزوں کے فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ چاہیے، اس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آپ کو 30 دن چاہیے؟ کیسی باتیں کرتے ہیں۔
دریں اثنا عدالت نے شاہ محمود قریشی کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
بعدازاں ایڈیشنل سیشن جج جہانگیر علی نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے شاہ محمود قریشی کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کردی اور انہیں جوڈیشل ریمانڈ پراڈیالہ جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔
محفوظ فیصلہ سنائے جانے کے بعد شاہ محمود قریشی کو انتہائی سخت سیکیورٹی میں اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا، اس موقع پر راولپنڈی پولیس اور ایلیٹ کمانڈوز کی بھاری نفری تعینات تھی۔
شاہ محمود قریشی بکتر بند گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر موجود تھے، انہوں نے جیل کے باہر میڈیا نمائندگان کو دیکھ کر وکٹری کا نشان بنایا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے سائفرکیس میں شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کی تھی، روبکار ملنے پر شاہ محمود قریشی کو گزشتہ روز اڈیالہ جیل سے رہا گیا کیا، تاہم اڈیالہ جیل سے باہر آنے پر پنجاب پولیس نے انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا تھا۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ شاہ محمود قریشی کو جی ایچ کیو گیٹ حملہ کیس میں گرفتار کیا گیا ہے اور ان سے اِس کیس کے بارے میں تفتیش کی جائے گی۔
سیکورٹی اتنی سخت ہے جیسے دہشت گرد کو پیش کیا جارہا ہے، مہر بانو قریشی
شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہر بانو قریشی نے جوڈیشل کمپلیکس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج اتنی سخت سیکورٹی حصار بنایا گیا کہ جیسے کسی بڑے دہشت گرد کو پیش کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمپلیکس میں کسی کو داخلے کی اجازت نہیں جو افسوس ناک ہے، پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے، سول کپڑوں میں ملبوس لوگ بھی جوڈیشل کمپلیکس میں موجود ہیں۔
مہربانو قریشی نے کہا کہ کل میں میڈیا سے مخاطب ہونے پر شاہ محمود قریشی کو دھکے دیئے گئے، شاہ محمود قریشی کے ساتھ ہونے والے سلوک پر پڑوسی ممالک میں بھی مذاق بنا، پڑوسی ممالک بھی سوچ رہے کی سابق وزیر خارجہ کے ساتھ کیسا سلوک کیا گیا۔