• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:29pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:53pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:56pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:29pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:53pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:56pm

گرے مارکیٹ کے دوبارہ وجود نے سال 2023 کی یادیں تازہ کردیں

شائع August 7, 2024
فائل فوٹو: ڈان اخبار
فائل فوٹو: ڈان اخبار

ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر کام کرنے والی گرے کرنسی مارکیٹ پڑوسی ممالک کو ڈالر کی اسمگلنگ میں اضافے کی وجہ سے دوبارہ ابھر رہی ہے جو کہ باقاعدہ ترسیلات زر کے دائرے سے باہر کام کرتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ کے مطابق مارکیٹ سرکاری شرح سے 4 روپے فی ڈالر زیادہ کی شرح مبادلہ پیش کر کے ماہانہ تقریباً 50 کرور ڈالر حاصل کر رہی ہے۔

گرے مارکیٹ تقریباً 284 روپے فی امریکی ڈالر کی پیشکش کر رہی ہے جو کہ اوپن مارکیٹ ریٹ 280 روپے کے مقابلے میں ریٹ 4 روپے فی ڈالر زیادہ ہے۔

کرنسی ڈیلرز کے مطابق گرے مارکیٹ، جس پر 2023 میں حکومت کے وسیع کریک ڈاؤن کے بعد جزوی طور پر کنٹرول کیا گیا تھا، افغانستان اور ایران کو ڈالر کی اسمگلنگ کی وجہ سے دوبارہ ابھر رہی ہے، اس نے مقامی مارکیٹ میں کرنسی کی زیادہ مانگ پیدا کر دی ہے۔

یاد رہے کہ حکومت نے اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر 340 روپے تک بڑھنے کے بعد کریک ڈاؤن شروع کیا تھا، جب کہ انٹربینک ریٹم جسے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کنٹرول کرتا ہے – 307 روپے پر برقرار تھا۔

گرے مارکیٹ کی تیزی نے مالی سال 2023 میں ترسیلات زر میں 4 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا کیونکہ سرحد پار سے ہونے والی اسمگلنگ نے بھی ڈالر کی دستیابی میں کمی میں حصہ ڈالا تھا۔

اس صورتحال نے جون 2023 کے آخر میں پاکستان کو ڈیفالٹ کے دہانے کے قریب پہنچا دیا تھا بعد ازاں آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ نے معیشت کو زندہ رہنے کے سہارا فراہم کیا۔

اسمگلنگ اور گرے مارکیٹ کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد شرح مبادلہ بتدریج مستحکم ہوگیا تھا اور 4 ماہ سے زائد عرصے تک اسی طرح رہا۔

بدلتی ہوئی صورتحال

ظفر پراچہ نے ڈان کو بتایا کہ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو ماہانہ 50 کرور ڈالر کے اخراج کے نتیجے میں رواں مالی سال کے اختتام پر 6 ارب ڈالر کا نقصان ہو گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ نقصان ترسیلات زر میں کمی سے ظاہر ہو گا، جو مالی سال 2024 میں بڑھ کر 30.25 ارب ڈالر ہو گئے تھے جبکہ مالی سال 2023 میں یہ 27.33 ارب ڈالر تھے۔

ظفر پراچہ نے بتایا کہ گرے مارکیٹ کے دوبارہ ابھرنے سے پہلے ہی دبئی میں ڈالر کی شرح متاثر ہوگئی تھی، جہاں یہ 285 روپے تک پہنچ گیا ہے۔

کرنسی ڈیلرز کے مطابق گرے مارکیٹ میں زیادہ ریٹ کا مطلب یہ ہو گا کہ ڈالر بیرونی ممالک میں روکے گئے ہیں جبکہ ترسیلات زر کو روپے میں حوالہ سسٹم کے ذریعے بھیجا جارہا ہے۔

یہ رجحان پہلے ہی دکھائی دے رہا ہے کیونکہ ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے بینکوں کو فروخت کیے گئے ڈالر کی مقدار جون کے مقابلے جولائی میں کم ہوگئی ہے۔

ظفر پراچہ نے کہا کہ ایکسچینج کمپنیوں نے جولائی میں بینکوں کو تقریباً 33.5 کروڑ ڈالر فروخت کیے جو جون میں 44.5 کروڑ ڈالر تھے، انہوں نے اشارہ کیا کہ ڈالر، جو کہ ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے آنے والے تھے، گرے مارکیٹ کی طرف منحرف ہو رہے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 14 اکتوبر 2024
کارٹون : 13 اکتوبر 2024