مقبوضہ کشمیر کے انتخابات بھارتی پالیسیز کے خلاف کشمیری مزاحمت کی آواز کیسے بن سکتے ہیں؟
تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد نریندر مودی نے سری نگر کا دورہ کیا اور اعلان کیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انتخابات جلد منعقد ہوں گے۔ اس موقع پر انہوں نے یہ اشارہ بھی دیا کہ اس کی ریاستی حیثیت کو بحال کیا جائے گا۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن آف انڈیا نے اعلان کیا ہے کہ جموں و کشمیر کے لیے تازہ ترین انتخابی فہرستیں 20 اگست کو شائع کی جائیں گی۔ اس پیش رفت کی اہمیت اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ارادے اور منصوبے کیا ہیں انہیں سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ 5 سال پہلے اور اس کے بعد کیا ہو ا، اسے یاد کیا جائے۔
2019ء میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے ساتھ جموں و کشمیر سے اس کی خصوصی حیثیت واپس لے کر بھارت میں غیرقانونی الحاق کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ مقبوضہ وادی میں حالات معمول پر آرہے ہیں۔ درحقیقت 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ وادی کی مظالم سے بھرپور تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔
ریاست کی تقسیم اور بھارتی یونین میں اس کا الحاق، اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی سنگین خلاف ورزی تھا جبکہ اس اقدام کی بھرپور مذمت کی گئی۔ اس اقدام کے بعد طویل ترین لاک ڈاؤن اور مواصلاتی بلیک آؤٹ ہوا، سخت فوجی محاصرہ ہوا، عوامی اجتماع پر پابندی لگا دی گئی، پریس پر پابندیوں کا دائرہ سخت ہوا جبکہ کشمیری رہنماؤں کو جیل میں ڈالا گیا جن میں وہ سیاستدان بھی شامل تھے جو بی جے پی حکومت کی حمایت میں باتیں کرتے تھے۔ یہ سب اس لیے کیا گیا تاکہ اس اقدام کے بعد بھارتی حکومت کے خلاف اٹھنے والی بغاوت کو روکا جاسکے جس نے کشمیری عوام کو اس کے تمام حقوق سے محروم کردیا۔
مودی حکومت نے دعویٰ کیا کہ کشمیر میں وقت گزرنے کے ساتھ حالات معمول پر آچکے ہیں جبکہ علاقے میں استحکام لوٹ آیا ہے لیکن انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں اور مقبوضہ وادی میں جاری جبر، سیاسی سرگرمیوں پر پابندی، میڈیا کے خلاف کریک ڈاؤن، صحافیوں کو جیلوں میں ڈالنے اور اضافی فوجی نفری کی تعیناتی کے ذریعے مودی حکومت نے حالات معمول پر آنے کا جھوٹ بولا۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنماؤں کو جیل میں ڈالا گیا جبکہ کچھ کو اپنے گھروں میں نظربندی کا سامنا رہا۔
نریندر مودی نے اس سے قبل بھی بھارتی حکومت کی حمایت کرنے والے کشمیری رہنماؤں کو آمادہ کرکے انتخابات کے انعقاد کی کوشش کی تھی لیکن وہ کارآمد ثابت نہ ہوسکی۔ جون 2021ء میں انہوں نے کشمیر میں گول میز کانفرنس میں اس تمام رہنماؤں کو مدعو کیا۔
گول میز کانفرنس کا مقصد مخصوص کشمیری سیاسی رہنماؤں کو ایک نئے سیاسی عمل میں شامل ہونے پر آمادہ کرنا تھا تاکہ یہ تاثر پیدا کیا جاسکے کہ مقبوضہ وادی کے حالات معمول کے مطابق ہیں۔ لیکن یہ سب کوششیں ناکام رہیں کیونکہ مودی حکومت کی جانب سے منتخب کیے گئے کشمیری رہنماؤں نے وفاقی حکومت کے متنازع الحاق کے اقدام کو مسترد کردیا، اس کے بجائے مطالبہ کیا گیا کہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال کیا جائے۔ لہٰذا یہ گول میز کانفرنس ناکام ثابت ہوئی۔
