• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
شائع January 25, 2024

ہم باحیثیت قوم انتخابات اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے معاملات میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ وہ پالیسی جس پر ہماری ذاتی اور ملکی معیشت کا دارومدار ہے، اس میں تبدیلی کے حوالے سے نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر اور وفاقی ادارہ برائے محصولات (ایف بی آر) کے درمیان رسہ کشی جاری ہے۔

پاکستان کو ان دنوں جن معاشی مسائل کا سامنا ہے ان میں سب سے بڑا مسئلہ ملک میں ہونے والی معاشی سرگرمیوں کے تناسب سے ٹیکس کی کم وصولی ہے۔ ٹیکس وصولی میں کمی پالیسی سازی کے مسائل کے ساتھ ساتھ ٹیکس اتھارٹی کے کام میں موجود مسائل، نااہلی، اختیارات کا ناجائز استعمال اور بدعنوانی ہیں۔

مجھے معاشی رپورٹر کے طور پر کام کرتے ہوئے دو دہائیوں سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے۔ اس عرصے میں ٹیکس وصولی بڑھانے کے تمام اقدامات کے باوجود ٹیکس وصولی، مجموعی معاشی سرگرمیوں کے 9 سے 11 فیصد کے درمیان ہی رہتی ہے۔ پاکستان کے ٹیکس نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے ایف بی آر میں کئی اصلاحات بھی متعارف کروائی گئیں جن میں ادارے کے نام کی تبدیلی بھی شامل تھی اور ان تمام اصلاحات کے لیے عالمی بینک سے کئی کروڑ ڈالرز کا قرضہ بھی لیا گیا۔ مگر تاحال اصلاحات پر مکمل طور پر عمل نہیں ہوسکا ہے۔

کئی سال کی جدوجہد کے بعد انکم ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کا عمل، ٹیکس جمع کروانے کا چالان، کسٹم ڈیوٹی اور دیگر ٹیکسس جمع کروانے کا عمل ڈیجیٹلائز کردیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ٹیکس وصولی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے۔ اضافہ نہ ہونے کی پہلی وجہ پالیسی سازی کا فقدان ہے جبکہ دوسری وجہ ایف بی آر کے بنیادی ڈھانچے میں موجود مسائل بھی ہیں۔ آج کی تحریر میں ایف بی آر کے ڈھانچے میں تبدیلی کے حوالے سے جائزہ لیا جائے گا لیکن پہلے ہم پاکستان میں ٹیکس کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔

   ٹیکس جمع کروانے کا نظام ڈیجیٹلائز کرنے کے باوجود ٹیکس وصولی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے
ٹیکس جمع کروانے کا نظام ڈیجیٹلائز کرنے کے باوجود ٹیکس وصولی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے

تنظیم برائے معاشی تعاون اور ترقی (او ای سی ڈی) نے سال 2023ء میں ایک رپورٹ جاری کی جس میں پاکستان میں ٹیکس وصولی کا موازنہ دیگر ممالک سے کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق او ای ڈی سی ریجن میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 34.1 فیصد ہے۔ لاطینی امریکی ممالک میں 21.7 فیصد، ایشیا پیسفک ممالک میں 19.8 فیصد، افریقی ممالک میں 16 فیصد ہے جبکہ پاکستان میں مقامی پیداوار کے مقابلے میں ٹیکس کا تناسب 10.3 فیصد ہے جوکہ دنیا اور خطے میں سب سے کم ترین سطح ہے۔ پاکستان میں ٹیکس وصولی ایشیائی پیسفک خطے کے ممالک سے 9.4 فیصد کم اور او ای ڈی سی ممالک کے مقابلے 23.8 فیصد کم ہے۔ خطے کے چھوٹے اور کم ترقی یافتہ ملک پاپانیو گینی، بھوٹان، فیجی، ملائشیا، انڈونیشیا، قازقستان بھی پاکستان سے زائد ٹیکس جمع کرتے ہیں۔

اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ایف بی آر میں ایسی اصلاحات کی جائیں جن سے احتساب کا نظام سخت ہو اور انتظامیہ ٹیکس وصولی کو بھی بڑھا سکے۔ مگر اصلاحات کا منصوبہ پیش ہونے سے قبل ہی اختلافات کا شکار ہوگیا ہے۔

ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ اصلاحات کیا ہیں اور ان پر کس طرح عمل درآمد ہوگا اس حوالے سے نہ تو چیئرمین ایف بی آر اور نہ ہی ایف بی آر کے سینیئر افسران کو اعتماد میں لیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وفاقی سیکریٹری ریونیو اور چیئرمین ایف بی آر نے اس منصوبے کی سمری وفاقی کابینہ کو بھیجنے سے گریز کیا مگر بعدازاں اعلیٰ سطح پر ہونے والی مداخلت کے بعد سمری وفاقی کابینہ کو ارسال کردی گئی ہے۔ ساتھ ہی ایف بی آر کے ان لینڈ ریونیو اور کسٹم افسران نے الیکشن کمیشن میں اعتراضات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر یہاں سے انہیں ریلیف نہیں ملے گا تو وہ عدالت سے رجوع کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔

