’مون سون کی دلہنیں‘: وزیر اعلیٰ سندھ کا رقم کے عوض 45 کم عمر لڑکیوں کی شادی کا نوٹس
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ضلع دادو میں غربت کے باعث رقم کے عوض45 کم عمر بچیوں کی شادیوں کی خبر کا نوٹس لے لیا۔
وزیر اعلی سندھ کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں مراد علی شاہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ انہوں نے کمشنر حیدر آباد سے 45 لڑکیوں کی رقم کے عوض شادی پر رپورٹ طلب کرلی ہے۔
اس میں کہا گیا کہ مراد علی شاہ نے یہ بھی پوچھا ہے کہ کیا بیاہی گئی لڑکیاں سیلاب متاثرہ خاندانوں سے تھیں؟ اگر سیلاب متاثرہ خاندانوں سے تھیں تو ان کی کتنی امداد کی گئی؟
وزیر اعلی سندھ نے ہدایت کی کہ ان بچیوں کی سماجی، معاشی اور قانونی وجوہات بتائی جائیں، کمیٹی بنا کر گوٹھ میں تفصیلی انکوائری کر یں اور رپورٹ پیش کریں۔
ان نے کہا کہ بتایا جائے کہ بیاہی گئی لڑکیاں اس وقت کس حال میں ہیں، ہرپہلو کی رپورٹ دیں تاکہ اس کا سدباب کیا جا سکے۔
وزیر اعلی سندھ نے کمشنر حیدرآباد کو انکوائری رپورٹ میں اپنی سفارشات دینے کی بھی ہدایت کی ہے۔
’مون سون دلہنیں‘، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کم عمری کی شادیوں میں اضافہ
واضح رہے کہ 2 روز قبل ہی سعودی خبر رساں ادارے نے رپورٹ کیا تھا کہ مون سون کے آغاز پر 14 سالہ شمائلہ اور ان کی 13 سالہ بہن آمنہ کی شادی پیسوں کے عوض کر دی گئی، یہ فیصلہ ان کے والدین نے سیلاب کے خطرے سے بچنے کے لیے خاندان کی مدد کرنے کے لیے کیا۔
اپنی عمر سے دگنی عمر کے شخص سے شادی کے بعد شمائلہ نے فرانسیسی خبر رساں ادارے ”اے ایف پی“ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ میری شادی ہو جائے گی، میں نے سوچا کہ میری زندگی آسان ہو جائے گی۔‘
حالیہ برسوں میں کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کی شرح کم ہو رہی تھی تاہم 2022 میں غیرمعمولی سیلاب کے بعد انسانی حقوق کے کارکنوں نے خبردار کیا تھا کہ موسمیاتی معاشی عدم تحفظ کی وجہ سے اب ایسی شادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
جولائی اور ستمبر کے درمیان موسم گرما کا مون سون لاکھوں کسانوں کے لیے اہم ہوتا ہے تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی یہ دورانیہ ان کے لیے بھاری اور طویل بنا رہی ہے جس سے لینڈ سلائیڈنگ، سیلاب اور فصلوں کو طویل المدتی نقصان کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
سندھ کی زرعی پٹی کے بہت سے دیہات اب تک 2022 کے سیلاب سے بحال نہیں ہو سکے ہیں، جس سے ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا تھا، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور فصلیں برباد ہوئیں۔
غیرسرکاری تنظیم سُجاگ سنسار کے بانی معشوق برہمنی کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کی وجہ سے ’مون سون کی دلہنوں‘ کا ایک نیا رجحان پیدا ہوا ہے۔’
یہ امدادی تنظیم کم عمری کی شادی سے نمٹنے کے لیے علما کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔
معشوق برہمنی نے کہا کہ ’خاندانوں کو زندہ رہنے کے لیے کوئی بھی ذریعہ مل جائے گا، ان کے لیے پہلا اور سب سے واضح طریقہ یہ ہے کہ اپنی بیٹوں کی شادی پیسوں کے عوض میں کر دیں۔‘