مئی 2022ء کو بھارت کے حلقہ بندی کمیشن نے جموں و کشمیر میں نئے انتخابی حلقے بنائے جن کا مقصد مسلم آبادی کو اختیارات سے محروم کرنا تھا۔ حلقہ بندیوں کے اس نئے منصوبے کے تحت 90 رکنی جموں و کشمیر کی اسمبلی میں جموں کی طرف سے 6 نشستوں کا اضافہ ہوا جبکہ کشمیر کی طرف سے صرف ایک نشست کا اضافہ ہوا۔ اس منصوبے کے تحت جموں کی نمائندہ نشستوں کی تعداد 43 ہوگئی جبکہ کشمیر کی نشستوں کی تعداد 47 ہوگئی۔ ایسا ان حقائق کے باوجود کیا گیا کہ 2011ء کی مردم شماری میں وادی کشمیر کی آبادی 70 لاکھ تھی جبکہ جموں کی آبادی 53 لاکھ رپورٹ ہوئی تھی۔
انتخابی نقشے کو دوبارہ ترتیب دینے کے اقدام کو بھی کشمیر نے مسترد کردیا۔ حریت رہنماؤں کی جانب سے اس منصوبے کی مذمت کی گئی جبکہ بھارتی حکومت کے حامی کشمیری رہنماؤں نے بھی اس منصوبے کو ناقابلِ قبول قرار دیا کیونکہ اس کا مقصد کشمیر کی آبادی کو کم کرنا اور مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا تھا۔
2019ء کے غیرقانونی اقدام کے بعد سے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو زندگی کے ہر پہلو میں بی جے پی حکومت کی مداخلت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سلسلے میں انتظامی، آبادیاتی اور انتخابی اقدامات کی کڑی تھی جس کے تحت کشمیریوں کو اختیارات اور حق رائے دہی سے محروم کیا گیا اور کشمیر کے مسلمانوں کی شناخت کو تبدیل کیا گیا۔ ان میں سے بہت سی پالیسیز ایسی تھیں کہ جنہوں نے فلسطین میں اسرائیلی آبادکاروں کی پالیسیز کی نقالی کی۔
آبادیاتی تبدیلیوں کے ذریعے نئے ڈومیسائل قوانین سامنے آئے جن کے تحت بہت سے غیرکشمیری لوگوں کو نام نہاد ڈومیسائل جاری کیے گئے جوکہ آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد ڈومیسائل کے اہل قرار پائے۔ اس کے علاوہ غیرمقامی لوگوں کو ووٹنگ کے حقوق بھی دیے گئے۔ جائیدادیں ضبط کی گئیں اور نئی زمینوں کے قوانین متعارف کروائے گئے جن کے تحت مقامی لوگوں سے زمینیں چھین کر غیرمقامیوں کو دی گئیں۔
2022ء میں بی جے پی حکام نے جموں و کشمیر کے وقف بورڈ اور مقبوضہ علاقے میں اس کی تمام جائیدادیں ضبط کرلیں۔ اس اقدام نے مقبوضہ وادی میں مسلمانوں کے لیے مذہبی اہمیت کے حامل تمام نمایاں مقامات بشمول مزارات پر کنٹرول حاصل کرنے کی مہم کی نشان دہی کی۔ مذہبی رہنماؤں اور اسلامی اسکالرز کو بھی گرفتار کیا گیا اور کشمیر کی کئی مساجد میں عبادتوں پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ اور اس جیسے دیگر اقدامات کے ذریعے منظم طریقے سے کشمیریوں کی مذہبی شناخت اور ثقافت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں طاقت کے استعمال اور کشمیری مسلمانوں کو پسماندہ کرنے کی سنگین کوششوں کے درمیان بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ وادی میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان سامنے آیا ہے جبکہ اسمبلی انتخابات کے لیے جو حالات ترتیب دیے گئے ہیں وہ کچھ اس طرح ڈیزائن کے گئے ہیں کہ وہ 2019ء کے غیرقانونی اقدام کی توثیق کرتے ہیں۔
