سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کی تفصیلات حاصل کرلیں
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی نے آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ 1992 سے لے کر اب تک ہونے والے معاہدوں کی کاپیاں اور تفصیلات حاصل کرلیں۔
ڈان نیوز کے مطابق سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت قائمہ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں آئی پی پیز کے معاہدوں کی کاپیاں طلب کرنے کے ساتھ ان تمام آئی پی پیز سے فی یونٹ بجلی کی پیداواری قیمت کی بریفنگ کو بھی ایجنڈے میں شامل کیا گیا۔
کمیٹی نے بجلی کی پیداواری قیمت کا علاقائی ممالک سے موازنے کا ایجنڈا بناتے ہوئے گزشتہ 20 سالوں میں آئی پی پیز کو کی جانے والی کیپیسٹی پیمنٹس کی تفصیل ایجنڈا میں شامل کی۔
اجلاس کے دوران وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے نجی کمپنی کی جانب سے معاملہ کمیٹی میں لانے پر ناراضی کا اظہار کیا۔
وفاقی وزیر نے اجلاس کو بتایا کہ ٹیرف طے کرنا نیپرا کا کام ہے، ہم پارلیمنٹ کو اور کمیٹی کو جوابدہ ہیں، ہم اس طرح نجی کمپنیوں کو ٹیرف سے متعلق جواب نہیں دے سکتے، ٹیرف کے معاملے پر باضابطہ ریگولیٹر سماعت کرتا ہے۔
چیئرمین نیپرا نے اجلاس کے دوران اراکین کو بتایا کہ پاکستان میں مزید بجلی شامل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، پاکستان میں بجلی کی طلب گر رہی ہے، 2018 سے 2024 تک بجلی کی طلب 3 فیصد کم ہوئی ہے۔
اویس لغاری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آنے والا ہر سرمایہ کار بہت اہم ہے، ہم ایسے بجلی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں جو سستے ہوں۔
سینیٹر شبلی فراز نے سوال کیا کہ دو سال کے دوران بجلی کی قیمت کتنی بڑھی؟ کیا نیپرا بجلی کی قیمتوں کے تعین میں آزاد ہے۔
اویس لغاری نے اجلاس کو بتایا کہ نیپرا بجلی کی قیمتوں کے تعین میں آزاد ہے۔
چیئرمین نیپرا نے کہا کہ حکومت صرف نیپرا کی مقرر کردہ قیمت میں اپنی سبسڈی دیتی ہے۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ہمیں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کی کاپیاں مل گئی ہیں، ہم ان کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی محمد علی کی آئی پی پیز کے حوالے سے جامع رپورٹ میں آئی پی پیز کی طرف سے اوور انوائسنگ اور ہیٹ ریٹ نہ ہونے کا بھی ذکر ہے۔
اجلاس کے دوران سینیٹر شبلی فراز نے استفسار کیا کہ ہم نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کن کن حکومتوں میں ہوئے، اس وقت سیکریٹری بجلی اور وزیر بجلی کون تھے؟ اس وقت لا فرمز کون سی تھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ معلوم تو ہو کہ آئی پی پیز کے پاس ملک کو گروی کس نے رکھا، حقائق بتاتے ہیں کہ آئی پی پیز کے ذریعے پن بجلی کو نظر انداز کیا گیا۔
اس پر وفاقی وزیر اویس لغاری نے اجلاس کو بتایا کہ ان کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس بنی ہو ئی ہے، ٹاسک فورس آئی پی پیز کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے۔
اویس لغاری کا کہنا تھا کہ محمد علی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاور سیکٹر کا سرسری جائزہ لیا گیا ہے، اس رپورٹ میں تو ہیٹ آڈٹ سمیت آئی پی پیز کی تفصیلی اسٹڈی کا کہا گیا ہے، مزید کہا کہ ہیٹ آڈٹ کرانے کے بجائے آئی پی پیز معاملے کو ثالثی کی نظر کیا گیا۔
سینیٹر شبلی فراز نے اجلاس کو بتایا کہ آئی پی پیز نے 415 ارب روپے تک منافع کمایا ہے۔
اس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ محمد علی کی رپورٹ میں آئی پی پیز کے 87 فیصد منافع تک کا بھی ذکر ہے۔
اویس لغاری نے کہا کہ یہ بہت بڑا پنڈورا باکس ہے، محمد علی کی رپورٹ میں تو آئی پی پیز عدالت میں ہیں۔
اس پر ایم ڈی سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے کہا کہ محمد علی کی رپورٹ میں آئی پی پیز کے منافع جات کو زیادہ کہا گیا، رپورٹ میں کمپنیوں کے منافع کا آڈٹ اور اضافی منافع ریکوری کا کہا گیا تھا۔
اویس لغاری نے کہا کہ ہم تو ایسی آئی پی پیز کو ختم کرنا چاہتے ہیں جن کی ضرورت نہیں، مگر ان کو یکطرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتے، مستقبل میں اچھی خبر دیں گے، اس حوالے سے کام جاری ہے۔
اجلاس میں سینٹرل پاور پرچیزنگ حکام نے بتایا کہ رواں مالی سال 1260 ارب روپے انرجی چارجز اور 2 ہزار ارب روپے کی کیپیسٹی پیمنٹ کا تخمینہ ہے۔