• KHI: Zuhr 12:22pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:53am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:58am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:22pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:53am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:58am Asr 3:22pm

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک سال میں وہ کچھ کرگئے جو دیگر ججز نہ کرسکے

آج جب قاضی فائز عیسیٰ سبکدوش ہو رہے ہیں تو پرانے دوست مخالف بن چکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے دور میں ایسے مقدمات نمٹائے جن کی سماعت کرنے کو کوئی تیار نہ تھا۔
شائع October 25, 2024

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نظامِ عدل کے سب سے بڑے ادارے کے سربراہ کا عہدہ 17 ستمبر 2023ء کو اس وقت سنبھالا جب سپریم کورٹ ہم خیال اور اختلاف رکھنے والے ججز کے دو مختلف دھڑوں میں تقسیم تھا۔ حالات کچھ ایسے تھے کہ عام لوگوں کو بھی سابق چیف جسٹس کے قریبی ساتھی ججز اور اختلاف رائے رکھنے والے ججز کے نام یاد ہوچکے تھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تعیناتی کے وقت اُمید کی جا رہی تھی کہ ان کے آنے کے بعد صورت حال بدل جائے گی اور یہ کوشش بھی کی گئی لیکن کچھ وقت میں ہی صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی۔ پرانے دوست مخالف بن گئے۔ آج جب قاضی فائز عیسیٰ سبکدوش ہو رہے ہیں تو ایک بار پھر سپریم کورٹ میں ایسا گروپ موجود ہے جو جسٹس قاضی کا مخالف گروپ سمجھا جاتا ہے۔

ایک سال، ایک ماہ اور آٹھ دن تک منصفِ اعلیٰ کی ذمہ داریاں انجام دینے والے قاضی فائز عیسیٰ تحریک پاکستان کے متحرک کارکن اور بانی پاکستان کے قریبی دوست قاضی محمد عیسیٰ کے فرزند ہیں۔ قاضی محمد عیسیٰ کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ بلوچستان چیپٹر کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ وہ جناح صاحب کے وفادار ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس ہائیکورٹ نامزدگی، تقرری، سپریم کورٹ میں ترقی، ان کے فیصلے، اختلافی نوٹس، ان کی کمیشن رپورٹس، خطوط، آبزرویشنز، ان کے خلاف شکایات، ریفرنسز، خبریں، رپورٹس، ساتھی ججز اور سابق چیف جسٹسز کا ان کے ساتھ رویہ، یہ سب اپنے آپ میں اتنی لمبی داستان ہیں کہ جنہیں ایک مضمون میں سمویا نہیں جا سکتا۔ لیکن اس کے باوجود ہم کوشش کریں گے کہ عدالت عالیہ سے عدالت عظمیٰ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی شخصیت سے وابستہ اہم واقعات، ان کے اہم فیصلے اور ان کی جانب سے اٹھائے جانے والے اہم اور بےباک اقدامات کا جائزہ لیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ابتدائی تعلیم کراچی اور وکالت کی ڈگری لندن سے حاصل کی اور وکالت کا آغاز بلوچستان سے کیا۔ 1985ء میں وہ جنرل ضیاالحق کی آمریت کے دور میں بلوچستان ہائیکورٹ میں وکیل کے طور پر انرول ہوئے، 1998ء میں وہ سپریم کورٹ کے وکیل بن گئے۔

وکیل سے ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بننے کا سفر بھی دلچسپ رہا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی انٹری ایک بحران کی صورت حال میں ہوئی اور اس تقرری کا فیصلہ ان کی ریٹائرمنٹ تک ان کا پیچھا کرتا رہا۔ وہ ایک اچھے اور غیر سیاسی وکیل کے طور پر کام کررہے تھے لیکن اچانک ان کا تقرر بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ ہوگیا۔ اس تقرری کی بھی ایک داستان ہے جو ان کی بطور چیف جسٹس تقرری کے وقت ہم آپ کو تفصیل سے سنا چکے ہیں۔