   ایف بی آر میں ایسی اصلاحات ضروری ہیں جن سے ٹیکس وصولی میں اضافہ ہو
ایف بی آر میں ایسی اصلاحات ضروری ہیں جن سے ٹیکس وصولی میں اضافہ ہو

اصلاحاتی منصوبہ

خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل میں ایف بی آر اصلاحات کے حوالے سے منصوبہ پیش کیا گیا۔ اس کونسل کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی شریک تھے۔ نگران وفاقی وزیر ڈاکٹر شمشاد اختر کے منصوبے کے مطابق ٹیکس اتھارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو پاکستان کی سرحدوں کے اندر ٹیکس وصولی کرے گا جیسے ان لینڈ ریونیو سروسز کررہا ہے۔ دوسرا حصہ فیڈرل بورڈ آف کسٹمز ہوگا جو درآمدات اور برآمدات کی نگرانی اور ڈیوٹیز کی وصولی کرے گا۔ یعنی ریونیو اتھارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جارہا ہے۔

اس کے علاوہ ایف بی آر کی پالیسی سازی بورڈ کو بھی سیاسی عمل دخل سے پاک کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بورڈ میں قومی اسمبلی کے اسپیکر اور چیئرمین سینٹ کے نامزد اراکین کے بجائے ٹیکس پالیسی ساز بورڈ میں مختلف بیوروکریٹس، آزاد ٹیکس ماہرین، ماہرینِ معیشت اور ٹیکنوکریٹس کو شامل کیا جائے گا۔ ایف بی آر کے پالیسی بورڈ کو وزارت خزانہ اور اس کے آپریشنل ونگ کو وزارت محصولات کے ماتحت کیا جائے گا۔ ان لینڈ ریونیو سروسز میں انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی وصولی کے لیے الگ الگ ڈائریکٹر جنرل تعینات ہوں گے۔

ایف بی آر کی تنظیم نو کے حوالے سے آئی ایم ایف کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف نے ملک کے اندر ٹیکس وصولی کے وفاقی اور صوبائی الگ الگ اتھارٹیز کے بجائے مشترکہ اتھارٹی قائم کرنے کی تجویز دی ہے جو صوبائی ٹیکس جیسا کہ زرعی انکم ٹیکس، خدمات پر جی ایس ٹی، جائیداد پر ٹیکس وصولی اور وفاقی ٹیکس جمع کرے اور اس حوالے سے ضلع کی سطح پر ٹیکس وصولی کا ڈھانچہ تشکیل دیا جائے۔

   ایف بی آر کی تنظیم نو کے حوالے سے آئی ایم ایف کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے
ایف بی آر کی تنظیم نو کے حوالے سے آئی ایم ایف کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے

اعتراضات

ایف بی آر میں اصلاحات کے حوالے سے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ تنظیم نو اور الگ الگ بورڈ بنانے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ یہ قانون سازی موجودہ نگران حکومت نہیں کرسکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب اس حوالے سے سینیٹ میں قانون سازی کرنے کی کوشش کی گئی تو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اب یہ سوچا جارہا ہے کہ ایف بی آر اصلاحات کو پہلے صدارتی حکم نامے کے طور پر نافذ کردیا جائے بعدازاں اس کی باضابطہ قانون سازی کی جائے۔

مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ ایف بی آر قانون 2007ء میں بنیادی تبدیلیاں کرنا ہوگی۔ مگر اس کے ساتھ چھے سے زائد قوانین اور ایک ہزار کے قریب قواعد کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اس مجوزہ قانون پر اور تنظیم نو پر عوامی سطح پر یا اسٹیک ہولڈرز سے کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی ہے جبکہ قوانین کی تبدیلی کا طریقہ کار بھی شائع نہیں کیا گیا ہے۔

ایک اعتراض تو یہ اٹھایا جارہا ہے ٹیکس ریونیو اتھارٹی میں دیگر شعبہ جات کے سیکریٹریز کی شمولیت کا کیا فائدہ ہوگا کیونکہ انہیں ٹیکس وصولی کا کوئی تجربہ نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ آزاد ممبران، ٹیکس ماہرین کی شمولیت میں مفادات کے ٹکراؤ کا معاملہ بھی ہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں شبر زیدی کو ایف بی آر کا چیئرمین نامزد کیا گیا تھا مگر انہیں اپنے محکمے کے اندر سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور ان پر یہ الزام بھی لگا کہ انہوں نے ایسی پالیسی بنانے کی کوشش کی جس سے ان کے کلائنٹس کو فائدہ پہنچے۔

