کیا سعودی سرمایہ کاری سے پاکستان کی معدنیات پر مبنی معیشت ترقی کرپائے گی؟
پاکستان اور سعودی عرب دونوں ممالک ایک اہم سنگم پر موجود ہیں جہاں دونوں کا مقصد اپنی معدنیات پر مبنی معیشت کو بہتر بنانا ہے۔ ایک ملک اقتصادی بحران سے بحالی کی کوشش میں ہے جبکہ دوسرا ملک فوسلز ایندھن کے علاوہ بھی اپنی معیشت کو متنوع بنانے کی کاوشیں کررہا ہے۔ ایک کے پاس معدنیاتی وسائل کے انبار ہیں جبکہ دوسرے ملک کے پاس ان معدنیات کو زمین سے نکالنے میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے دولت اور تجربہ ہے۔
پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی سعودی عرب کی دلچسپی ہمارے ملک کے معدنیاتی منظرنامے کو کافی تبدیل کرسکتی ہے۔ سعودی عرب اپنے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ جس کی مالیت ایک کھرب ڈالرز سے زائد ہے، اس کے ساتھ اب وہ پاکستان کی مائننگ انڈسٹری کی ترقی میں تعاون کے لیے سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہے۔
معدنیات جیسے کاپر لیتھیم بیٹریز کے لیے ضروری ہیں اور توانائی کی منتقلی اور قابلِ تجدید معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مخصوص معدنیات بشمول تانبے کے حصول کے لیے عالمی سطح پر کوششیں کی جارہی ہیں کیونکہ انہیں قابلِ تجدید توانائی کے لیے اہم قرار دیا جارہا ہے۔ تاہم ان میں سے بہت سی معدنیات ایسی جگہوں پر پائی جاتی ہیں جو جغرافیائی سیاسی طور پر غیرمستحکم ہیں جس کی وجہ سے وہاں کان کنی میں دشواری ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے پاس بھی تانبے اور سونے کے ذخائر ہیں جس نے سعودی عرب کی توجہ حاصل کی۔ وہ پاکستان کے وسائل کو عالمی تناظر میں قابلِ تجدید توانائی کے حصول کے لیےایک اچھی سرمایہ کاری کے طور پر دیکھتا ہے۔
سعودی عرب کا پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کان کنی کو اہم سمجھتا ہے اور ان کے نزدیک سرمایہ کاری کے 13 اہم شعبہ جات میں سے کان کنی میں سرمایہ کاری ایک کلیدی اقدام ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان دونوں کو مل کر کام کرنے سے مشترکہ فوائد حاصل ہوں گے جبکہ اس سے پاکستان کی کان کنی کی مہارت اور صلاحیتوں کو بھی فروغ مل سکتا ہے۔
تو اس کا آغاز کہاں سے کیا جائے؟ جواب ہے ریکو ڈک، تنابے اور سونے کی کان کنی کا یہ پروجیکٹ بلوچستان کے معدنیات سے مالامال علاقے میں واقع ہے جوکہ Tethyan Magmatic Arc کا حصہ ہے۔ سرمایہ کاری سے متعلق متعدد نشستوں کے بعد حتمی مرحلہ اب اس پر مرکوز ہے کہ اس منصوبے میں معاشی شراکت داری کے تناسب میں توازن کیسے رکھا جائے۔
حکومت، سعودی عرب سے ایک ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے بدلے انہیں ریکو ڈک میں وفاق کے شیئرز کا ایک معقول حصہ دینے پر غور کررہی ہے۔ اگرچہ ان مذاکرات سے سامنے آنے والے باتیں ابھی قیاس آرائی پر مبنی ہیں جبکہ معاہدے کا ڈھانچہ آہستہ آہستہ واضح ہوتا جا رہا ہے۔
بیرک گولڈ جس کی اس منصوبے میں 50 فیصد کی شراکت ہے، اپنے شیئرز کم کرنا نہیں چاہتی لیکن وہ اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ اس منصوبے میں سعودی عرب کی شمولیت سے فوائد حاصل ہوں گے۔ بیرک کی جانب سے خیرمقدم کیے جانے کے پیچھے اہم وجہ وہ سیکورٹی اور استحکام ہے جو سعودی عرب جیسے بڑے سرمایہ کار کی شمولیت سے اس منصوبے میں شامل ہوگا۔
بلوچستان کی صوبائی حکومت بھی اس تعاون کے حق میں ہے لیکن وہ اپنے شیئرز سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں۔ اگر سمجھوتہ ہوجاتا ہے تو سعودی عرب کو او جی ڈی سی ایل اور بی بی ایل کے تحت موجودہ وفاقی شیئرز مل جائیں گے جس سے اس منصوبے میں شراکت داروں کے شیئرز کا تناسب تبدیل ہوجائے گا۔ دوبارہ بتاتے چلیں کہ شیئرز کی تقسیم کے حوالے سے مذاکرات ابھی جاری ہیں جو ابھی حتمی شکل اختیار نہیں کرپائے ہیں۔
کیا اس منصوبے میں شیئرز کی تقسیم کا حساب کیا گیا؟ شاید نہیں۔ کیا یہ معاہدہ پاکستان کے حق میں مثبت ثابت ہوگا؟ جی بالکل۔ سعودی سرمایہ کو پاکستان کے مائننگ سیکٹر میں متعارف کروائیں گے تو یہ متوقع طور پر پاکستان کو معدنیاتی وسائل پر مبنی معیشت کی اہمیت اجاگر کرنے میں اہم ثابت ہوگا۔ اس حوالے سے طویل مدتی فوائد اور کسی بھی طرح کے ممکنہ جغرافیائی سیاسی یا معاشی فیصلوں میں انتہائی محتاط ہونا ہوگا اور یہ صرف سرمایہ کاری اور شیئرز کی تقسیم کی بات نہیں۔
اگر ہم تانبے کے وسائل کے نام پر محض ایک ارب ڈالرز میں وفاقی شیئرز کا بڑا حصہ سعودی عرب کے حوالے کردیں گے تو شاید یہ اقتصادی طور پر اچھا فیصلہ نہ ہو۔ تاہم یہ اسٹریٹجک طور پر کسی حد تک درست ہوسکتا ہے۔ حالیہ تاریخ میں پہلی بار یہ دونوں ممالک مالیاتی امداد یا کمرشل شراکت داری کے بغیر صرف اقتصادی وعدوں کی بنیاد پر باہمی تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ پاکستان کی بہت بڑی فتح ہے۔
مستقبل کا سوچیں تو یوں پاکستان کے اقتصادی شعبہ جات میں خلیجی ممالک کی دلچسپی میں اضافہ ہوسکتا ہے جن میں کان کنی کے علاوہ دیگر اہم اقدامات بھی شامل ہوسکتے ہیں جیسے قومی ایئرلائنز کی نجکاری، زراعت، فارمنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ جات میں سرمایہ کاری کے امکانات بھی روشن ہوں گے۔ یہ شراکت داری پاکستان کی معیشت کے لیے ایک تبدیلی کے دور کا آغاز ثابت ہوسکتی ہے جس میں مائننگ سیکٹر ممکنہ طور پر اس تبدیلی میں سب سے آگے ہے۔
سعودی عرب کی دلچسپی سے یا تو پاکستان کی کان کنی کا مستقبل روشن ہوگا یا پھر یہ ایک ادھورا خواب بن کر رہ جائے گا۔ یہ ہماری سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اسٹریٹجک ہینڈلنگ پر زیادہ منحصر ہے جو خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے ذریعے پاکستان کے معاشی معاملات کو براہ راست سنبھال رہی ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