• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی حقیقت ہیں، مذاکرات ہر کسی سے ہونے چاہئیں، شبلی فراز

شائع April 27, 2024
رہنما پاکستان تحریک انصاف شبلی فراز— فوٹو: اسکرین شاٹ
رہنما پاکستان تحریک انصاف شبلی فراز— فوٹو: اسکرین شاٹ

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف ایک حقیقت ہیں اور مذاکرات ہر کسی سے ہو سکتے ہیں لیکن سب سے پہلے یہ طے کرنا ہے کہ مذاکرات کس طریقے سے اور کس ماحول میں ہوں گے۔

بیٹ رپورٹرز کے ساتھ غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے شبلی فراز نے کہا کہ اس وقت سیاسی عدم استحکام نے پورے ملک کو گرفت میں لیا ہوا ہے تو یہ مسائل مذاکرات سے ہی حل ہو سکتے ہیں اور مذاکرات ہونے سے پہلے ضروری ہے کہ آپ یہ طے کریں کہ مذاکرات کیسے ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے لیے سب سے پہلے یہ طے کرنا ہے کہ کس طریقے سے اور کس ماحول میں یہ مذاکرات ہوں گے جس سے چیزیں آسان ہو جائیں گی، اس سے مذاکرات کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی اور اس کا مثبت نتیجہ بھی نکلے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ طے کرنا ضروری ہے کہ یہ مذاکرات ہونے چاہئیں یا نہیں ہونے چاہئیں، اس کی بنیاد کیا ہو گی اور یہ کن حالات میں ہوں گے۔

تحریک انصاف کے رہنما نے کہا کہ مذاکرات ہر کسی سے ہونے چاہئیں، جو بھی اسٹیک ہولڈرز ہیں ان سے مذاکرات ہو سکتے ہیں، اسٹیبلشمنٹ بھی ایک حقیقت ہے اور تحریک انصاف بھی ایک بہت بڑی حقیقت ہے لہٰذا اس عمل میں جو سیاسی جماعتیں شامل ہیں وہ یہ طے کریں کہ ہمیں کن بنیادوں پر یہ مذاکرات کرنے ہیں۔

مسلم لیگ(ن) کے رہنما عرفان صدیقی کے حوالے سے سوال پر شبلی فراز نے کہا کہ عرفان صدیقی کی تقریر میں نے سنی تھی لیکن عرفان صدیقی کسی کی نمائندگی کررہے ہیں، وہ اپنی جماعت کی نمائندگی کررہے ہیں، نواز شریف کی طرف سے کررہے ہیں یا شہباز شریف کی طرف سے کررہے ہیں، کیا وہ حکومت کی حیثیت سے بات کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر عرفان صدیقی سنجیدہ ہیں تو یہ ٹی وی پر بیانات دینے کے بجائے سنجیدگی کے ساتھ بات کریں کہ ہم نے ان پیرامیٹرز پر بات کرنی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سینیٹر عرفان صدیقی نے سینیٹ کے اجلاس کے دوران تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت دی تھی۔

انہوں نے تحریک انصاف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ احتجاج کے لیے محمود خان اچکزئی سے بات کرسکتے ہیں، فضل الرحمٰن کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں جن کا نام بھی آپ بھول گئے تھے تو ہمارے ساتھ بیٹھنے میں کیا قباحت ہے؟۔

انہوں نے مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئیں پاکستان کے لیے ایک ساتھ بیٹھیں، ہم ایک بار پھر آپ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024