ہیٹ ویو سے نمٹنے کے لیے کراچی کو دنیا کے دیگر شہروں سے کیا سبق سیکھنا چاہیے؟
کراچی میں حالیہ ہیٹ ویو کے نتیجے میں متعدد افراد لقمہ اجل بنے اور یہ سلسلہ رک نہیں رہا۔ کراچی کی ہیٹ ویو کا موازنہ رواں سال حج کے دوران مکہ میں شدید گرمی سے کیا جارہا ہے کہ جس میں ایک ہزار 300 عازمین جاں بحق ہوئے۔ سعودی عرب کے وزیرِ صحت نے کہا کہ جن عازمین حج کی اموات ہوئیں ان میں سے زیادہ تر نے پیاسے اور ہیٹ شیلٹرز کے بغیر چلچلاتی دھوپ میں پیدل طویل سفر طے کیا تھا۔
کراچی میں شہریوں کو گرمی سے بچاؤ کے لیے ہیٹ شیلٹرز تک رسائی حاصل نہیں تھی یا شاید انہیں سرے سے شیلٹرز ہی مہیا نہیں اور یہی ان کی اموات کی وجہ بنا۔
آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف سڈنی میں ہیٹ اینڈ ہیلتھ کے پروفیسر اولی جے کے مطابق شدید گرمی کے باعث لوگ تین طرح سے ہلاک ہورہے ہیں۔ سب سے پہلے ہیٹ اسٹروک سے کہ جس میں جسم کا اندرونی درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوجاتا ہے کہ جسے ٹھنڈا کرنے کے لیے جسم جلد کی جانب خون کا بہاؤ شروع کردیتا ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے خون اور آکسیجن معدے اور آنتوں میں نہیں جا پاتے اور اس سے عمومی طور پر معدے اور اس کے اردگرد زہریلے مادے گردش کرنے لگتے ہیں۔
درجہ حرارت غیرمعمولی حد تک بڑھ جانے کی وجہ سے جسم میں ایک چین ری ایکشن شروع ہوجاتا ہے کہ جس میں اندرونی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے خون جلد کی جانب منتقل ہوتا ہے، یوں اعضا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور یہ بلآخر موت کا سبب بنتا ہے۔
گرمی کی کاری ضرب دل پر دباؤ ہے، یہ بالخصوص ایسے لوگوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے کہ جو دل کے عوارض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس کا تعلق بھی جسم کا درجہ حرارت ٹھنڈا کرنے سے ہے جس سے بلڈ پریشر کم ہوجاتا ہے۔ شدید گرمی میں بےہوشی سے بچنے کے لیے دل زیادہ تیزی سے خون پمپ کرتا ہے۔ اس کے لیے دل کو اپنی عام حالت سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ تو ایسے میں جو لوگ دل کے عوارض میں مبتلا ہوتے ہیں، ان کا دل کام کرنا بند کرسکتا ہے اور موت واقع ہوسکتی ہے۔
شدید گرمی میں اموات کی دوسری وجہ جسم میں پانی کی کمی ہے۔ پسینہ زیادہ آنے کی وجہ سے جسم سے پانی کا اخراج اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ گردوں پر کافی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ کچھ لوگوں کو اس خطرے کی سنگینی کا اندازہ نہیں۔ پانی کی کمی کی وجہ سے جسم کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں، خون، آکسیجن اور غذائیت کی کمی کی وجہ سے اعضا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں جوکہ دماغی دورے یا موت کا باعث بنتا ہے۔
پانی کی کمی انتہائی خطرناک ہے اور یہ ہر عمر کے افراد کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ بالخصوص میڈیکل امراض اور ادویات لینے والے لوگوں کے لیے زیادہ مضر ہے۔ پانی کی شدید کمی کی وجہ سے جسم میں خون کا بہاؤ کم ہوتا ہے تو اس سے دل کے امراض میں اضافہ ہوتا ہے۔
گرمی و تپش دماغ کی سرگرمیوں پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ اس سے دماغ میں الجھن کی سی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے جس کا شدید گرمی کے زیر اثر آنے والے شخص کو اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ لیکن جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی جائے گی یہ مسئلہ سنگین رخ اختیار کرسکتا ہے۔
چند ادویات کی وجہ سے گرمی جسم پر زیادہ اثرانداز ہونے لگتی ہے۔ ادویات کی وجہ سے لوگ گرمی کو مختلف طرح سے محسوس کرنے لگتے ہیں اور یہ جسم کے اندرونی درجہ حرارت میں بھی مداخلت کرسکتی ہیں۔ ادویات کے سبب جسم کی جلد کی جانب خون کے بہاؤ کو منتقل کرنے کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے جوکہ اسے ٹھنڈا کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔
ڈپریشن کے علاج کی ادویات کی وجہ سے پسینے کے اخراج میں اضافہ ہوسکتا ہے جوکہ پانی کی شدید کمی کا باعث بن سکتا ہے۔ دوسری جانب Tricyclic antidepressant کی وجہ سے پسینے میں کمی ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے جسم کو اندرونی درجہ حرارت کم کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ذہنی امراض سے متعلق ادویات کے ذریعے بھی پسینے کے اخراج پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور یہ جسم کے اندرونی درجہ حرارت کو بھی تبدیل کرسکتی ہیں۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے انسان کے لیے گرمی کے اثرات کو برداشت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
اینٹیکولنرجک ادویات کی ایک اہم قسم جو عام طور پر پیشاب کے اخراج میں بے ضابطگی، زیادہ فعال مثانہ، الرجی اور پارکنسنز کی بیماری جیسے حالات کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں، پسینے اور جسم کے اندرونی درجہ حرارت میں مداخلت کرسکتی ہیں۔ اس کی وجہ سے جلد کی جانب خون کا بہاؤ کم ہوسکتا ہے۔
دل کے عارضے میں مبتلا افراد کو متعدد ادویات تجویز کی جاسکتی ہیں جن میں ڈائیورٹیکس اور اے سی ای روکنے کی ادویات شامل ہیں۔ ایسی ادویات کی وجہ سے پانی کی شدید حد تک کمی ہوسکتی ہے، گردے متاثر اور خون کے بہاؤ میں تبدیلی سے جسم کی صلاحیتیں محدود ہوسکتی ہیں۔
پانی کی کمی چند ادویات کے خون کے لیول کو بڑھا سکتی ہیں۔ انسولین سمیت ذیابیطس کی ادویات بھی شدید گرمی میں اپنی افادیت کھوسکتی ہیں۔
کچھ ادویات کے جان لیوا نتائج مرتب ہوتے ہیں جیسے کمزوری، اشتعال انگیزی، الجھن اور گرمی کے بارے میں خراب تاثر کا باعث بنتی ہیں۔ اور یہ تمام علامات موت کا باعث بنتی ہیں۔
کراچی میں گرمی سے بچاؤ کے انتظامات
شدید گرمی سے کیسے نمٹنا ہے، یہ کراچی کو دیگر شہروں سے سیکھنا چاہیے۔ بہت سے بڑے شہر جیسے نیویارک، لاس اینجیلس، بوسٹن، شکاگو، پورٹ لینڈ، سی ایٹل اور ٹورنٹو میں کولنگ مراکز موجود ہیں یا وہاں عوامی یا نجی مراکز بھی قائم ہیں کہ جہاں ایئر کنڈینشنز نصب ہوتے ہیں اور وہاں شدید گرمی میں لوگ ٹھنڈک محسوس کرنے کے لیے شیلٹر لیتے ہیں۔
تھائی لینڈ کے دارالحکومت بینکاک میں بڑے ایئر کنڈیشنڈ شاپنگ مالز موجود ہیں جوکہ کولنگ سینٹرز سے دو گنا بڑے ہوتے ہیں۔ بینکاک میں ایسے بہت سے مالز ہیں۔
امریکی ریاست ایریزونا کے شہر فینکس میں موبائل میڈیکل ٹیمیں شدید گرمی میں لوگوں کی مدد کے لیے کولنگ اور انہیں آئی وی ہائیڈریشن فراہم کرتی ہیں۔ امریکی شہر میامی میں میامی ڈیڈ کاؤنٹی کا عملہ شدید گرمی میں باہر سڑکوں پر لوگوں کو ٹھنڈے پانی کی بوتلیں اور دیگر سہولیات مہیا کرتا ہے تاکہ تپش سے نمٹنے میں کسی حد تک لوگوں کی مدد کی جاسکے۔
جب گرمی غیر معمولی حد تک بڑھ جاتی ہے، کاؤنٹی کی انتظامیہ ٹھنڈے تولیے مہیا کرتی ہے، پانی دینے کی سہولیات میں تیزی لاتی ہے، ساتھ ہی وہ نقشے کے ذریعے لوگوں کو کولنگ مراکز کے راستے بتاتے ہیں حتیٰ کہ انہیں وہاں تک ٹرانسپورٹ بھی فراہم کرتے ہیں۔
بہت سے شہروں نے ہیٹ میپس بنائے جاتے ہیں کہ جن میں ایسے علاقوں کی نشاندہی کی جاتی ہے جو بہت زیادہ گرم ہوتے ہیں اور جہاں کا درجہ حرارت شہریوں کے لیے غیرمعمولی حد تک زیادہ ہوسکتا ہے۔ میونسپل کا عملہ باہر گرم سڑکوں پر مخصوص ٹھنڈی تاثیر والا پینٹ کرتے ہیں۔ یہ پینٹ سورج کی گرمی جذب کرنے کے بجائے منعکس کرتا ہے۔
کراچی میں ہریالی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایمپریس مارکیٹ، صدر میں کھڑا شخص ہیٹ اسٹروک کا شکار ہوتا ہے تو کاروں اور بس کے انجنوں کی وجہ سے اس شخص کی حالت مزید بگڑے گی اور اسے کسی ایسے سبز مقام تک رسائی حاصل نہیں ہوگی جو اسے گرمی سے تحفظ فراہم کرسکے۔
