• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

’ڈاک اور محکمہ ڈاک اب محض ایک یادگار بن کر رہ گئے ہیں‘

ڈاکیا دروازے پر دستک دے کر اگر ’تار آیا ہے‘ کی آواز لگا دے تو گھر والے پہلے ہی رونا شروع کردیتے تھے کہ جانے کس کی موت کی خبر آگئی۔
شائع October 9, 2024

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 9 اکتوبر کو ڈاک کا عالمی دن منایا جاتا جس کا مقصد ڈاک کے نظام کو بہتر بنانا، محکمہ ڈاک کی اہمیت اور اس کی کارکردگی کو اُجاگر کرنا ہے۔

دنیا کے 160 سے زائد ممالک آج یہ عالمی دن منا رہے ہیں اور ہر وہ ملک جو اقوام متحدہ کی خصوصی تنظیم یونیورسل پوسٹل یونین (UPU) کے ممبران میں شامل ہے اس موقع پر خصوصی ڈاک ٹکٹ کا اجرا بھی کرتا ہے۔

عالمی دن کی مناسبت سے اس تحریر کے ذریعے قارئین کی توجہ ان خدمات اور چیزوں کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں جنہیں میں نے استعمال کیا ہے اور جو میری یادداشت میں محفوظ ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر موجودہ نسل کے نوجوان ان تمام اشیا و خدمات سے لابلد ہیں۔

پوسٹ کارڈ

قدرے ہلکے گتے سے بنا ہوا یہ کارڈ پیغام رسانی کا سب سے سستا ذریعہ تھا۔ ہم نے جب پوسٹ کارڈ اپنے عزیزوں کو ارسال کیے تب اس کارڈ پر ڈاک ٹکٹ کی مالیت کو چھپے ہوئے ٹکٹ کی صورت میں ظاہر کیا جاتا تھا۔ اس کی ایک جانب آدھے حصے پر کارڈ کے وصول کنندہ کا پتہ درج کیا جاتا تھا جبکہ آدھے حصے پر اور کارڈ کی پشت پر مکمل طور پر اپنا پیغام لکھا جاتا تھا اور آخر میں اپنا نام اور پتہ درج کیا جاتا تھا۔ یہ کارڈ ملفوف نہیں ہوتا تھا اور اس کھلے پیغام کو کوئی بھی شخص پڑھ سکتا تھا۔

  پوسٹ کارڈ پیغام رسانی کا سستا ذریعہ تھا
پوسٹ کارڈ پیغام رسانی کا سستا ذریعہ تھا

ایروگرام

پوسٹ کارڈ کے بعد پیغام رسانی کا دوسرا سستا ذریعہ ایروگرام تھا۔ ایروگرام پوسٹ کارڈ کی طرح کھلا نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ کھلا ہوا لفافہ ہوتا تھا جس کے ایک حصے پر ڈاک ٹکٹ چھپا ہوا ہوتا تھا اور اس کے نیچے مطلوبہ شخص کا نام اور پتہ لکھنے کے لیے جگہ دستیاب ہوتی تھی۔ اس پر اپنا پیغام لکھ کر اسے اس کاغذ پر موجود لائنوں کے حساب سے موڑا جاتا تو یہ لفافے کی شکل میں تبدیل ہوجاتا تھا اور اس کی پشت پر خط بھیجنے والے کا پتہ درج کیا جاتا تھا۔

  ایروگرام
ایروگرام

ڈاک کا لفافہ

یہ ایک باقاعدہ تیار شدہ لفافہ تھا جس کے سامنے کے حصے پر لفافے یا اس پر چسپاں کیے جانے والے ٹکٹ کی مالیت لکھی ہوتی اور اس کے نیچے وہ ایڈریس درج کیا جاتا جہاں یہ خط بھیجنا مقصود ہوتا تھا۔ سادہ کاغذ یا پھر بازار میں دستیاب لیٹر پیڈ پر اپنا پیغام اور دیگر تفصیل لکھ کر لفافے میں بند کرکے اسے گوند سے چپکا کر بند کردیا جاتا تھا۔

پوسٹ کارڈ، ایروگرام یا پھر ڈاک لفافہ مقصود پتے پر بھیجا کیسے جاتا تھا؟ اس کے لیے تمام عوامی مقامات پر سرخ رنگ کے لیٹر باکس نصب ہوتے تھے۔ خط لکھنے والا اپنا خط اس لیٹر باکس میں ڈال دیتا۔ ہر روز محکمہ ڈاک کا ایک اہلکار اس باکس میں موجود تمام خط نکال کر متعلقہ ڈاک خانے تک پہنچا دیا کرتا تھا جہاں سے یہ خط مطلوبہ پتے پر ارسال کردیے جاتے تھے۔

