• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

لائٹ، کیمرا، الیکشن۔۔۔

انتخابات یا انتخابی عمل پر بننے والی فلموں کی ایک طویل فہرست ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ انتخابات فلم سازوں کے لیے ہمیشہ سے ایک پُرکشش موضوع رہا ہے۔
شائع January 31, 2024

کیا فلمیں الیکشن پر اثرانداز ہوتی ہیں؟ کیا سنیما انتخابی نتائج کو تبدیل کرسکتا ہے؟ گو کہ اس سوال کا براہِ راست جواب دینا سہل نہیں مگر یہ طے ہے کہ ادب ہو، شاعری یا پھر تھیٹر، سب ہی سماج پر کسی نہ کسی حد تک اثر انداز ضرور ہوتے ہیں اور اپنی رسائی اور اثر پذیری کے باعث فلموں کو اس معاملے میں کچھ حد تک فوقیت حاصل ہے۔ فلموں میں نظریات اور افکار کو پلاٹ، کردار اور مکالموں میں یوں گوندھ کر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ سیدھے ناظرین کے دلوں پر نقش ہوجاتے ہیں۔

فلم کی اسی اثر انگیزی کے پیش ممتاز کمیونسٹ رہنما اور سوویت یونین کے بانی، ولادیمیر لینن نے اسے خصوصی اہمیت دی۔ کمیونسٹ انقلاب کے بعد لینن نے سنیما کو فنونِ لطیفہ کے میدان میں اپنے نظریات کی تشہیر کے لیے اہم ترین ٹھہرایا۔ اس خیال کے تحت اگست 1919ء میں سوویت فلمی صنعت کو نیشنالائز کردیا گیا۔

پہلی جنگِ عظیم کے باعث جب فرانسیسی، ہسپانوی اور جرمن سنیما خس و خاشاک ہوئے تو امریکی سنیما مالی وسائل اور ٹیکنالوجی کے سہارے تیزی سے اُبھرنے لگا۔ بڑے اسٹارز سے سجی، پُرلطف تفریحی امریکی فلمز نے جلد عالمی سنیما پر اپنا سکہ جما لیا۔ اس زمانے میں فقط سوویت سنیما سے ہی اس کا مقابلہ تھا۔ سوویت سنیما کے پاس امریکا جیسے وسائل اور ٹیکنالوجی تو نہیں تھی مگر وہ کمیونسٹ نظریات سے لیس ضرور تھے جن کی انہوں نے فلموں کے ذریعے خوب ترویج کی۔ اُس زمانے کے سوویت سنیما کو مغربی تجزیہ کار ’پروپیگنڈا فلمز‘ کا نام دیتے ہیں۔ البتہ دلچسپ امر یہ ہے کہ پروپیگنڈے کے اس سلسلے کا آغاز امریکا سے ہی ہوا تھا۔ 1915ء میں ریلیز ہونے والی امریکی فلم ’دی برتھ آف اے نیشن‘ اس کی اہم ترین مثال ہے جسے ہولی وڈ کی عمارت کی پہلی اینٹ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ متنازع فلم سیاہ فام امریکیوں کی تضحیک اور سفید فام نسل پرستانہ نظریات کی ترویج کرتی ہے۔

لیکن کیا فلم سازوں نے الیکشن پر اثر انداز ہونے کی بھی کوشش کی؟

بولی وڈ

اگر ہم 1915ء سے ایک طویل جست لگا کر 2023ء میں پہنچ جائیں اور بھارت کا رخ کریں تو یہاں ہمیں ایٹلی کمار کی بلاک بسٹر فلم ’جوان‘ کی صورت میں ایک بڑی مثال ملتی ہے۔ شاہ رخ خان، نین تارا اور دپیکا پڈوکون جیسی بھاری کاسٹ اور بڑے بجٹ کی فلم ’جوان‘ یوں تو ایک تفریح فلم تھی مگر اس میں کسانوں کی خودکشی، سرکاری اسپتالوں کی حالت زار اور کرپشن کو بھی ہائی لائٹ کیا گیا۔ البتہ اس کا اصل محور الیکشن کا زبوں حال نظام تھا۔ فلم کے کلائمکس میں شاہ رخ خان کا ایک طویل ’مونولاگ‘ ہے جس میں وہ ناظرین کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ دھرم اور ذات پات کے بجائے ترقی اور خوشحالی کے نام پر ووٹ دیں۔ یہ مونولاگ خاصا مقبول ہوا۔ تجزیہ کاروں کی جانب سے اسے اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اسے بی جے پی سرکار پر طنز قرار دیا گیا۔ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجروال نے اپنی تقریر میں بھی اس مونولاگ کا حوالہ دیا۔

کچھ اسی طرح کا مونولاگ ہمیں امیتابھ بچن کی فلم ’بھوت ناتھ 2‘ میں بھی ملتا ہے۔ اس فلم میں مرکزی کردار ایک بھوت ہے جو الیکشن لڑتا ہے اور اس کے مدمقابل ایک کرپٹ سیاست دان ہوتا ہے۔ یہ کرپٹ سیاست دان ووٹ خریدنے کا فن جانتا ہے۔ یہ فلم انتخابی عمل کے سقم عیاں کرتے ہوئے جب اختتامی حصے داخل ہوتی ہے تب مشکلات میں گھرا امیتابھ بچن کا کردار جو بہ ظاہر شکست کے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے، امید ظاہر کرتا ہے کہ اس بار لوگ روایتی نعروں اور سیاسی ہتھکنڈوں کو شکست دے کر اپنے بھلے کے لیے ووٹ دیں گے۔ اس سین میں بچن صاحب اپنے فن کی اوج پر دکھائی دیتے ہیں۔

