احسن اقبال کی سوات میں شہری کے قتل کی مذمت، مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل کے محرکات کی تحقیقات کا مطالبہ
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ سوات میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک اور شہری کے قتل کا واقعہ پیش آیا ہے، اس کے نتیجے میں آج پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے، پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات کے محرکات کا جائزہ لے کر قومی لائحہ عمل دے کہ ہم کس طرح سے معاشرے میں قانون کی بالادستی نافذ کریں۔
قومی اسمبلی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہت اہم مسئلے کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ اس حوالے سے میری اپنی ذات بھی متاثر رہی ہے، سوات میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک اور شہری کے قتل کا واقعہ پیش آیا ہے، اس کے نتیجے میں آج پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے اور خاص طور پر ہمارے ہمسائے ملک بھارت میں جہاں مسلمانوں کو بھی ہجوم کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا جا تا ہے، اس کا میڈیا بھی ہمارا مزاق اڑا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ ایک واحد واقعہ ہوتا تو شاید اس کو نظر انداز کر سکتے تھے لیکن یہ ایک تسلسل ہے، آپ نے دیکھا کہ سیالکوٹ میں اس طرح کے واقعہ پیش آیا، جڑانوالہ میں اس طرح کا واقعہ پیش آیا، سرگودھا میں اسی قسم کا واقعہ ہوا، اچھرہ لاہور میں اسی طرح کے واقعے سے ہم بچ نکلے، میں خود اپنی ذاتی مثال دینا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک نئی زندگی دی جب ایک جنونی میری زندگی لینے کی کوشش کی، اور وہ گولی آج بھی میرے جسم میں موجود ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ میری اس ایوان سے یہ گزارش اور استدعا ہے کہ ہمیں اس واقعہ کا نوٹس لینا چاہیے کیونکہ ہمارا معاشرہ تباہی کے ایسے دہانے پر پہنچ چکا ہے جہاں دین کے نام کو استعمال کر کے اسٹریٹ جسٹس، موب لنچنگ کے ذریعے آئین، قانون اور ریاست کے تمام بنیادی اصولوں کو اپنے پیروں تلے روندتے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام جس نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ کافر کی لاش کی حرمت کا احترام کیا جائے، ہم نہ صرف موب لنچنگ سے لوگوں کو مارتے ہیں بلکہ ان کی لاشوں کو آگ لگا کر تماشہ دیکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بارے میں ایک روایت ہے جس کے راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ ہم کسی مشن پر جا رہے تھے تو کوئی دو دشمن تھے، نبی پاک ﷺ نے کہا کہ اگر تم ان دو لوگوں کو پاؤ تو انہیں جلادینا، راوی نے بتایا کہ پھر رسول اللہ ﷺؑ نے فرمایا کہ میں وہ بات واپس لیتا ہوں، انہیں قتل کردینا، جلانے کا حق صرف اللہ کو ہے، صرف خدا کی ذات کسی کو جلا سکتی ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ آپ دیکھیں کہ ہم یہاں کسی کو جلا کر ، لوگوں کو زندہ مار کر، ان کی لاشوں کو جلا کس قسم کا رویہ دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں جبکہ ہم جنگ کے اندر بھی کسی کی لاش کی بحرمتی نہیں کرسکتے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے، اگر ہم نے اس کا نوٹس نہیں لیا تو یہ انکارکی ہمارے ملک کے اندر ہمیں جلا دے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت میں یہ بات پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہم کبھی سوچتے ہیں کہ ہم دنیا میں کہاں کھڑے ہیں، دنیا میں ایک ارب مسلمان ہیں، ایک کروڑ کی آبادی ہے اسرائیل کی، اس نے ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے اور ہم بے بس ہیں، کیوں ؟ اس لیے کیونکہ ہم تعلیم میں دنیا میں سب سے پیچھے ہیں، صحت میں سب سے پیچھے ہیں، سائنس میں سب سے پیچھے ہیں، دنیا میں امن میں سب سے پیچھے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم سب توہین مذہب کا پرچم اٹھا کر کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن کیا کبھی کسی نے اس بات کا بھی سوچھا ہے کہ نبی پاکﷺ نے کہا کہ جو ملاوٹ کرتا ہے، وہ ہم میں سے نہیں، ہم نے جو دین کو استعمال کیا ہے میں معاشرے میں غندہ گردی کے لیے، میں سمجھتا ہوں کہ علما کا فرض ہے کہ وہ اس کا نوٹس لیں اور خاص طور پر اس ایوان کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو ان تمام واقعات کے محرکات کا جائزہ لے کر ایک قومی لائحہ عمل دے کہ ہم کس طرح سے ایک مہذب معاشرے کے طور پر قانون کی بالادستی کو نافذ کریں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سوات پولیس نے 2 روز قبل خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے علاقے مدین میں مبینہ طور پر قرآن پاک کی بے حرمتی کے الزام میں زیر حراست ملزم کو زندہ جلانے کے واقعے پر 2 افراد کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹس (ایف آئی آر) درج کی تھی لیکن تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی تھی۔
2 روز قبل مشتعل ہجوم نے سوات کے مدین پولیس تھانے میں گھس کر ملزم کو زندہ جلانے کے بعد اس کی لاش، پولیس اسٹیشن اور پولیس کی گاڑی کو آگ لگادی تھی۔
یاد رہے کہ توہین مذہب کے شبہ میں حالیہ ہفتوں میں یہ دوسرا واقعہ ہے جب مشتبہ شخص کو قتل کیا گیا، گزشتہ ماہ سرگودھا میں اسی قسم کے الزامات پر ایک شخص کو قتل کیا گیا تھا۔
مقامی لوگوں نے بتایا تھا کہ کچھ افراد نے بازار میں اعلان کیا کہ ایک شخص نے توہین مذہب کا ارتکاب کیا ہے اور پھر اس کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا، تاہم کچھ ہی دیر بعد سوات کے مشہور سیاحتی مقام مدین کی مساجد سے چند اعلانات کیے گئے جس نے لوگوں کو مشتعل کردیا۔
عینی شاہدین کے مطابق ہجوم نے پولیس اسٹیشن کا رخ کیا اور پولیس سے مطالبہ کیا کہ وہ مشتبہ شخص کو ان کے حوالے کردیں، پولیس کے انکار پر وہ زبردستی اسٹیشن میں داخل ہوئے جس پر پولیس اہلکار اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے بھاگ گئے، تاہم کشیدہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے مزید نفری طلب کی گئی۔
سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہجوم کی جانب سے پولیس اسٹیشن کو آگ لگائی جارہی ہے، اور مشتبہ شخص پر پیٹرول جھڑک کر آگ لگائی جارہی ہے۔
مدین پولیس اسٹیشن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ریجنل پولیس آفیسر محمد علی گنڈا پور نے کہا تھا ’ہم نے واقعے کی تحقیقات شروع کردی ہیں اور اس حوالے سے معلومات اکٹھی کی جارہی ہیں، ابتدائی طور پر دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں، ایک مقتول کے خلاف اور دوسری تھانے میں گھسنے اور توڑ پھوڑ کرنے پر ہجوم کے خلاف در ج کی گئی ہیں۔
مدین کے ایس ایچ او اسلام الحق نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا تھا کہ تفتیش کا عمل ابھی جاری ہے اور اس کے بعد کوئی بھی گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔
ایس ایچ او نے کہا تھا کہ مقتول کی شناخت محمد سلیمان کے نام سے ہوئی، جو سیالکوٹ کا رہائشی ہے اور اس نے اپنی شناخت سنی مسلمان کے طور پر کی تھی جب اسے تھانے لایا گیا تھا اور اس نے مبینہ فعل کے ارتکاب سے انکار کیا تھا، تاہم اس شخص کو لانے کے چند لمحوں بعد ایک ہجوم پولیس اسٹیشن پہنچ گیا۔
ایس ایچ او نے مزید کہا تھا کہ جب مجھے خطرہ محسوس ہوا تو میں نے اس شخص کو پولیس سرونٹ کوارٹر میں منتقل کیا لیکن ہجوم تھانے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا اور اسے تلاش کرنے کے بعد کوارٹر میں آیا اور اسے اپنے ساتھ لے گیا۔
سوات کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) ڈاکٹر زاہد اللہ خان نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا تھا کہ مدین اور سوات میں صورتحال معمول پر اور پر امن ہے، ہم نے علاقے میں اضافی سیکیورٹی تعینات کر دی ہے۔