درخت لگا کر گرین اسپیسس بنانا، سڑکوں کے ساتھ زیادہ درخت لگانا اور کنکریٹ کی زمینوں کو سفید چونا، محض چھوٹے اور ابتدائی اقدامات ہیں جنہیں کراچی کے غیرمعمولی درجہ حرارت کو بہتر بنانے کے لیے اٹھانا انتہائی ضروری ہے۔
نیویارک میں چھت کو سفید سلیکون ریفلیکٹو پینٹ سے رنگ کرنے کا ایک بڑا پروگرام بنایا گیا ہے۔ نیویارک کے کولروفس پروگرام نے پچھلے 10 سالوں میں ایک کروڑ مربع فٹ چھت کو پینٹ کیا ہے۔ پارکنگ لاٹس کو سفید رنگ سے پینٹ کرنے سے گرم درجہ حرارت پر بہت بڑا فرق پڑتا ہے۔
2022ء میں چین میں کیے گئے مطالعے میں سامنے آیا کہ کس طرح شہری علاقوں میں بنائے گئے پارکس شہروں میں درجہ حرارت کو کم کرتے ہیں۔ دن کے وقت پارکس شہری علاقوں کے مقابلے میں زیادہ آہستگی سے گرم ہوتے ہیں۔ ایسے سبز عوامی مقامات جہاں پانی کے تالاب بھی ہوں، اس کے پارک کے اندرونی اور آس پاس دونوں مقامات پر ٹھنڈے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
درخت کس طرح درجہ حرارت کم کرنے میں مدد کرتے ہیں، اس کی اہم مثال کولمبیا کا شہر میڈلین ہے۔ وہاں منصوبہ بندی کے بغیر ترقیاتی کاموں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر سرسبز مقامات کا خاتمہ ہوا جس کی وجہ سے اوسط درجہ حرارت میں 6 ڈگری تک کا اضافہ ہوا۔ اس سے نمٹنے کے لیے 2016ء اور 2019ء کے درمیان بڑی سڑکوں، آبی گزر گاہوں اور ترجیحی بنیادوں پر گرم محلوں میں 36 راستے بنائے کہ جہاں درخت اور پودے اگائے گئے۔ 36 ہیکٹر سے زائد پر محیط ان علاقوں کے درجہ حرارت میں 4 ڈگری تک کمی دیکھی جا چکی ہے۔
پیرس نے ٹھنڈے جزیروں کا ایک جال بنایا ہے جہاں لوگ گرمی سے راحت حاصل کرنے کے لیے پناہ لیتے ہیں۔ یہ جزیرے درختوں سے ڈھکے سایہ دار راستوں سے جڑے ہوئے ہیں جو پورے شہر میں قدرتی ٹھنڈک فراہم کرتے ہیں۔
جب گاڑیوں اور پاور پلانٹس میں فوسل فیولز استعمال ہوتا ہے تو اس سے کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج ہوتا ہے۔ یہ گیس فضا میں بلند ہوتی ہے اور یہ زمین کی سطح کے قریب ہی سورج کی گرمی کو روک کر ایک جگہ ٹھہر سی جاتی ہے۔ لوگ فوسل فیول جلاتے رہتے ہیں تو کاربن ڈائی آکسائڈ کی وجہ سے درجہ حرارت میں تھوڑا تھوڑا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ درجہ حرارت بڑھتا ہے تو زمین شدید گرم ہوتی ہے اور ہم غیرمعمولی گرمی کا سامنا کرتے ہیں۔
گرمی انتہائی خطرناک ہے۔ زیادہ گرمی اور زیادہ نمی کے امتزاج سے انسانی صحت کو لاحق خطرات دگنے ہوجاتے ہیں۔ گرمائش کی وجہ سے سمندر کا پانی بھی پھیلتا ہے اور سمندر کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے۔ سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے 2100ء یعنی اس صدی کے اختتام تک دو ارب لوگوں کے بے گھر ہونے کا خطرہ ہے۔
شہروں میں گاڑیوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، یہ شہروں میں درجہ حرارت میں غیرمعمولی اضافے کا سب سے بڑا ذریعے ہے۔
بہت سے مطالعات میں سامنے آیا ہے کہ ہیٹ ویوز کو کم کرنا ناممکن سا ہے۔ اس کے لیے ٹرانسپورٹ کے سیکٹر سے کاربن کو الگ کرنا ضروری ہے یعنی گاڑیوں کی تعداد کو کم کرنا اور برقی گاڑیوں پر منتقلی سے ٹرانسپورٹ کے نظام کو کچھ حد تک ماحول کے لیے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ کیا کراچی کے لیے ایسے ہدف کا حصول ممکن ہے؟
خوش آئند بات ہے کہ سندھ کے چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ جو اس سے قبل وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی کوآرڈینیشن کے وفاقی سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں۔ اتنے تجربے کے ساتھ وہ کراچی میں ہیٹ ویو سے نمٹنے کے پروگرام کی قیادت کرسکتے ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