امریکا کی جانب سے سعودی عرب کو جارحانہ ہتھیاروں کی فروخت پر عائد پابندی ختم کرنے کا امکان
امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ واشنگٹن آنے والے ہفتوں میں ممکنہ طور پر سعودی عرب کو جارحانہ ہتھیاروں کی فروخت پر عائد پابندی اٹھا لے گا۔
اخبار ’فنانشل ٹائمز ’ کی رپورٹ میں معاملے سے واقف شخص کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ واشنگٹن پہلے ہی سعودی عرب کو اشارہ دے چکا ہے کہ وہ پابندی ہٹانے کے لیے تیار ہے۔
2021 میں عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد، جو بائیڈن نے یمن میں حوثیوں کے خلاف سعودی عرب کی مہم، جس سے شہریوں کا بھاری جانی نقصان ہوا، اور ریاض کے انسانی حقوق کے ریکارڈ بالخصوص 2018 میں واشنگٹن پوسٹ کے صحافی اور سیاسی مخالف جمال خاشقجی کے قتل پر سخت مؤقف اپنایا تھا۔
سعودی عرب، جو امریکی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے، ان پابندیوں کی زد میں آگیا اور واشنگٹن نے اسے مخصوص ہتھیاروں کی فروخت کو منجمد کر دیا جو پچھلی امریکی انتظامیہ کئی دہائیوں سے فراہم کر رہی تھی۔
امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے بدھ کے روز کہا تھا کہ امریکا اور سعودی عرب جوہری توانائی، سلامتی اور دفاعی تعاون پر معاہدوں کے بہت قریب ہیں، جو کہ ریاض اور اسرائیل کے ساتھ وسیع تر معمول کے معاہدے کا دو طرفہ جزو ہے۔
تاہم اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جارحانہ ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی ہٹانے کا براہ راست ان مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
وائٹ ہاؤس اور سعودی عرب کے سرکاری مواصلاتی دفتر نے فوری طور پر خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کی جانب سے معاملے پر تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