برہمنی نے کہا کہ 2022 کے سیلاب کے بعد سے دادو ضلع کے دیہات میں کم عمری کی شادیوں میں اضافہ ہوا ہے جو کہ سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے۔
خان محمد ملاح گاؤں میں شمائلہ اور آمنہ کی جون میں شادی ہوئی تھی۔ گزشتہ مون سون سے اب تک 45 کم عمر لڑکیاں اب بیویاں بن چکی ہیں جن میں 15 رواں برس کے مئی اور جون میں بنیں۔
گاؤں کی بزرگ 65 سالہ مائی حجانی کا کہنا ہے کہ ’2022 کی بارشوں سے قبل ہمارے علاقے میں لڑکیوں کی اتنی کم عمر میں شادی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔‘
کئی والدین نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کی شادی پیسوں کے عوض کی تاکہ انہیں غربت سے بچایا جا سکے۔’
شمائلہ کی ساس بی بی سچل نے کہا کہ انہوں نے نوجوان دلہن کے والدین کو دو لاکھ روپے دیے تھے۔
یہ ایک ایسے خطے میں بڑی رقم ہے جہاں زیادہ تر خاندان روزانہ تقریباً ایک ڈالر پر زندہ رہتے ہیں۔
’میں نے سوچا تھا کہ لپ سٹک مل جائے گی‘
نجمہ علی جو شروع میں بیوی بن جانے پر پُرجوش تھیں، کا کہنا ہے کہ ’میرے شوہر نے ان کے والدین کو اڑھائی لاکھ روپے دیے تھے تاہم یہ قرض تیسرے فریق سے لیا گیا تھا اور اب اس کو واپس کرنے کا کوئی طریقہ نہیں۔‘
چھ ماہ کے بیٹے کو سنبھالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میں نے سوچا تھا کہ مجھے لپ سٹک، میک اپ، کپڑے اور کراکری مل جائے گی۔‘
’اب میں ایک شوہر اور ایک بچے کے ساتھ گھر واپس آ گئی ہوں کیونکہ ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔‘
نجمہ علی کے شوہر نے شادی کے لیے اڑھائی لاکھ روپے قرض لیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
’میں پڑھنا چاہتی ہوں‘
دسمبر میں شائع ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے بعض حصوں میں کم عمری کی شادیاں عام ہیں اور دنیا میں 18 سال کی عمر سے قبل شادی کرنے والی لڑکیوں کی تعداد کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر ہے۔
مختلف صوبوں میں شادی کی قانونی عمر 16 سے 18 برس کے درمیان ہوتی ہے تاہم اس قانون پر شاذ و نادر ہی عمل ہوتا ہے۔
یونیسف نے کم عمری کی شادیوں میں کمی کو رپورٹ کیا تھا تاہم شواہد سے پتا چلتا ہے کہ شدید قدرتی واقعات لڑکیوں کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ 31 برس کے دلدار علی شیخ نے سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہونے کے بعد امدادی کیمپ میں رہتے ہوئے اپنی بڑی بیٹی مہتاب کی شادی کرنے کا منصوبہ بنایا۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور نے بتایا کہ ’جب میں وہاں تھا، تو میں نے سوچا کہ ہمیں اپنی بیٹی کی شادی کر دینی چاہیے تاکہ کم از کم وہ کھا سکے اور بنیادی سہولیات حاصل کر سکے۔‘
مہتاب کی عمر صرف دس سال تھی۔
ان کی والدہ سنبل علی شیخ نے کہا کہ ’جس رات میں نے اس کی شادی کرنے کا فیصلہ کیا تو مجھے نیند نہیں آئی۔‘
غیر سرکاری تنظیم سُجاگ سنسار کی مداخلت کی وجہ سے شادی ملتوی کر دی گئی۔ مہتاب کو سلائی کے ایک سینٹر داخل کرا دیا گیا جہاں سے وہ تھوڑی سی آمدنی حاصل کر سکتی ہیں اور اپنی تعلیم جاری رکھ سکتی ہیں۔
’میں نے اپنے والد سے کہا ہے کہ میں پڑھنا چاہتی ہوں۔ میں اپنے ارد گرد شادی شدہ لڑکیوں کو دیکھتی ہوں جن کی زندگی بہت مشکل ہے اور میں یہ اپنے لیے نہیں چاہتی۔‘