سرکاری عہدوں پر دہری تعیناتیوں کے کیسز پر لارجر بینچ تشکیل دینے کی استدعا
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شیر افضل مروت کے وکیل ریاض حنیف رائے نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ دہری تعیناتیوں سے متعلق 50 درخواستیں عدالتوں میں پڑی ہیں، اس پر لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں اسحٰق ڈار کی بطور نائب وزیراعظم تعیناتی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت کی، پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت کے وکیل ریاض حنیف رائے عدالت میں پیش ہوئے۔
کابینہ ڈویژن کی جانب سے اسحٰق ڈار کی بطور نائب وزیراعظم تقرری کے حوالے سے جواب عدالت میں جمع کروایا گیا، جس میں کہا گیا کہ ڈپٹی پرائم منسٹر کا کوئی آفس قائم نہیں کیا گیا، ڈپٹی وزیراعظم کا عہدہ اعزازی ہے۔
وکیل ریاض حنیف رائے نے عدالت کو بتایا کہ اسحٰق ڈار کی حیثیت اس کیس میں بینفشری کی ہے ، اس طرح کے کیسز کی فائلیں دفاتر میں پڑی رہتی ہیں، ڈپٹی پرائم منسٹر کا عہدہ کسی قانون کے تحت نہیں ہے۔
وکیل ریاض حنیف رائے نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حدود میں 126 دفاتر میں دہرے چارج کے ساتھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، 50 پٹیشن دہری تعیناتیوں کی عدالتوں میں پڑی ہوئی ہیں۔
انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ گڈ گورننس کے لیے اداروں میں دہری تعیناتیوں کے کیسز پر لارجر بنچ تشکیل دیا جائے، اسحٰق ڈار وزیر خارجہ بھی ہیں اور ڈپٹی وزیراعظم کا عہدہ بھی رکھتے ہیں۔
وکیل ریاض حنیف رائے نے کہا کہ چیف کمشنر اسلام آباد کے پاس چیئرمین سی ڈی اے کا بھی چارج ہے، اگر کوئی شخص غیر قانونی عہدہ رکھتا ہو، تو کیس ایک دن بھی آگے نہیں جانا چاہیئے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ دہری تعیناتیاں بیروزگاری کا بھی استحصال ہے، عدالت دہری تعیناتیوں پر فیصلہ دے کر اپنے وجود کو تسلیم کروا سکتی ہے، بعد ازاں کیس کی سماعت ملتوی کردی گئی۔
یاد رہے کہ 28 اپریل کو وزیرِاعظم شہباز شریف نے وزیرِ خارجہ سینیٹر اسحٰق ڈار کو نائب وزیرِاعظم مقرر کیا تھا۔
بعد ازاں، 17 مئی کو سینیٹر اسحٰق ڈار کی بطور ڈپٹی وزیر اعظم تعیناتی اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دی گئی تھی۔
اس سے قبل 16 مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے اسحٰق ڈار کی بطور نائب وزیراعظم تقرری کے خلاف دائر درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کر دی تھی۔
اسی قسم کی ایک درخواست سندھ ہائی کورٹ میں بھی دائر کی گئی تھی، فریقین کے دلائل سننے کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے درخواست کے قابل سماعت ہونے کے حوالے سے کیبنیٹ سیکریٹری، پرائم منسٹر سیکٹریٹ، سیکریٹری جنرل قومی اسمبلی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا تھا۔