دنیا بھر میں 34 کروڑ 40 لاکھ بچے ’ہیٹ ویو‘ سے متاثر
دنیا بھر میں بچوں کی صحت، نشوونما اور حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کے مطابق جولائی 2023 اور جون 2024 کے درمیان ریکارڈ درجہ حرارت کی وجہ سے بچوں کی کل آبادی (76 کروڑ 60 لاکھ) کا ایک تہائی حصہ ہیٹ ویو سے متاثر ہوا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سیو دی چلڈرن نے کہا ہے کہ ’اس عرصے کے دوران 34 کروڑ 40 لاکھ بچوں نے 1980 کے بعد سے اب تک اپنے علاقوں میں سخت ترین گرمی کا سامنا کیا۔‘
رپورٹ کے مطابق ہیٹ ویوز کے باعث اسکولوں کی بندش اور پڑھائی میں کمی کی وجہ سے تعلیم بھی متاثر ہوئی ہے، اپریل اور مئی 2024 میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے 21 کروڑ بچے اسکول جانے سے محروم رہے۔
پنجاب میں مئی کے مہینے کے دوران کم از کم 2 کروڑ 60 لاکھ بچے یا ملک کے طلبا کا 52 فیصد جو پری پرائمری، پرائمری اور سرکاری تعلیم حاصل کررہے ہیں شدید گرمی کی وجہ سے کلاسیں لینے سے محروم رہے ہیں۔
سیو دی چلڈرن کے مطابق دنیا بھر کے بچے موسمیاتی بحران کی وجہ سے زیادہ شدید اور مسلسل ہیٹ ویوز کا سامنا کر رہے ہیں، جس سے ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کے ساتھ ساتھ تعلیم جیسے حقوق کو بھی شدید خطرہ لاحق ہو رہا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق سال 23-2022 سے لے کر سال 24-2023 تک شدید گرمی سے متاثر ہونے والے بچوں کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے۔
نئے اعداد وشمار سے پتا چلتا ہے کہ صرف جولائی 2024 میں 17 کروڑ بچوں نے ہیٹ ویو کا سامنا کیا، اسی مہینے میں دنیا بھر میں ریکارڈ گرمی دیکھی گئی جس میں اب تک کا ریکارڈ کیا گیا گرم ترین دن بھی شامل ہے۔
سیو دی چلڈرن کے مطابق بچوں کے جسم میں بڑوں کے مقابلے میں درجہ حرارت کے مطابق خود کو ڈھالنے اور اس کو برداشت کرنےکی صلاحیت کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ گرمی سے متعلق بیماریوں جیسے کہ گرمی کے باعث توانائی میں کمی اور ہیٹ اسٹروک کے خطرات کا زیادہ شکار بنتے ہیں۔
بچوں میں نظام تنفس اور مدافعتی نظام کی نشونما ہورہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ ہوا کے خراب معیار کے صحت پر منفی اثرات کا شکار ہو جاتے ہیں جب کہ یہ صورتحال اکثر ہیٹ ویوز کے دوران ہوتی ہے۔
سیو دی چلڈرن نے مزید بتایا کہ شدید گرمی بچوں میں سانس کی بیماریایوں جیسے دمے کا پھیلاؤ سمیت بچوں کی ذہنی صحت اور ان مجموعی نشونما کو متاثر کرنے کے علاوہ ان کے ہسپتال میں داخل ہونے میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہیٹ ویوز عدم توازن اور غذائی عدم تحفظ کی موجودہ صورتحال کو مزید سنگین بنا رہی ہیں۔