پاکستان میں بہت سا خام مال درآمد کرکے ویلیو ایڈ کیا جاتا ہے جوکہ برآمد ہوتا ہے یا مقامی سطح پر استعمال ہوتا ہے۔ اگر کسٹم اور ان لینڈ ریونیو کو الگ الگ کردیا جائے گا تو درآمدی ڈیٹا اور مقامی کھپت کا ڈیٹا الگ الگ ہوجائے گا جس سے ٹیکس وصولی میں مسائل ہوں گے۔

   درآمدی ڈیٹا اور مقامی کھپت کا ڈیٹا الگ کرنے سے مسائل پیدا ہوں گے
درآمدی ڈیٹا اور مقامی کھپت کا ڈیٹا الگ کرنے سے مسائل پیدا ہوں گے

ایف بی آر کی تنظیم نو کے حوالے سے پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے صدر انور کاشف ممتاز کا کہنا ہے کہ جب بھی اصلاحات کی بات ہوتی ہے تو بات نہیں سے شروع ہوتی ہے۔ ایف بی آر کو موجودہ بیوروکریسی کے نظام سے الگ کردینا چاہیے۔ ایف بی آر یا ٹیکس اتھارٹی ایک مختلف نوعیت کا ادارہ ہے جس کا کام ٹیکسوں کی وصولی ہے۔ انہیں الگ طرح ملازمت دی جائے۔ ٹیکس اتھارٹی کی تنظیم نو میں سب سے بڑا مسئلہ تنخواہوں کا ہے۔ ایف بی آر میں تنخواہیں مارکیٹ کی مسابقت سے ہونی چاہیے نہ کہ سرکاری تنخواہ کا اسٹرکچر ٹیکس افسران کو دیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ گاڑی، بچوں کی تعلیم صحت کی سہولیات بھی ہونی چاہئیں تاکہ ان کے پاس بدعنوانی کی گنجائش کم سے کم رہے۔

صدر پاکستان ٹیکس بار کا کہنا ہے کہ جو بھی اصلاحات ہیں ان کے بارے میں کافی عرصے سے بات چیت چل رہی تھی کہ ٹیکس پالیسی اور ٹیکس وصولی کو الگ کیا جائے۔ کسٹم کے حوالے سے اسمگلنگ اور انڈرانوائسنگ بڑا مسئلہ بن گئے ہیں۔ اب جو منصوبہ لایا گیا ہے اس پر عملدرآمد کیسے ہوگا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کسٹم کے لیے وی باک نامی نظام موجود ہے مگر یہ نظام بھی پوری طرح ڈیجیٹل نہیں ہے۔

پورا نظام بہت جامع اور مستحکم ہونا چاہیے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو کسٹم ڈیوٹیز میں کافی حد تک اضافہ متوقع ہے۔ جب ان لینڈ ریونیو میں ’آئریس‘ نظام کو متعارف کروایا گیا تھا تو ای فائلنگ کے لیے اس میں بہت سے مسائل تھے اور بہت عرصے بعد وہ نظام بہتر ہوا تھا۔

حکومتی نظام میں بیوروکریسی میں سب سے بڑا مسئلہ وہاں کام کرنے والے افسران کی ترقیوں، مراعات اور اختیارات کا ہوتا ہے۔ اس میں وہ افسران شامل ہیں جو ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ ان کی ترقی اور مراعات میں کمی نہ ہوجائے۔ جن افسران کو چیئرمین کی سطح پر پہنچنا تھا، اب وہ چیئرمین ایف بی آر نہیں بن سکیں گے۔ ممبر اور چیئرمین کی اسامی ختم ہوجائے گی۔ نئے آنے والے افسران، جو سی ایس ایس کے بعد ایف بی آر میں تعینات ہوئے ہیں وہ بہت مطمئن ہیں کیونکہ ان کا پیشہ ورانہ سفر بہت باقی ہے۔

   اگر ٹیکس وصولی کا پورا نظام آٹومیٹک ہوگا تو نظام کو انتہائی مستحکم بنانا ہوگا
اگر ٹیکس وصولی کا پورا نظام آٹومیٹک ہوگا تو نظام کو انتہائی مستحکم بنانا ہوگا

