عام انتخابات: حکومت کا ہزاروں سیکیورٹی اہلکار تعینات کرنے کا فیصلہ
بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کی روک تھام کے لیے نگران حکومت نے عام انتخابات 2024 سے قبل خیبر پختونخوا میں ہزاروں سیکیورٹی اہلکار تعینات کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 8 فروری 2024 کو منعقد ہونے والے انتخابات پہلے سے ہی دھاندلی کے الزامات کی زد میں ہیں جہاں سابق وزیر اعظم عمران خان جیل میں قید ہیں اور انہیں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔
ماضی میں بھی انتخابی مہم کے دوران تشدد کے واقعات رونما ہوئے ہیں جہاں کئی امیدواروں اور ووٹرز کو دھماکوں اور فائرنگ کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔
کمانڈر معظم جاہ انصاری نے اے ایف پی کو بتایا کہ فروری کے پہلے ہفتے میں افغانستان کی سرحد سے ملحقہ خیبر پختونخوا میں تقریبا 5 ہزار فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) فورسز کو تعینات کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے شمالی وزیرستان کے علاقے تپی کے قریب فائرنگ سے آزاد امیدوار کلیم اللہ اپنے 2 سیکیورٹی گارڈز سمیت جاں بحق ہوگئے تھے۔
ایک سینئر علاقائی حکومتی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ امن و امان کی صورتحال خراب ہورہی ہے اور الیکشن والے دن پولنگ اسٹیشنز میں اضافی پولیس کی ٹیموں کو تعینات کیا جائے گا۔
اسلام آباد میں مزید 1ہزار 700 ایف سی کے جوان اور کراچی میں 400 اہلکاروں کو عسکریت پسندوں کے حملوں کا نشانہ بننے والی پولیس کی مدد کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔
اسی دوران منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان میں سندھ کے نگران وزیر اعلٰی جسٹس (ر) مقبول باقر نے خبردار کیا کہ الیکشن میں حصہ لینے والوں پر حملے کی متعدد رپورٹ موصول ہوئی ہیں۔
جرم کی لہر میں اضافے کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ امیدواروں کو دن دہاڑے اغوا بھی کیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں قائم سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق گزشتہ سال دہشتگردانہ کارروائیوں میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 6 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی جس میں 1 ہزار 500 سے زیادہ عام شہری، سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسند شامل ہیں۔
ملک کے لیے سب سے بڑی عسکریت پسند جماعت کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ہے۔
اسلام آباد نے کابل کی طالبان حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو پناہ دے رہی ہے اور انہیں پاکستانی سرزمین پر بلا امتیاز حملہ کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے، دوسری جانب کابل نے مسلسل ان الزامات کی تردید کی ہے۔
گزشتہ سال جنوری میں ٹی ٹی پی کو پشاور میں ایک مسجد بم دھماکے کے ساتھ جوڑا گیا تھا جس میں ایک ہیڈکوارٹر کے اندر 80 سے زائد پولیس اہلکار جاں بحق ہوگئے تھے۔
بعد ازاں دسمبر میں ٹی ٹی پی سے وابستہ ایک نے گروہ اسی صوبے کے ایک فوجی اڈے پر دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑی کو ٹکرا دیا تھا جس کے نتیجے میں 23 فوجی جاں بحق ہو گئے تھے۔