بھارتی انتہا پسند انتخابات کے بعد ایک اور مسجد کو شہید کرنے کے لیے تیار
بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں نے بھارتیا جنتا پارٹی کی سرپرستی میں عام انتخابات کے بعد ایک مسجد کو شہید کرنے کی تیاری شروع کردی ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر متھورا میں قائم شاہی عیدگاہ کے متعلق انتہا پسندوں ہندوؤں کا ماننا ہے کہ اسے ان کے بھگوام کرشنا کی جنم بھومی کی جگہ پر قائم کیا گیا ہے۔
اب بھارتی ہندو انتہا پسند ایک مرتبہ پھر بھارتیا جنتا پارٹی کے وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں اس جگہ کو حاصل کر کے اس پر مندر بنانا چاہتے ہیں۔
بھارت میں مسجد اور مندر ایک بڑا مسئلہ بن چکے ہیں اور بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ معاملہ سنگین شکل اختیار کر گیا ہے۔
مسلمان خاتون ٹیچر تسلیم قریشی نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کہتی رہتی ہے کہ انتخابات کے بعد شاہی عیدگاہ کا وجود ختم ہو جائے گا۔
48سالہ ٹیچر نے کہا کہ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے اور اس کا اپنی جان سے تحفظ کریں گے۔
بھارتیا جنتا پارٹی کے ان انتہا پسندانہ اقدامات کا مقصد سیکولر بھارت کے منظرنامے کے برعکس محض مذہبی بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ ووٹ بینک بنانا ہے اور اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں کیونکہ ہر گزرتے الیکشن کے ساتھ ان کی اقتدار پر گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔
مقامی الیکٹریشن گوکل پرساد نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایودھیا میں مندر کا افتتاح مودی کی افتتاحی مہم کا واحد اہم ترین مسئلہ ہے، چونکہ ہم متھورا میں شاہی عیدگاہ کے قریب رہتے ہیں تو میں یقیناً مودی کو ہی ووٹ دوں گا۔
جب سے شاہی عیدگاہ ہندو انتہا پسندوں کے نشانے پر آئی ہے، تب سے اقلیت میں موجود مسلمان بھی متحرک ہو گئے ہیں لیکن انہیں اس کے ساتھ نئی مشکل کا بھی سامنا ہے کیونکہ اب ان میں بہت سوں کے نام انتخابی فہرست میں موجود ہی نہیں ہیں۔
55سالہ ریحانہ قریشی نے کہاکہ مجھے بتایا گیا کہ میرا یا میرے شوہر کا نام ووٹنگ لسٹ میں نہیں اس لیے ہم ووٹ نہیں دے سکتے۔
انہوں نے کہا کہ ہم دہائیوں سے یہاں رہ رہے ہیں اور ووٹ دیتے آرہے ہیں، اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے پاس جو واحد ہے ہمیں اس سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔
صدیوں سے قائم بابری مسجد کو 1992 میں بھارتی وزیر اعظم کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ہندو انتہا پسندوں نے شہید کردیا تھا۔
مسجد کو شہید کرنے کے واقعے نے بھارت میں بدترین مذہبی فسادات کو جنم دیا تھا جس کے نتیجے میں 2 ہزار افراد مارے گئے تھے، مرنے والوں میں زیادہ تر مسلمان شامل تھے، اس واقعے نے بھارت کے نام نہاد سرکاری سیکیولر سیاسی نظام کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
بھارت کے اکثریتی ہندو آبادی کا خیال ہے کہ یہ جگہ بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے اور مغل دور میں مسلمانوں نے اس مقام پر ایک مندر کو مسمار کر کے 1528 میں بابری مسجد کی تعمیر کی تھی
بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا تھا اور رواں سال وزیراعظم نریندر مودی نے خود اس متنازع مندر کا افتتاح کیا تھا جس کی بھارتی میڈیا نے بھی خوب تشہیر کی تھی۔