قاضی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ

بلوچستان ہائیکورٹ میں بطور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جہاں انتظامی اقدامات لے کر تربت اور سبی میں ہائیکورٹس بینچز کو فعال کیا وہاں کئی آئینی درخواستوں پر اہم فیصلے دیے۔ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف اکبر بگٹی کے قتل کا مقدمہ انسداد دہشتگردی کوئٹہ میں زیرِ سماعت تھا۔ پرویز مشرف نے بلوچستان ہائیکورٹ میں مقدمے کی اسلام آباد عدالت منتقلی کی درخواست کی لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست مسترد کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو بھی زیرِ سماعت مقدمہ کسی اور صوبے میں منتقل کرنے کا اختیار نہیں۔

اس فیصلے میں انہوں نے لکھا کہ پرویز مشرف پر راولپنڈی میں بھی حملہ ہو چکا ہے اس لیے یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ یہاں بھی ملزم کو تحفظ فراہم کرے۔

  انہوں نے باحیثیت چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ اہم فیصلے لیے
انہوں نے باحیثیت چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ اہم فیصلے لیے

اسی طرح 2011ء میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مستونگ ضلع میں 26 بس مسافروں کے بہیمانہ قتل کے واقعے پر بطور چیف جسٹس ہائیکورٹ رجسٹرار کے ایک نوٹ پر ازخود نوٹس لے کر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو واقعے کی تحقیقات کے ساتھ رپورٹس پیش کرنے کی ہدایات دیں۔ اس آرڈر میں جسٹس قاضی فائز نے قرار دیا کہ ہائیکورٹس کے پاس ازخود نوٹس لینے کا اختیار موجود ہے لیکن پھر بعد میں سپریم کورٹ میں انہوں نے ازخود نوٹس پر اپنی پوزیشن تبدیل کرلی تھی۔

بلوچستان ہائیکورٹ نے ایک فیصلے میں کالعدم اور انتہاپسند تنظیموں کے بیانات شائع اور نشر کرنے پر پابندی لگائی وہ فیصلہ بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا تھا۔ بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس رہتے ہوئے انہیں مشہور میمو گیٹ اسکینڈل کے عدالتی کمیشن کا سربراہ بھی مقرر کیا گیا جس میں ان کا کردار اہم رہا۔

قاضی بطور جج سپریم کورٹ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 5 ستمبر 2014ء کو سپریم کورٹ میں جج مقرر ہوئے۔ جج مقرر ہونےسے لے کر چیف جسٹس بننے تک بطور جونیئر جج کافی عرصہ سائیڈ لائن رہے۔ اگر کسی بینچ کا حصہ بنے تو ان کے پاس روسٹرم پر کھڑے وکلا سے پوچھنے کے لیے سوالات کا انبار ہوتا۔ میں نے کئی سینئر ججز کو ان کے سوالات پر بےچین ہوتے ہوئے دیکھا۔ جسٹس ناصرالملک کو اچھے جج اور چیف جسٹس کے طور پر یاد کیا جاتا ہے لیکن فوجی عدالتوں کےخلاف درخواستوں پر آخری کرسیوں پر براجمان قاضی فائز عیسیٰ کے سوالات اور لمبی بحث سے ان کو بھی اُکتایا ہوا محسوس کیا۔

  وہ ایک سال، ایک ماہ 8 روز تک ملک کے چیف جسٹس رہے
وہ ایک سال، ایک ماہ 8 روز تک ملک کے چیف جسٹس رہے

بطور جج سپریم کورٹ جسٹس قاضی کا پہلا بڑا فیصلہ فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف تھا۔ فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں پر تمام 17 ججز نے اپنی اپنی رائے دی اور اکثریت رکھنے والے جج فوجی عدالتوں کے حامی تھے۔ لیکن جسٹس قاضی فائز نے اپنی رائے فوجی عدالتوں کے خلاف دی۔