انڈیا میں بی جے پی کی سرکار آنے کے بعد ایسی فلمیں بھی بنائی گئیں جن میں براہِ راست تو الیکشن موضوع نہیں تھا مگر بی جے پی کے لیے راہ ہموار ضرور کی گئی۔ دی کشمیر فائلز، دی کیرالا اسٹوری اور جنوری 2024ء میں ریلیز ہونے والی ریتک روشن کی فلم ’فائٹر‘ بھی اسی قبیل کی فلمیں ہیں جن میں بی جے پی کی پالیسیوں کو ہائی لائٹ کرتے ہوئے ان کا ووٹ بینک بڑھانے کی کوشش کی گئی۔

ہولی وڈ

اب کچھ بات ہوجائے ہولی وڈ کی۔ ہولی وڈ نے گزشتہ سوا سو برس میں انتخابات پر کئی یادگار فلمیں بنائیں ہیں جنہوں نے الیکشن مہمات اور ووٹنگ کے طریقہ کار، دونوں کو متاثر کیا۔ اس ضمن میں چند شعوری کوششیں بھی گئیں۔ 9/11 کے بعد ایک جانب جہاں ایسی فلمیں بنیں جن میں جارج بش سرکار کے بیانیے کو آگے بڑھایا گیا وہیں کچھ فلم سازوں نے اس بیانیے کی خامیوں کی بھی نشاندہی کی۔ آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ساز اور سوشل ایکٹوسٹ مائیکل مور کی 2004ء میں ریلیز ہونے والے ’فارن ہائٹ 9/11‘ بھی ایسی ہی ایک فلم تھی جو جارج ڈبلیو بش کی پالیسیوں، عراق پر امریکی جارحیت اور امریکی میڈیا کو شدید تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔

مور نے اعلانیہ طور پر اس فلم کو بش مخالف فلم قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ یہ آئندہ الیکشن میں ووٹرز کو درست انتخاب کی راہ دکھائے گی۔ اگرچہ اس فلم نے ریکارڈ کامیابی حاصل کی اور اسے ناقدین کی جانب سے سراہا بھی گیا لیکن یہ جارج ڈبلیو بش کے اقتدار کا راستہ روکنے میں ناکام رہی اور انہیں بھاری ووٹوں کے ساتھ دوبارہ منتخب کر لیا گیا۔ بعدازاں مائیکل مور سال 2018ء میں ڈاکومینٹری فلم ’فارن ہائٹ 11/9‘ بنائی جو سال 2016ء کے الیکشن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کا تنقیدی جائزہ لیتی ہے۔

الیکشن مہم اور امریکی انتخابی عمل کو صدارتی امیدوار کے عملے کے نقطہ نظر سے بیان کرتی یہ فلم The Ides of March اس کیٹیگری میں ایک اہم کاوش تصور کی جاتی ہے۔ شاندار اسٹار کاسٹ اور ایک گتھے ہوئے پلاٹ پر مبنی یہ فلم 2011ء میں ریلیز ہوئی۔ فلم کی ہدایت کاری معروف اداکار جارج کلونی نے انجام دی جنہوں نے فلم میں صدارتی امیدوار کا کردار بھی ادا کیا۔

سال 2015ء میں ریلیز ہونے والی Suffragette کو بیشتر ناقدین الیکشن کے موضوع پر بننے والی اہم ترین فلموں میں شمار کرتے ہیں۔ حقیقی واقعات پر مبنی یہ فلم 20ویں صدی کے اوائل میں ووٹ کے حق کے لیے لڑنے والی خواتین کی جرات مندانہ کہانیاں بیان کرتی ہے۔

ممتاز سیاہ فام امریکی سیاست دان، مارٹن لوتھر کنگ نے امریکی سماج پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ سال 2015ء میں ریلیز ہونے والے فلم ’سلما‘ مارٹن لوتھر کنگ اور ان کے ساتھیوں کی ووٹنگ کے حق کے لیے جدوجہد کا کمال مہارت سے احاطہ کرتی ہے۔ تین طویل ریلیوں پر مشتمل اس پُرامن تحریک کے نتیجے میں جنوبی امریکا کی مختلف ریاستوں میں سیاہ فاموں کے ووٹ کا ایکٹ پاس ہوا۔

اِس فہرست میں 1998ء میں ریلیز ہونے والی جون ٹراولٹا کی فلم ’پرائمری کلرز‘ بھی شامل ہے جو سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی 1992ء کی کامیاب الیکشن مہم کا احاطہ کرتی ہے۔

معروف اداکارہ ریز ورداسپون کی سال 1999ء کی فلم ’الیکشنز‘ کو بھی تجزیہ کار اہم گردانتے ہیں۔ اگرچہ یہ فلم ایک ہائی اسکول کے صدراتی انتخابات کا احاطہ کرتی ہے مگر اسکول کی سطح پر ہونے والے ان انتخابات کے ذریعے ہدایت کار نے قومی انتخابات کے طریقہ کار اور اس کے سقم کی کمال مہارت سے نشاندہی کی ہے۔

قارئین! یہ فہرست تو طویل ہے جس میں اور بھی کئی قابلِ قدر فلمیں شامل ہیں۔ ان فلموں سے اس مفروضے کو تقویت ملتی ہے کہ انتخابات فلم سازوں کے لیے ہمیشہ سے ایک پُرکشش موضوع رہا ہے۔ جبکہ ساتھ ہی انہوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے سماج میں بہتری لانے کی کوشش بھی کی ہے جوکہ قابلِ قدر اقدام ہے۔

صائمہ اقبال

لکھاری مضمون نگار، استاد، قاری اور فلم بین ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