لاہور اچھرہ بازار واقعہ، خاتون کو ہراساں کرنے والے مشتعل افراد کے خلاف مقدمہ درج
لاہور کے کاروباری علاقے اچھرہ بازار میں مشتعل ہجوم کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے جنہوں نے چند روز قبل خاتون پر عربی حروف تہجی والا لباس پہننے پر توہین مذہب کا الزام عائد کرتے ہوئے ہراساں کیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عہدیدار کا کہنا تھا کہ لاہور کے سینئر پولیس افسران پر شدید دباؤ تھا کہ وہ مشتعل افراد کے خلاف مقدمہ درج نہ کریں اور ماضی میں پرتشدد مظاہروں کا حصہ بننے والے مذہبی گروہوں کے ساتھ ممکنہ تصادم یا تنازعات سے گریز کریں۔
تاہم بعض سینئر سرکاری افسران کا خیال تھا کہ مجرموں کو سزا نہ دینے سے نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بُرا تاثرجائے گا بلکہ شرپسندوں کو مستقبل میں ایسا کرنے کا دوبارہ موقع ملے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت نے بھی شرپسندوں کے خلاف کارروائی شروع کرنے میں پولیس کو مکمل تعاون فراہم کیا اور اس طرح کے واقعات کے خلاف زیرو ٹالرنس کا مظاہرہ کیا۔
بالآخر سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ توہین رسالت ایک حساس مسئلہ ہے اور ماضی میں اسی طرح کے واقعات پنجاب میں پرتشدد ہجوم کے حملوں کا باعث بنے مثال کے طور پر سیالکوٹ اور جڑانوالہ میں ہونے والے مظالم کے واقعات سب کے سامنے ہیں۔
کئی اہم اجلاس کے بعد پولیس کے اعلیٰ حکام نے اس طرح کے واقعات میں ملوث ہونے والوں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا، پولیس کا بنیادی مقصد قانون کی عملداری کو برقرار رکھنا تھا۔
ذرائع کے مطابق اچھرہ پولیس نے متعدد مشتبہ افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی، جن میں مذہبی جذبات بھڑکانے، صورتحال کو خراب کرنے اور خاتون کی جان کو خطرہ بنانے والے نقاط شامل ہیں۔
پولیس نے مقدمہ درج کرکے رپورٹ مزید قانونی کارروائی کے لیے لاہور پولیس کے تفتیشی یونٹ کے حوالے کر دی ہے۔
واقعے میں دیگر پولیس اہلکاروں کے کردار کو نظرانداز کیا گیا
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ اے ایس پی شہر بانو نقوی نے ہمت کا مظاہرہ کرکے خاتون کی جان بچانے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالی جو بہادری کا کام ہے، وہیں دیگر افسران، جو کہ ایک گھنٹے تک مشتعل ہجوم کو پرسکون کرنے اور کارروائی یقینی بنانے میں مصروف تھے، ان کے کردار کو نظرانداز کرلیا گیا۔
اس سلسلے میں عہدیدار نے اچھرہ کے ایس ایچ او محمد بلال آربی اور ماڈل ٹاؤن کے ایس پی آپریشنز ارتضیٰ کومیل کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ سب سے پہلے موقع پر پہنچے اور جب ہجوم مذہبی نعرے لگاتے ہوئے ان کی طرف بڑھ رہا تھا تو انہی پولیس اہلکاروں نے خاتون کو بچانے میں مدد کی۔
ایمرجنسی کال کے بعد پٹرولنگ آفیسر اے ایس آئی ساجد جائے وقوعہ پر پہنچے جہاں ہجوم نے ایک دکان کا محاصرہ کر لیا جہاں خاتون نے خوف کے عالم میں موجود تھی۔
اسی دوران ڈیڑھ بجے کے قریب ایس ایچ او بلال بھی وہاں پہنچے اور فوری طور پر پولیس اہلکاروں کو ہائی الرٹ کر دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ایس ایچ او نے ایک شخص کو دیکھا جو بھاری ہتھیار لے کر خاتون تک پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا تاہم ایس ایچ او اور ان کی ٹیم نے فوری طور پر ملزم کو قابو میں لے کر ان سے اسلحہ ضبط کر لیا۔
عہدیدار نے بتایا کہ ایس ایچ او کی قیادت میں پولیس نے ہجوم اور خاتون کے درمیان ایک حفاظتی رکاوٹ کھڑی کر دی تھی جیسا کہ واقعے کی کچھ موبائل فون ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے۔
عہدیدار کا کہنا ہے کہ اس کے بعد بلال نے متعلقہ ایس پی کو صورتحال سے آگاہ کیا، جو اضافی فورس کے ساتھ موقع پر پہنچ گئے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک موقع پر صورت حال انتہائی تشویشناک ہو گئی جب ہجوم نے ایس ایچ او اور ان کی فورس پر خاتون کو ان کے حوالے نہ کرنے پر جان سے مارنے کی سنگین دھمکیاں دیں۔
’اس دوران اے ایس پی شہر بانو نقوی وہاں پہنچی اور بہادری سے خاتون کو ہجوم سے بچایا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ماڈل ٹاؤن ایس پی نے کچھ رسمی ملاقاتوں میں اعلیٰ حکام کو ایس ایچ او، اے ایس آئی اور دیگر پولیس حکام کے کردار سے بھی آگاہ کیا تھا۔
عہدیدار نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’تاہم پولیس حکام نے نچلے درجے کے اہلکاروں اور افسران کے کردار کو نظر انداز کر دیا کیونکہ ان میں سے کسی کو بھی محکمے نے ابھی تک سرکاری طور پر نہیں سراہا‘۔