یہ سوال بعد میں پیدا ہوا کہ فوجی عدالتوں کے خلاف فیصلہ دینے والے قاضی نے اپنے چیف جسٹس بننے کے ایسے ہی ایک مقدمہ کے خلاف نظرثانی درخواستوں کے لیے ایک اور بینچ بنانے کی ضرورت کیوں محسوس کی جب اکثریتی فیصلہ فوجی ٹرائل کے خلاف آچکا تھا۔ یہ مقدمہ اب بھی سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے جس میں یہ فیصلہ نہیں ہوسکا کہ 9 مئی کے ملزمان کے مقدمے فوجی عدالتوں میں چل کر حتمی نتائج تک پہنچیں گے یا نہیں۔ اس سے بڑا سوال اور بھی ہے کہ سویلینز کا فوجی ٹرائل کیسے ہو سکتا ہے؟

قاضی فائز عیسیٰ کا تحریرکردہ دوسرا اہم مقدمہ پاکستان میں تلور کے شکار کے اجازت نامے منسوخ کرنے کا تھا۔ انہوں نے بطور جج کوئٹہ سانحہ کمیشن کی سربراہی قبول کی۔ ان کا ایک اور اہم فیصلہ فیض آباد دھرنا کیس بھی ہے جو شہد کی مکھی کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس مقدمے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس وقت کے انتہائی طاقتور حلقوں کو ناراض کردیا تھا۔

جسٹس قاضی کے خلاف تحریک انصاف حکومت میں ریفرنس بنا۔ یہ ریفرنس اصل میں جسٹس قاضی کے متعدد فیصلوں سے ناراضی کا مظہر تھا یا پھر اسے مقتدر حلقوں کا رد عمل کہا جاتا ہے۔ بہرحال تحریک انصاف حکومت اس میں جانے انجانے میں خوب استعمال ہوئی آخرکار اس ریفرنس میں جسٹس قاضی باعزت بری ہوئے اور چیف جسٹس بننے میں آخری رکاوٹ بھی ختم ہوئی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وہ چیف جسٹس تھے جنہوں نے عدالتی سربراہ کے ازخود نوٹس کے اختیارات تین ججز کی کمیٹی کے حوالے کردیے۔ یہ ایک جمہوری اور پارلیمنٹ کے قانون کو عزت دینے والا رویہ تھا۔ جسٹس قاضی نے چیف جسٹس بننے کے بعد پریکٹس اینڈ پروسجرل ایکٹ پر پارلیمنٹ کا اختیار تسلیم کرتے ہوئے چیف جسٹس کے لامحدود اختیارات کو محدود اور جمہوری کردیا۔

سپریم کورٹ میں بطور جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے لے کر اپنے دور کے چیف جسٹسز ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد کو خط ارسال کیے۔ کسی کو سینئیر ججز کو نظرانداز کرکے جونئیرز کو سپریم کورٹ میں مقرر کرنے کے خلاف خط لکھا تو کسی چیف جسٹس کو باقی عدالتی یا انتظامی معاملات پر خط لکھے۔ان خطوط کا ان کو جواب کوئی نہیں ملا البتہ میڈیا میں ان کا چرچا رہا۔

بطور چیف جسٹس اہم فیصلے

جسٹس قاضی کے چیف جسٹس بننے سے پہلے عدالتی اصلاحات کے حوالے سے کئی امیدیں وابستہ تھیں لیکن وہ ان پر اپنے پیشرو ججز کی طرح اتنی توجہ نہ دے سکے۔ ان کی کوشش رہی کی تمام ججز کو ساتھ ملا کر چلیں اس لیے انہوں نے عہدہ سنبھالتے ہی پہلا کام فُل کورٹ اجلاس بلانے کا کیا۔ یہ اجلاس چار برس سے نہیں ہو پایا تھا جس سے ججز کی ہم آہنگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