دسمبر 2023ء کے بھارتی سپریم کورٹ (جس نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کو آئینی قرار دیا تھا) کے فیصلے کے تحت حکومت قانونی طور پر پابند ہے کہ 30 ستمبر 2024ء تک انتخابات منعقد کروائے۔ مقبوضہ وادی میں آخری بار اسمبلی انتخابات 2014ء میں منعقد ہوئے تھے۔
سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کے علاوہ لوک سبھا انتخابات میں زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ کو مودی حکومت نے حالات معمول پر آنے کے اشارے کے طور پر دیکھا۔ یقینی طور پر کشمیر میں لوک سبھا کے تین حلقوں میں ماضی کے مقابلے میں ووٹرز ٹرن آؤٹ میں اضافہ دیکھا گیا، اگرچہ سری نگر میں دو تہائی ووٹرز نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا لیکن اس کے باوجود زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ ریکارڈ کیا گیا جسے بی جے پی حکومت نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے حوالے سے کشمیری عوام کی ’توثیق‘ کے معنوں میں لیا۔
یہ حقیقت کے منافی تھا جس کی واضح مثال بارہمولہ سے عبدالرشید شیخ کی انتخابی کامیابی ہے۔ دہشت گردی کے الزامات کے تحت جیل میں قید عبدالرشید شیخ بھارت کے ساتھ الحاق کے شدید مخالف ہیں، سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کو شکست دے کر جیل سے انتخابات میں کامیاب ہوئے۔ ان کی انتخابی مہم کا نعرہ تھا ’جیل کا بدلہ ووٹ سے لیں گے‘۔ انہوں نے جو حمایت حاصل کی بالخصوص نوجوانوں کی حمایت نے دہلی کے ساتھ کشمیریوں کے غصے کو ظاہر کیا جوکہ بڑے پیمانے میں بھارت مخالف ووٹوں کی صورت میں دیکھا گیا۔
اس تمام صورتحال میں کچھ ایسے اشارے بھی سامنے آرہے ہیں کہ بھارتی حکومت کی پالیسیز کو مسترد کرنے اور اظہارِ عدم اطمینان کے لیے بہت سے کشمیری انتخابات میں اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ماضی سے مختلف ہوگا کہ جب انتخابات کو دھوکہ قرار دے کر کشمیری عوام نے ان کا بائیکاٹ کیا۔ چونکہ مطالبات رکھنے کے دیگر تمام راستے بند کیے جاچکے ہیں، ایسے میں بھارتی حکومت کے خلاف ووٹ، کشمیریوں کی آواز بن سکتا ہے۔
اگرچہ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن بہت سی میڈیا رپورٹس میں کشمیری عوام کے مؤقف کو شامل کیا گیا ہے جن سے یہ تاثر ملا کہ ووٹنگ سے الحاق اور بھارتی حکومت کی پالیسیز کی توثیق ہرگز نہیں ہوگی بلکہ یہ ان کے لیے مزاحمت اور مخالفت رجسٹر کرنے کا ایک موقع ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر دہلی انتخابات کے ذریعے سامنے آنے والی ممکنہ مزاحمت کو بھانپ لیتا ہے تو کیا وہ مقبوضہ وادی میں اسمبلی انتخابات منعقد کروائے گا؟
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کشمیری عوام خود پر مسلط کی جانے والی کسی بھی حکومت کو مسترد کردیں گے اور کسی نہ کسی طریقے سے بھارتی قبضے سے آزادی کی اپنی دیرینہ خواہش کا اظہار کرتے رہیں گے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