میرپورخاص: ’پولیس مقابلے‘ میں توہین مذہب کا ملزم ہلاک
عمرکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کو میرپورخاص میں ایک مبینہ ماورائے عدالت قتل میں پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا، واقعے سے ایک روز قبل ہی ان پر توہین مذہب کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بدھ کو ڈاکٹر شاہ نواز کے خلاف عمرکوٹ پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 سی کے تحت مبینہ طور پر مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے بعد فیس بک پر ’گستاخانہ مواد‘ پوسٹ کرنے پر مقدمہ درج کیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق ملزم کراچی فرار ہو گیا تھا لیکن عمرکوٹ پولیس نے اسے گرفتار کر کے میرپورخاص منتقل کردیا جہاں مبینہ طور پر اسے سندھڑی پولیس نے ایک ’انکاؤنٹر‘ میں ہلاک کر دیا، تاہم پولیس نے اس شخص کو کراچی سے گرفتار کرنے سے انکار کیا ہے۔
سندھڑی کے ایس ایچ او نیاز کھوسو نے ملزم کے قتل کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر نے ’ساتھیوں‘ کے ساتھ مل کر پولیس پر فائرنگ کی، انہوں نے دعویٰ کیا کہ جوابی کارروائی میں ملزم کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جبکہ اس کا مبینہ ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
میرپورخاص کی سی آئی اے پولیس نے بھی واقعات کا یہی ورژن شیئر کیا، پولیس نے دعویٰ کیا کہ واقعہ سندھڑی میں کانٹا اسٹاپ کے قریب اسنیپ چیکنگ کے دوران پیش آیا۔
ایک روز قبل ڈاکٹر شاہ نواز نے اپنے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا اکاؤنٹ ہیک ہو گیا ہے اور وہ گستاخانہ مواد شیئر کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، عمرکوٹ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ایم ایس کے مطابق ڈاکٹر شاہ نواز ایک مخلص ڈاکٹر تھے، جو 12 ستمبر کو ’لاپتا‘ ہوگئے تھے، اس کی وجہ ’نفسیاتی مسئلہ‘ ہوسکتا ہے۔
واضح رہے کہ توہین مذہب کے مبینہ واقعے کے خلاف عمرکوٹ میں احتجاج کے بعد حالات کشیدہ ہوگئے تھے، مشتعل مظاہرین کا ایک بڑا ہجوم بدھ کو پریس کلب کے سامنے جمع ہوا اور ڈاکٹر کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا، انہوں نے پولیس موبائل کو بھی آگ لگا دی تھی۔
لاش کو جلا دیا
’انکاؤنٹر‘ کے بعد لاش کو اہل خانہ کے حوالے کر دیا گیا، جو اسے تدفین کے لیے ملزم کے آبائی گاؤں جنہیرو لے گئے، تاہم، لاش چھیننے کے لیے ایک ہجوم جمع ہوگیا اور اہل خانہ کو فرار ہونا پڑا۔
خاندان بھاگ کر نبیسر تھر چلا گیا، جہاں ان کا تعاقب کیا گیا اور لوگوں نے انہیں مقتول ملزم کو دفن کرنے سے روک دیا، تاہم گاڑی میں چھپائی ہوئی لاش کے ساتھ جنہیرو واپس آنے پر ایک ہجوم لاش کو چھیننے اور اسے آگ لگانے میں کامیاب ہوگیا، مقتول نے پسماندگان میں تین بیٹے، ایک بیٹی اور بیوہ چھوڑی ہے۔
ان کے اہل خانہ اور مقامی لوگوں کے مطابق ڈاکٹر شاہ نواز دماغی عارضے میں مبتلا تھے اور چار سال سے زیر علاج تھے، ان کے بھتیجے ڈاکٹر شاہد جو کہ برطانیہ میں ماہر نفسیات ہیں، ان کا علاج کرتے تھے اور وقفے وقفے سے دوائیں بھی تجویز کرتے تھے۔
آئرلینڈ میں فیملی فزیشن کے طور پر کام کرنے والے ڈاکٹر ماتارو ہنگورجو نے ڈان کو بتایا کہ ڈاکٹر شاہ نواز ایک مذہبی شخصیت تھے۔
متعدد کوششوں کے باوجود ایس ایس پی میرپورخاص اور دیگر پولیس افسران سے تبصرے کے لیے رابطہ نہ ہوسکا۔