انور کاشف ممتاز اصلاحات کے تمام عمل پر ایک سوالیہ نشان بھی لگاتے ہیں کہ کیا یہ اصلاحات دیرپا ہوں گی؟ ان اصلاحات کے جب نتائج برآمد ہوں گے اس وقت تک نگران حکومت جاچکی ہوگی تو کیا فروری کے انتخابات کے بعد آنے والی نئی حکومت ان اصلاحات کو عملی جامہ پہنا سکے گی؟ اگر حکومت نے اس پر عمل درآمد روک دیا یا تاخیر کردی تو اس سے ٹیکس وصولی بری طرح متاثر ہوگی۔

پاکستان میں اصلاحات اس لیے بہت ضروری ہیں کیونکہ موجودہ ٹیکس افسران روایتی طریقے سے کام کرتے ہیں اور وہ ڈیجیٹل ہونے کو تیار نہیں۔ کاشف انور ممتاز کہتے ہیں اصلاحات کے منصوبے کی دستاویزات کو عوامی سطح پر دستیاب ہونا چاہیے تاکہ شکوک شبہات ختم ہوجائیں۔

ایف بی آر میں اصلاحاتی عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے جبکہ بہت سا عمل ڈیجیٹل بھی ہوگیا ہے۔ مگر اس کے باوجود افسران قانون سازی اور پالیسی سازی میں کوئی نہ کوئی ایسا نقطہ نکال لیتے ہیں جو بدعنوانی اور ٹیکس اتھارٹی کی جانب سے لوگوں کو ہراساں کیے جانے کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ اس کی مثال وفاقی ٹیکس محتسب کی چند روز قبل جاری کردہ تحقیقاتی رپورٹ ہے۔

ایف بی آر میں کرپشن کا سب سے بڑا ہتھیار ٹیکس وصولی کے نوٹسز ہیں۔ اس حوالے سے وفاقی ٹیکس محتسب نے فشریز ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کی شکایت پر تحقیقات کیں اور یہ انکشاف کیا ہے کہ ٹیکس وصولی کے نوٹسز جاری کرنے کے بعد صنعت کاروں، تاجروں اور برآمد کنندہ گان کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ اس عمل میں زیادہ تر ان افسران کو شامل کیا جاتا ہے جن کی ریٹائرمنٹ قریب ہو۔ اس حوالے سے جب وفاقی ٹیکس محتسب نے تحقیقات کا آغاز کیا تو انکم ٹیکس کمیشنر اور دیگر افسران نے سندھ ہائیکورٹ سے حکم امتناع حاصل کرلیا لیکن کیس خارج ہوا اور تحقیقات شروع ہوئیں۔

   ٹیکس وصولی کے نوٹسز ایف بی آر کے لیے سب سے بڑا ہتھیار ہیں
ٹیکس وصولی کے نوٹسز ایف بی آر کے لیے سب سے بڑا ہتھیار ہیں

تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ اہلکار ایک گروہ کی طرح کام کرتے ہیں، پہلے غیر قانونی طور پر ٹیکس وصولی کے نوٹسز جاری ہوتے ہیں جن کا مقصد برآمد کنندہ گان کو ہراساں کرنا اور ذہنی کوفت میں مبتلا کرنا ہوتا ہے۔ نوٹسز کے اجرا کے بعد کمشنر انکم ٹیکس، آئی آر اے او کی سربراہی میں غیر قانونی چھاپہ مار ٹیمز تشکیل دے کر برآمد کنندہ گان کے دفاتر پر چھاپے مارتے ہیں جبکہ قانونی طور پر انکم ٹیکس کمشنر کے پاس اس طرح کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اگر رشوت نہ دی جائے تو انکم ٹیکس افسران اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے برآمد کنندہ گان کے بینک اکاؤنٹس مجمند کردیتے تھے جس کے بعد تاجر صنعت کار اور کاروباری شخصیات رشوت دے کر اپنی جان چھڑواتے ہیں۔

اصلاحات پاکستان کے لیے بہت ضروری ہیں مگر ان اصلاحات کو اگر سیاسی عزم اور حمایت حاصل نہیں ہوگی اور اس حوالے سے تمام تفصیلات شفافیت کے ساتھ دستیاب نہیں ہوں گی تب تک ادارے کی اصلاح کرنا اور پاکستان میں ٹیکس کی وصولی کو بڑھانا ایک خواب ہی رہے گا۔

ایف بی آر حکام اور نگران وفاقی وزیر خزانہ کو اصلاحات کے حوالے سے ایک کھلی سوچ کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور جو بھی اصلاحات کرنا مقصود ہیں، ان پر عوامی سطح پر بحث مباحثہ اور اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنا ضروری ہے۔ بصورت دیگر اصلاحات کتنی ہی اہم اور ضروری کیوں نہ ہوں، وہ نہ تو زیادہ دیر کھڑی رہ سکتی ہیں اور نہ ہی ان کے دیرپا نتائج حاصل ہوتے ہیں۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