یہ وہ وقت تھا جب سپریم کورٹ پر ایک جماعت کے ہامی ہونے کے الزامات کے ساتھ یہ بھی تنقید کی جا رہی تھی کی عدالت نے آئین سازی کا کام اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ پارلیمنٹ کو مفلوج کردیا ہے۔ ایسے کئی الزامات کے زد میں آئی سپریم کورٹ کو یکجا کرنا اور پھر زیرِالتوا مقدمات سے نمٹنا ایک چیلنج تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں بڑا عہدہ سنبھالتے ہی سب سے پہلے اس مقدمے کی سماعت کی جو قانون عدالتی اختیار سماعت اور بینچز کی تشکیل کے حوالے سے تھا۔ یہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ تھا۔

اس مقدمے میں 8 ججز پر مشتمل بینچ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں اس پر اسٹے آرڈر جاری کردیا تھا جب یہ بل کی صورت میں تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارات اور پروسیجر ایکٹ کےقانون کو من و عن تسلیم کیا جس کے بعد بینچز کی تشکیل اور ازخود نوٹس کے اختیارات فرد واحد یعنی چیف جسٹس سے لے کر تین ججز کی کمیٹی کے حوالے کردیے گئے۔ اسی مقدمے کے کئی مقدمات کو ٹی وی چینلز پر براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ بھی قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ہوا۔ ان کا کہنا تھا عوام کو دیکھنا چاہیے کہ عدالت میں کیا کچھ ہوتا ہے۔

  پہلی بار عدالتی کارروائیاں ٹی وی پر نشر ہوئیں—تصویر: ایکس
پہلی بار عدالتی کارروائیاں ٹی وی پر نشر ہوئیں—تصویر: ایکس

بطور چیف جسٹس ان کے لاتعداد فیصلے ہیں لیکن دو بڑے اہم فیصلوں کا ذکر کرنا ضروری ہوگا۔ پرویز مشرف غداری کیس سب سے پہلا بڑا فیصلہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس میں پھانسی کی سزا دینا تھا۔ آئین کو نومبر 2007ء میں مسخ کرنے پر خصوصی عدالت نے 17 دسمبر 2019ء کو پرویز مشرف کو غداری کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا۔

جسٹس وقار سیٹھ مرحوم کی سربراہی میں تین ججز پر مشتمل خصوصی کورٹ کے دو ججز کی اکثریت سے یہ فیصلہ ہوا تھا۔ 13 جنوری 2020ء کو عمران خان کی حکومت میں لاہور ہائیکورٹ نے اس سزا کو کالعدم کرنے کے ساتھ خصوصی عدالت کو ہی بے بنیاد قرار دے دیا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف چار سالوں سے اپیلیں سپریم کورٹ میں زیرِالتوا رہیں لیکن سماعت کرنے کی جرات کسی چیف جسٹس کو نہیں ہوئی۔

10 جنوری 2024ء کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں لارجر بینچ نے اس اپیل کی سماعت کی اور پرویز مشرف پر غداری کے الزمات درست قرار دے کر ان کی پھانسی کی سزا کوبحال کیا۔ گو کہ پرویز مشرف اس فیصلے سے ایک برس پہلے دبئی کے ایک ہسپتال میں انتقال کرگئے تھے لیکن تاریخی اعتبار سے آئین توڑنے والے کسی آمر کو پھانسی کی سزا سنانا ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

Title of the document

یہ بینچ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تھا۔ مختصر فیصلہ بھی انہوں نے ہی سنایا لیکن اس مقدمے کا تفصیلی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس

ان کے دور کا دوسرا تاریخی فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کا فیصلہ ہے جو گزشتہ 14 برسوں سے سپریم کورٹ میں زیرِ التوا لیکن کوئی چیف جسٹس پر سماعت نہیں کررہا تھا۔ اس ریفرنس کی آخری سماعت 2010ء میں ہوئی تھی جس کے بعد سپریم کورٹ میں 8 چیف جسٹس تبدیل ہوئے۔ عدالتی الماریوں میں بند اس ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس قاضی نے کی اور 44 سال پہلے سپریم کورٹ سے ہوئی تاریخی غلطی کو درست کیا۔ اس ریفرنس میں سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو لاہور ہائیکورٹ اور نہ ہی سپریم کورٹ میں فیئر ٹرائل کا موقع فراہم کیا گیا۔ انصاف فراہم نہ کرنا نا انصافی ہی ہوتی ہے۔

