• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

اسرائیل-حزب اللہ تنازع: کیا ایران اس معاملے میں ملوث ہوگا یا دوری برتے گا؟

شائع September 25, 2024

مشرق وسطیٰ میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کے تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بنیامن نیتن یاہو کی حکومت شاید خطے میں ایک بڑی جنگ کو بھڑکانے میں کامیاب ہوجائے گی۔

یہ تصور کرنا مشکل نہیں ہے کہ مخالفین کے مواصلاتی آلات میں اگر چین، ایران یا روس خفیہ طور پر چھیڑ چھاڑ کرتے تو اس پر مغربی دنیا کا ردعمل کیا ہوتا لیکن جب یہی کام اسرائیل کرتا ہے تو وہ صدمے کا اظہار کرنے کے بجائے حیرت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

لیکن اس کے باوجود کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی تکنیکی کامیابی نے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا، چند مبصرین نے اعتراف کیا کہ اس طرح کے اقدامات کو دہشت گردی قرار دیا جاسکتا ہے اور بین الاقوامی قوانین کے تحت (جن پر اسرائیل نے بھی اتفاق کیا تھا) یہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔

ٹیکنالوجیکل حملوں میں درجنوں افراد کے جانی نقصان کے بعد اسرائیل نے لبنان پر فضائی بمباری بھی کی جس میں اب تک سیکڑوں افراد شہید ہوچکے ہیں۔ بلاشبہ حزب اللہ خود پر اسرائیل کی کارروائیوں کا جواب دینا لازم محسوس کرے گا حالانکہ وہ اسرائیل سے کافی کمزور ہیں۔ بڑا سوال یہ ہے کہ ایران اس معاملے میں ملوث ہوگا یا یہ اس سے دوری برتے گا؟

امریکی محکمہ خارجہ نے دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی بدنام زمانہ ریاستوں کی ایک فہرست ترتیب دی ہے جس میں اس وقت کیوبا، شمالی کوریا، ایران اور شام شامل ہیں۔ ظاہر ہے اسرائیل کو کبھی بھی اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔

اس فہرست میں کبھی پاکستان کو بھی شامل نہیں کیا گیا جوکہ 1970ء اور 1980ء کی دہائی میں افغان مجاہدین کی محفوظ پناہ گاہ تصور کیا جاتا تھا جبکہ انہیں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور سعودی عرب کی پشت پناہی بھی حاصل تھی لیکن یہ کبھی بھی مسئلہ نہیں بنا۔ اور طالبان نے ابتدائی تربیت کہاں حاصل کی، اس سے بھی مغربی دنیا کو کبھی کوئی غرض نہیں رہا۔

واشنگٹن بہت شاذو ناذر ہی اسرائیل کی کارروائیوں پر بات کرتا ہے حالانکہ اس کے دو سابق وزرائے اعظم میناہم بگین اور یتزاک شامیر دہشت گردانہ اقدامات میں ملوث تھے۔ اس کے علاوہ تمام اسرائیلی رہنماؤں نے اپنی ایجنسیز کو ایسی ’اندرونی‘ اور عالمی کارروائیوں کی اجازت دی جو دہشت گردی کے زمرے میں شمار کی جاسکتی ہیں۔

فلسطین کی حدود میں معمول کے مطابق کی جانے والی براہ راست یا بالواسطہ دہشت گردانہ کارروائیوں کے علاوہ اسرائیل کی فوج (آئی ڈی ایف) اپنے ہمسایہ ممالک میں بھی دہشت پھیلانے اور شرپسند عناصر کی سرپرستی کرنے میں ملوث رہی ہے۔

اس کی سب سے اہم اور واضح مثال 1982ء میں صابرہ اور شتیلا میں کیا گیا قتل عام ہے جسے آئی ڈی ایف کے جنرل ایریل شیرون کی سرپرستی میں لبنانی انتہاپسندوں نے انجام دیا۔ جنرل ایریل شیرون کی سرکاری سطح پر سرزش بھی کی گئی لیکن بعدازاں اسرائیل کا وزیراعظم بننے کی راہ میں یہ خونریزی ان کے لیے رکاوٹ نہیں بنی۔

اُس وقت امریکا کے انتہائی دائیں بازو کے صدر رونالڈ ریگن نے اسرائیلی وزیراعظم میناہم بگین کو بیروت کے ’ہولوکاسٹ‘ کو روکنے کا حکم دیا تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم نالاں ہوئے لیکن انہوں نے امریکی صدر کی بات مانی یا شاید یہ اس لیے بھی تھا کیونکہ خود اسرائیل میں بہت سے لوگ اپنی قوم کی جانب سے لبنان میں کی جانے والی وحشیانہ کارروائیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔

حالیہ دور میں اسرائیل کے مظاہرین کی توجہ یرغمالیوں کی واپسی پر مرکوز ہے جن کی 7 اکتوبر کو اسرائیل کی مسلح فوج حفاظت کرنے میں ناکام رہی تھی جبکہ مظاہرین کا ان مطالبات کے لیے باہر نکلنا معقول بھی ہے۔ تاہم ان میں سے بہت سے مظاہرین غزہ میں بڑھتی اسرائیلی کارروائیوں کے حمایتی بھی ہیں اور شاید وہ یہ بھی چاہتے ہیں اسرائیل مغربی کنارے پر بھی اپنے مظالم جاری رکھے اور حتیٰ کہ اس کا دائرہ جنوبی لبنان تک پھیلائے۔

اس حقیقت سے کوئی انکاری نہیں کہ گزشتہ نصف صدی یا اس سے زائد عرصے سے ’جنگ کے پیاسے اسرائیل‘ کو امریکا کی سرپرستی حاصل ہے۔ قتل سے ایک سال قبل مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے اپنی ریاست کو ’آج کی دنیا میں تشدد کا سب سے بڑا پیروکار‘ قرار دیا تھا۔ ان کے اس بیان کا اطلاق آج کے امریکا پر بھی ہوتا ہے۔

امریکا نہ صرف دنیا بھر میں خونریزی کا ذمہ دار ہے بلکہ اس نے اپنے مقامی گروہوں یا کرائے کے فوجیوں کی پُرتشدد کارروائیوں کی بھی حمایت کی۔ ایسا ملک جو خود کو عالمی تنازعات میں ثالثی کے طور پر پیش کرتا ہے، وہ درحقیقت 20ویں اور 21ویں صدی میں دہشت گردی کو فروغ اور پُرتشدد عناصر کی سرپرستی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ فلپائن سے اٹلی، ایران، گوئٹے مالا، کونگو، کیوبا، انڈونیشیا، تیمور، ویتنام، چلی، کمبوڈیا، افغانستان اور عراق میں امریکی مداخلت کی بھی جدید تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

عالمی حکمرانی میں امریکا کی منافقت اور حرص اہم عناصر ہیں جس میں برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا بھی اس کے اتحادی بنے جبکہ اہم یورپی ممالک اور گلوبل ساؤتھ کی ریاستیں بھی اپنی مفادات کی خاطر امریکا کا ساتھ دیتی ہیں۔

امریکا کی سب سے پسندیدہ لے پالک اولاد اسرائیل کو کبھی کبھی ہلکا سا ڈانٹ دیا جاتا ہے اور نام نہاد تنبیہات بھی کردی جاتی ہیں لیکن امریکا زیادہ تر اسرائیل کو جدید مہلک ہتھیار فراہم کرتا ہے اور اسے کھلی چھوٹ دے دیتا ہے کہ وہ انہیں جہاں چاہے استعمال کرے جبکہ اسرائیل ان ہتھیاروں کا استعمال غیرمعمولی طور پر کچھ زیادہ ہی کرتا ہے جس پر اسے امریکا کی معافی بھی مل جاتی ہے۔

اپنے تقریباً تمام پیش روؤں کے برعکس بنیامن نیتن یاہو فوجی پس منظر نہیں رکھتے۔ ان کی دہشت گردانہ صلاحیتیں ان کی توسیع شدہ مدتِ حکومت میں بڑے پیمانے پر سامنے آئی ہیں۔

ان کی پہلی ترجیح یہی ہے کہ وہ اس وقت اقتدار پر براجمان رہیں اور اس کی اہم وجہ کرپشن چارجز جیسے چیلنجز کو پس پشت رکھنا ہے حالانکہ بطور سیاستدان وہ جس سیاسی پستی کا شکار ہیں، یہ کرپشن چارجز اس کے ساتھ انصاف نہیں کرتے بلکہ یہ تو بہت چھوٹے الزامات ہیں۔

یہ دیکھنا باقی ہے کہ ایران یا حزب اللہ دانش مندی سے اسرائیل کی اشتعال انگیزیوں کو نظرانداز کرتے ہیں یا پھر یہ ایک ایسی صورت حال پیدا کردیں گے کہ جس میں دونوں جنگی فریقین کو باہمی نقصانات اور تباہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن اسرائیل کی غزہ میں نسل کش جارحیت اور مغربی کنارے میں زمین ہتھیانے کی کارروائیاں جاری رکھنے سے حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے۔

امریکا تب تک خود کو بری الذمہ نہیں کرسکتا جب تک وہ مشرق وسطیٰ میں اپنی سب سے بڑی پراکسی کو لگام ڈالنے کی جرأت نہیں کرتا اور اسے ہتھیاروں کی فراہمی بند نہیں کرتا جنہیں اسرائیل مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ماہر علی

لکھاری سے ای میل کے ذریعے رابطہ کریں: [email protected]

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 24 نومبر 2024
کارٹون : 23 نومبر 2024