اٹلی کے قریب تارکین وطن کی کشتیوں کو حادثہ، 11 افراد ہلاک، 26 بچے لاپتا
اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں اور اطالوی کوسٹ گارڈز حکام نے کہا ہے کہ اٹلی کے قریب سمندر میں تارکین وطن کی 2 کشتیوں کو حادثہ پیش آیا، جس کے نتیجے میں 11 افراد ہلاک اور 26 بچوں سمیت 60 سے زائد لاپتا ہوگئے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق نادر ریسکیو کشتی چلانے والے جرمنی کے امدادی گروپ ریسک شپ نے بتایا کہ لکڑی کی ڈوبتی کشتی سے 51 افراد کو نکالا، جس میں بے ہوش ہونےوالے 2 افراد بھی شامل ہیں، جبکہ کشتی کے نچلے حصے سے 10 لاشیں بھی برآمد ہوئیں۔
امدادی ادارے نے بتایا کہ زندہ بچ جانے والوں کو اطالوی کوسٹ گارڈ کے حوالے کر دیا گیا۔
پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے یواین ایچ سی آر اور یونیسف نے مشترکہ بیان میں بتایا کہ یہ کشتی لیبیا سے روانہ ہوئی تھی، جس میں شام، مصر، پاکستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔
ایجنسیوں نے بتایا کہ دوسری کشتی کو حادثہ اطالوی علاقے کلابریا سے تقریباً 200 کلومیٹر مشرق میں پیش آیا، جب ترکیہ سے روانہ ہونے والی ایک کشتی میں آگ لگ گئی اور وہ الٹ گئی۔
انہوں نے بتایا کہ حادثے کے بعد 64 افراد لاپتا ہوگئے جبکہ ایک خاتون کی لاش اور 11 افراد کو بچا کر اطالوی کوسٹ گارڈ کے حوالے کر دیا گیا۔
ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی عملے میں شامل شکیلہ محمدی کا کہنا تھا کہ زندہ بچ جانے والوں نے بتایا کہ کشتی میں 26 بچوں سمیت 66 افراد تھے، جن میں سے کچھ کی عمر چند ماہ ہے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک خاندانوں کے تمام افراد کو مردہ تصور کر لیا گیا ہے، وہ 8 دن پہلے ترکیہ سے روانہ ہوئے تھے اور تین یا چار دن سے پانی کے اندر ہیں، انہوں نے ہمیں بتایا کہ ان کے پاس لائف جیکٹ بھی نہیں تھی اور کوئی جہاز ان کی مدد کے لیے نہیں رکا۔
اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے بتایا کہ تباہ ہونے والے دوسرے جہاز میں سوار پناہ گزینوں کا تعلق ایران، شام اور عراق سے تھا۔
وسطی بحیرہ دنیا کے سب سے خطرناک راستوں میں سے ایک ہے، اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2014 سے اب تک اس راستے سے جانے والے 23 ہزار 500 سے زائد تارکین وطن ہلاک یا لاپتا ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے یورپی یونین کی حکومتوں سے بحیرہ روم میں تلاش اور ریسکیو کی کوششوں کو تیز کرنے اور قانونی اور محفوظ ہجرت کے ذرائع کو وسعت دینے کا مطالبہ کیا تاکہ تارکین وطن سمندر میں اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے پر مجبور نہ ہوں۔