  ڈاک لفافہ
ڈاک لفافہ

رجسٹرڈ خط یا رجسٹری

یہ لفافے کے ذریعے بھیجا جانے والا عام خط ہوتا تھا لیکن اس خط کی بروقت اور یقینی ترسیل کے لیے کچھ اضافی رقم ادا کرکے خط کو بہ ذریعہ رجسٹرڈ میل ارسال کیا جاتا تھا۔ یہ خط عام لیٹر باکس میں نہیں ڈالا جاتا تھا بلکہ ڈاک خانے جا کر وہاں موجود اہلکار کو خط دیا جاتا تھا۔ اس کے لیے یا تو اضافی رقم دی جاتی یا مطلوبہ رقم کا ٹکٹ چسپاں کیا جاتا تھا۔ وہ اہلکار اس خط پر ڈاک خانے کی مہر اور رجسٹری کی مہر ثبت کرکے اپنے پاس رکھ لیتا جہاں سے اس خط کو ارسال کیا جاتا تھا۔

بعض افراد اس خط کی وصولی کی رسید بھی چاہتے تھے۔ ان کی سہولت کے لیے ایک روپے مالیت کی سلپ ملا کرتی تھی۔ اس پر مطلوبہ پتا لکھ کر لفافے کے ساتھ لف کیا جاتا۔ خط وصول کرنے والا اس ’اکنالجمنٹ سلپ‘ پر وصولی کے دستخط ثبت کرتا اور پھر وہ سلپ خط بھیجنے والے کو بطور رسید اس کے پتے پر بھیج دی جاتی تھی۔

   اکنالجمنٹ سلپ پر وصول کنندہ کے دستخط کرکے اسے واپس بھیجا تھا
اکنالجمنٹ سلپ پر وصول کنندہ کے دستخط کرکے اسے واپس بھیجا تھا

یو ایم ایس (ارجنٹ میل سروس)

اگر خط کی فوری یا کم سے کم مدت میں وصولی مقصود ہوتی تو اس کے لیے محکمہ ڈاک میں یو ایم ایس یعنی ارجنٹ میل سروس کی سہولت موجود تھی۔ یہ بالکل اسی طرح خطوط ارسال کرتی جس طرح کہ آج کل کی کوریئر سروس خدمات فراہم کرتی ہیں۔ اس سروس کے تحت بھیجے گئے پارسل یا خطوط عام خط کی نسبت جلد پہنچ جایا کرتے تھے جس کی مدت شہروں یا ممالک کے درمیان فاصلوں اور ذرائع آمدورفت کی سہولت کے لحاظ سے 24 گھنٹے سے بہتر گھنٹوں تک ہوتی تھی۔

ٹیلی گرام یا تار

اگر کوئی ایمرجنسی پیغام جیسے کہ کسی کی بیماری یا موت کی خبر بھیجنی ہوتی تو اس کے لیے ٹیلی گرام سروس کی سہولت موجود تھی۔ اسے عرفِ عام میں تار کہا جاتا تھا۔ ٹیلی گرام کرنے کے لیے ڈاک خانے جاکر بتایا جاتا تھا کہ فلاں جگہ ٹیلی گرام کرنا ہے۔ ٹیلی گرام بھیجنے کے لیے فی لفظ قیمت ادا کرنا ہوتی تھی، اس لیے یہ مختصر ترین پیغام ہوتا تھا۔ ڈاکیا دروازے پر دستک دے کر اگر ’تار آیا ہے‘ کی آواز لگا دے تو گھر والے پہلے ہی رونا شروع کردیتے تھے کہ جانے کس کی موت کی خبر آگئی۔

  تار مختصر پیغام ہوتا تھا
تار مختصر پیغام ہوتا تھا

لیٹر باکس

خط بھیجنے کے لیے عموماً لیٹرباکس کا استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ لیٹر باکس عوامی مقامات پر نصب ہوتے تھے۔ سرخ رنگ کے اس بڑے ڈرم نما باکس میں خط ڈالا جاتا۔ یہ باکس مقفل ہوتا تھا جبکہ ڈاک خانے کا اہلکار روزانہ کی بنیاد پر اس لیٹر باکس میں ڈالے گئے خطوط ایک تھیلے میں بھر کر ڈاک خانے لے جایا کرتا تھا۔

   لیٹر باکس میں خطوط ڈالے جاتے ہیں جہاں سے ان کی ترسیل ہوتی ہے
لیٹر باکس میں خطوط ڈالے جاتے ہیں جہاں سے ان کی ترسیل ہوتی ہے

ڈاک خانہ

ڈاک خانہ وہ دفتر ہوتا ہے جہاں عوام کو ڈاک کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ ڈاک خانے کا سربراہ پوسٹ ماسٹر کہلاتا ہے اور اس کے ماتحت دیگر عملہ بھی اس کے ساتھ ہوتا ہے جس میں سارٹر اور ڈاکیے بھی شامل ہیں۔ ڈاک خانے میں موجود تمام خطوط اور پارسلز کو پہلے بھیجے جانے والے مقام کے مطابق ترتیب دیا جاتا ہے، اس عمل کو سارٹنگ کہتے ہیں۔ سارٹنگ کے بعد مطلوبہ مقام تک خط یا پارسل بھیجنے کے لیے روانہ کردیا جاتا ہے۔ بیرون ملک خطوط بھیجنے کے لیے ہوائی جہاز جبکہ اندرون ملک ٹرین سروس کو استعمال کیا جاتا ہے۔

