کیریئر کے عروج پر حادثے میں پاؤں ٹوٹا تو لنگڑا گھوڑا کہا گیا، بابر علی
ماضی کے مقبول فلمی ہیرو بابر علی نے انکشاف کیا ہے کہ کیریئر کے عروج پر شوٹنگ کے دوران اونچائی سے گرنے کے بعد جب ان کا پاؤں اور ہڈیاں ٹوٹی تو انہیں لنگڑے گھوڑے کا خطاب دیا گیا۔
بابر علی نے حال ہی میں نیو ٹی وی کے شو زبردست میں شرکت کی، جہاں انہوں نے کیریئر سمیت ذاتی زندگی پر کھل کر بات کی۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ڈراموں سے کیریئر کا آغاز کیا اور ان کا پہلا ڈراما محمد بن قاسم تھا جب کہ ان کی پہلی فلم جیوا تھی، جسے ترکیہ میں شوٹ کیا گیا تھا۔
ان کے مطابق جیوا کی شوٹنگ کے دوران انہوں نے نہ صرف بطور ہیرو کام کیا بلکہ انہوں نے شوٹنگ کے دوران مزدور کی طرح دوسرے کام بھی کیے، کیوں کہ ان کے بہت سارے اسٹاف کو ترکیہ کا ویزہ نہیں مل سکا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ایک وقت تھا جب وہ ایک ہی دن اٹھارہ اٹھارہ فلموں کی شوٹنگ کرتے تھے جب کہ ایک ہی وقت انہوں نے ساٹھ سے زائد فلموں میں کام کرنے کے معاہدے بھی کیے۔
بابر علی کے مطابق ان کی خواہش تھی کہ وہ مرحوم سلطان راہی کا ریکارڈ توڑیں، وہ بیک وقت 23 فلموں کی شوٹنگ کرواتے تھے لیکن ان کی خواہش پوری نہ ہوسکی اور ایک ہی وقت میں 18 فلموں تک جا سکے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ کیریئر کے عروج پر شوٹنگ کے دوران گڈانی بریکنگ شپ یارڈ میں وہ 110 فٹ کی اونچائی سے گر کر شدید زخمی ہوگئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا نہ صرف پاؤں ٹوٹا بلکہ ان کی ٹانگ کی ہڈیاں بھی بری طرح ٹوٹیں، جس وجہ سے انہیں لنگڑا گھوڑا کہا گیا اور فلم سازوں نے انہیں دیا گیا معاوضہ بھی واپس لینا شروع کیا۔
اداکار نے بتایا کہ اس وقت پورے میڈیا نے انہیں لنگڑا گھوڑا لکھنا شروع کردیا اور ان کے کیریئر کے خاتمے کی چہ مگوئیاں کی گئیں، ان کے قریبی دوست ان سے منہ پھیر گئے اور باقی انہیں لنگڑے گھوڑے کے طعنے دینے لگے۔
بابر علی کے مطابق مشکل کی گھڑی میں سب ان کا ساتھ چھوڑ گئے لیکن والدین، ہونے والی بیوی اور سسرالی ان کے ساتھ کھڑے رہے اور ان کی مدد سے ہی وہ دوبارہ کیریئر شروع کرنے میں کامیاب ہوگٗئے۔
انہون نے انکشاف کیا کہ مذکورہ حادثے کے بعد انہیں بطور ہیرو کاسٹ کرنے سے انکار کردیا گیا لیکن سید نور نے انہیں فلموں میں بطور ولن کاسٹ کرنا شروع کیا اور انہوں نے پہلی بار مہندی والے ہتھ میں ولن کا کردار ادا کیا، جس کے فوری بعد گھر کب آؤگے نامی فلم میں بھی وہ ولن بنے اور اس کی کہانی خلیل الرحمٰن قمر نے لکھی تھی۔
بابر علی نے خلیل الرحمٰن قمر اور سید نور کا بھی شکریہ ادا کیا جب کہ اہلیہ کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے شادی سے قبل ہی مشکل وقت میں ان کا ساتھ دے کر انہیں ہمت دی۔
انہوں نے بتایا کہ حادثے کے وقت ان کی شادی ہونے والی ہی تھی لیکن حادثے کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوگئی تھی۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے پسند کی شادی کی تھی، انہوں نے اہلیہ کے والدین کو منانے کے لیے ڈھائی سال تک محنت کی، پہلے ان کے سسرالیوں نے رشتہ دینے سے انکار کردیا تھا لیکن بعد میں ان کے والدین کے جانے پر انہیں رشتہ دیا گیا۔
بابر علی نے اہلیہ کی تعریفیں کرتے ہوئے انہیں نہ صرف اپنے تین بچوں کی ماں قرار دیا بلکہ انہیں اپنی زندگی بھی قرار دیا اور کہا کہ ان کے ساتھ سے ہی وہ دوبارہ کیریئر کرنے کے اہل ہوئے۔