ایسے تو انتخابات مقرر وقت میں کروانے کا حکم بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دیا تھا جب یہ تاثر عام تھا کہ عام انتخابات وقت پر نہیں ہوں گے اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت کو برقرار رکھا جائے گا تو ان دنوں میں چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کو صدر سے مشاورت کرکے انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا حکم دیا تھا جس کے نتیجے میں ملک میں عام انتخابات ممکن ہوسکے۔

ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مقدمے کی سماعت بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کی تھی جس کے فیصلے کے نتیجے میں ملک کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کے خلاف کورٹ مارشل کا اعلان کیا گیا۔ اسی طرح اسی شخصیت سے متاثر ہائیکورٹ کے سینئر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو کالعدم دے کر برطرف جج کو بحال کردیا تھا چونکہ جسٹس صدیقی ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکے تھے لیکن ان کی بطور جج پینشن اور مراعات بحال کردی گئیں۔

نواز شریف، جہانگیر ترین جیسے سیاستدانوں کو ثاقب نثار کی عدالت نے تاحیات نااہل قرار دیا تھا لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تاحیات نااہل کرنے والا آئین سے ماورا فیصلہ ختم کردیا اور اس حوالے سے قانون کے مطابق جوڑ کر سیاستدانوں پر مستقل نااہلی کی سزا کی تلوار کو ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا۔

چھ ججز کا خط

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز نے ایجنسیز کی عدالتی امور میں مداخلت کا الزام لگا کر جوڈیشل کونسل کو ایک خط لکھ کر درخواست کی کہ سپریم کورٹ جوڈیشل کنوینشن طلب کرے۔ اس خط میں الزام لگایا گیا کہ ججز پر ان کے رشتہ داروں کے ذریعے دباؤ ڈالا جاتا ہے جوکہ یہ عدالتی امور میں بڑی مداخلت ہے۔ خط میں بتایا گیا تھا کہ ایک جج کے عزیز کو اغوا بھی کیا گیا۔ یہاں تک کہ ایک جج کے بیڈ روم میں کیمرا نصب کیا گیا تھا۔

اس طرح کا ایک الزام جسٹس شوکت عزیز صدیقی پہلے بھی عائد کرچکے ہیں بلکہ انہوں نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں جنرل فیض حمید کا نام بھی لیا تھا کہ وہ نواز شریف اور مریم نواز کے مقدمہ میں من پسند فیصلہ چاہتے تھے۔

  وہ 6 ججز جنہوں نے خط لکھ کر مداخلت کی شکایت کی—تصویر: فائل فوٹو
وہ 6 ججز جنہوں نے خط لکھ کر مداخلت کی شکایت کی—تصویر: فائل فوٹو

چھ ججز کے اس خط پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مشاورت سے ازخود نوٹس لیا۔ ابتدائی سماعت کے بعد فل کورٹ اجلاس طلب کیا گیا۔ اس معاملے پر چیف جسٹس اور وزیراعظم کی ملاقات ہوئی۔ حکومت نے اس معاملے پر خود انکوائری کرنے کی ہامی بھری اور کمیشن کا اعلان بھی ہوا جس کی سربراہی سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو سونپی گئی لیکن انہوں نے معذرت کرلی۔

پاکستان تحریک انصاف نے کمیشن کو مسترد کردیا۔ اس کے بعد چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بینچ نے متعدد سماعتیں کیں۔ بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ و دیگر ججز شامل تھے۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان اور ہائیکورٹ کو دھمکی آمیز خطوط ملنے کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا جس سے یہ تاثر ملا کہ اس مقدمہ سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس مداخلت کے معاملے پر جسٹس فائز عیسیٰ کی حکومت وقت، ایجنسیز، قوانین اور ضابطے کے حوالے سے مختلف آبزرویشنز سامنے آئیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو جج سمجھتا ہے کہ مداخلت ہو رہی ہے، اس کے باوجود وہ کچھ نہیں کرتا تو اسے گھر بیٹھ جانا چاہیے۔ یہ آبزرویشن بھی آئی کہ جج مداخلت پر نوٹس بھی لے سکتا ہے۔ اس حوالے سے بینچ بنادیا گیا لیکن اس کا کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔

بلے کا نشان واپس

تحریک انصاف بلے کے نشان پر عام انتخابات میں حصہ لینا چاہتی تھی لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انٹرا پارٹی انتخابات قانون کے مطابق نہ کروانے کے بنیاد پر تحریک انصاف سے بلے کا نشان واپس لے لیا۔ الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر 2023ء کو یہ فیصلہ کیا جسے پشاور ہائیکورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا، سنگل جج نے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر 26 دسمبر کو بلے کا نشان بحال کردیا جسے ہائیکورٹ کے ڈویژنل بینچ میں چیلنج کیا گیا تھا۔

  پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مہمات چلائیں—تصویر: ایکس
پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مہمات چلائیں—تصویر: ایکس

3 جنوری 2024ء کو پشاور ہائیکورٹ کے ڈویژنل بینچ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست قرار دے کر تحریک انصاف سے بلے کا نشان واپس لے لیا جس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ چیف جسٹس کے ساتھ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی نے الیکشن کمیشن اور پھر ہائیکورٹ کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے ان کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اس فیصلے پر تحریک انصاف نے صرف تنقید ہی نہیں کی لیکن چیف جسٹس کے خلاف سوشل میڈیا مہم بھی چلائی گئی جو اب تک جاری ہے۔

مخصوص نشستوں کا فیصلہ

قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 ججز پر مشتمل لارجر بینچ کا ایسا فیصلہ سامنے آیا جو ابھی تک اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچا۔ 6 مئی 2024ء کو اس مقدمے کی پہلی سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین ججز پر مشتمل بینچ نے کی۔ درحقیقت یہ پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ تھا جسے سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ پشاور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ سنی اتحاد کونسل قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں ہے۔

یہ معاملہ جب سپریم کورٹ میں آیا تو پہلی سماعت پر ہی جسٹس منصور علی شاہ نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کردیا جس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کی طرف سے مخصوص نشستوں کی جاری کردہ لسٹ کو ڈی نوٹیفائی کردیا گیا۔ پھر معاملہ لارجر بینچ میں آیا تو اپیل کنندہ سنی تحریک کو کچھ نہیں ملا۔ 12 جولائی 2024ء کے اس فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 8 ججز نے تمام مخصوص نشستیں تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دیں۔ پانچ ججز نے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔ دو دو ججز نے الگ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے الگ اختلافی نوٹ لکھا۔

Title of the document

یہ وہ مقدمہ تھا جس نے سپریم کورٹ میں تفریق کو واضح کردیا اور ان آٹھ ججز کے فیصلے پر عمل نہ ہوسکا۔ الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل کی تو فیصلے کے مصنف جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب نے سپریم کورٹ کی چھٹیوں کا عذر پیش کرتے ہوئے اپیلوں کو تعطیلات کے بعد سننے کا فیصلہ دیا۔ جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان کے اختلافی نوٹ نے اکثریتی فیصلے کی ساکھ پر ایسے سوالات اٹھا دیے کہ الیکشن کمیشن فیصلے پر عمل درآمد کرنے یا نہ کرنے جیسے قانونی سوالات میں مزید الجھ گیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے اختلافی نوٹس الگ تھے۔ یہ کیس مزید اس وقت الجھ گیا کہ جب جسٹس منصور علی خان نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے حکومت اور الیکشن کمیشن کو تنبیہ کی کہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے فیصلے پر عملدرآمد کیسے نہیں ہوتا۔