  پاکستان پوسٹ کا دفتر—تصویر: گوگل
پاکستان پوسٹ کا دفتر—تصویر: گوگل

ریلوے میل سروس

اندرون ملک ڈاک بھیجنے کے لیے پہلے پاکستان میں دو ٹرینیں مختص تھیں جن میں سے ایک کی سروس تاحال موجود ہے۔ اس مقصد کے لیے ٹرین میں ایک بوگی ڈاک کے لیے مختص ہے جس میں ڈاک خانے کی طرز پر خطوط اور پارسلز کو شہروں کے لحاظ سے چھانٹ کر علیحدہ خانوں میں رکھا جاتا ہے اور متعلقہ اسٹیشنز پر موجود ڈاک کے عملے کے سپرد کیا جاتا ہے جہاں سے وہ متعلقہ ڈاک خانوں سے ہوتے ہوئے متعلقہ افراد تک پہنچائے جاتے تھے۔

  پاکستان پوسٹ کی ریلوے میل سروس—تصویر: فیس بُک
پاکستان پوسٹ کی ریلوے میل سروس—تصویر: فیس بُک

جن ٹرینوں میں ڈاک کا ڈبہ موجود ہوتا ہے، ان ٹرینوں کے نام کے ساتھ میل کا لاحقہ لگا دیا گیا۔ ان دو ٹرینوں کے نام بولان میل اور خیبر میل ہیں۔ بولان میل سندھ سے کوئٹہ تک سفر کرتی ہوئے تمام شہروں تک ڈاک پہنچاتی تھی لیکن اب وہ بند ہوچکی ہے۔ خیبر میل سندھ اور پنجاب سے ہوتی ہوئی پشاور تک پہنچتی ہے اور یہ اب بھی فعال ہے۔

پارسل

اگر کسی کو کوئی سامان بہ ذریعہ ڈاک بھیجنا ہوتا تو اس کے لیے پوسٹ آفس جانا پڑتا تھا۔ جہاں موجود کلرک سامان کا وزن کرکے طے شدہ رقم وصول کرتا اور ضابطے کے تحت اسے بھیجے جانے والے سامان میں ترتیب سے رکھ دیتا۔ یوں یہ سامان ایک سے تین دن کے دوران متعلقہ شخص تک پہنچ جایا کرتا تھا۔ قیمتی یا بھاری چیز وصول کرنے کے لیے وصول کنندہ کو بذات خود ڈاک خانے جانا ہوتا تھا۔

  پاکستان میں پارسل ایک سے تین دنوں میں مطلوبہ شخص تک پہنچ جاتا تھا
پاکستان میں پارسل ایک سے تین دنوں میں مطلوبہ شخص تک پہنچ جاتا تھا

منی آرڈر

کسی مخصوص فرد کو رقم ارسال کرنی ہوتی تو اس کے لیے منی آرڈر کی سہولت موجود تھی۔ کرنا یہ ہوتا تھا کہ ڈاک خانے جاکر متعلقہ کلرک کو رقم ادا کر کے ایڈریس لکھوا دیا جاتا۔ کلرک رقم وصولی کی رسید جاری کرکے رقم ارسال کرنے کا انتظام کرتا۔ اس طرح وہ رقم متعلقہ فرد تک پہنچ جایا کرتی تھی۔ رقم کی وصولی کے لیے وصول کنندہ کو بذاتِ خود ڈاک خانے جانا ہوتا تھا۔

  منی آرڈر لینے کے لیے وصول کنندہ کو خود ڈاک خانے جانا ہوتا تھا
منی آرڈر لینے کے لیے وصول کنندہ کو خود ڈاک خانے جانا ہوتا تھا

موجودہ دور میں موبائل فون کی آمد کے بعد پیغام رسانی کے لیے بھیجے جانے والے خطوط کی موت واقع ہوچکی ہے۔ سیکنڈز میں پیغام رسانی کے برقی ذرائع نے ڈاک کی تمام سہولیات کو بے کار کردیا ہے۔ رقوم کی فوری منتقلی کے لیے اب بینکوں کی موبائل ایپ کا استعال کیا جا رہا ہے۔ خطوط اور پارسل کی ترسیل کے شعبے پر بھی اب نجی کوریئر کمپنیز کا قبضہ ہے، ایسے میں ڈاک کی خدمات اور محکمہ ڈاک ایک یادگار بنتا جارہا ہے۔

زاہد حسین

لکھاری شاعر اور صحافی ہیں، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا دونوں میں یکساں طور پر کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ریسرچ، اسکرپٹ رائٹنگ، اسکرپٹ ایڈیٹنگ، پروگرام پروڈکشن اور نیوز مینجمنٹ اورنیوز روم مینجمنٹ سمیت تمام شعبوں میں کام کر چکے ہیں۔ آج کل ایک میڈیا ہاؤس سے منسلک ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