الیکشن کمیشن کی وضاحت کے لیے دائر اپیل پر سپریم کورٹ نے سماعت کیے بغیر پریس ریلیز جاری کردی۔ یہ ایک ایسا بیان تھا جسے شائع کرنے سے پہلے چیف جسٹس کی منظوری لینا بھی گوارا نہیں کیا گیا۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ کی جانب سے ایک کے بعد ایک وضاحت دیے جانے کی بھی کوئی مثال ماضی میں ہمیں نہیں ملتی۔ مخصوص نشستوں کے فیصلے کے حوالے سے اب تک حتمی طور پر کچھ سامنے نہیں آسکا ہے۔ الیکشن کمیشن اور نہ حکومت اس پر واضح اسٹینڈ لے رہے ہیں۔ حکومت الیکشن کمیشن کو خطوط پر خطوط لکھ رہی ہے کہ جلدی مخصوص نشستوں پر فیصلہ کیا جائے، الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہا ہے جبکہ عوام الیکشن کمیشن کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

26ویں ترمیم کے بعد یہ طے نہیں کہ اس پر آئینی بینچ نے نظرثانی کرنی ہے یا وہ فیصلے پر عمل کا حکم دے گا۔ لیکن چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یہ آخری نوٹ لکھ کر ریٹائرڈ ہورہے ہیں کہ فیصلہ ایسی نوعیت میں ہے کہ اس پر عمل کرنا ضروری نہیں، ججز کو آئین میں ترمیم کا اختیار نہیں آٹھ ججز نے فیصلے کے ذریعے آئین میں ترمیم کردی ہے۔ اس فیصلے نے ججز کے اختلافات کو اس قدر سنگین کردیا ہے کہ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم افغان کے خلاف شکایات جوڈیشل کونسل تک پہنچ چکی ہیں۔

آرٹیکل 63 اے کی تشریح

یہ معاملہ پرانا ہے لیکن اس کی درستی بعد میں کی گئی۔ آرٹیکل 63 اے آئین میں واضح ہے لیکن تحریک انصاف نے اس معاملے پر سپریم کورٹ سے تشریح اس وقت طلب کی کہ جب عمران خان کے خلاف بطور وزیراعظم عدم اعتماد تحریک کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ ایسے موقع پر صدر مملکت کی طرف سے سپریم کورٹ سے اس شق کی تشریح کی درخواست کی گئی جو پہلے سے آئین میں واضح ہے۔ سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جب اس ریفرنس کی سماعت کرکے ایک نئی تشریح بیان کی گئی تو اس پر تنقید ہوئی کہ ججز نے اب نیا آئین لکھنا شروع کردیا ہے۔

آئین میں واضح تھا اور ہے کہ منحرف رکن اسمبلی اگر ووٹ دے گا تو اس کے خلاف پارٹی سربراہ الیکشن کمیشن میں ریفرنس بھیجے گا۔ عدالت نے تشریح کی کہ وہ ووٹ گنتی میں نہیں آئے گا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے آئین کو اصلی پوزیشن پر بحال کردیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جاتے جاتے پارلیمنٹ کو 26ویں آئینی ترمیم کا ماحول فراہم کیا۔

یہ خیال ہے کہ کوئی اور چیف جسٹس اس ترمیم کو اس طرح آنے سے پہلے روک سکتا تھا جس طرح جسٹس عمر عطا بندیال نے پریکٹس اینڈ پروٹیکشن ایکٹ کو قانون بننے سے پہلے پارلیمنٹ پر قدغن قرار دیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس کے عہدے سے اس وقت ریٹائر ہو رہے ہیں کہ جب سپریم کورٹ کے اندر اور باہر آئینی عدالت، آئینی بینچ، پسندیدہ جج، ناپسندیدہ جج، انصاف پرست، پارٹی ججز، اس کا جج، میراجج کا شور و غل ہے اور سپریم کورٹ میں سیاسی نوعیت کی گروپ بندی بھی عیاں ہے۔

  سپریم کورٹ ججز میں دھڑا بندی واضح ہے
سپریم کورٹ ججز میں دھڑا بندی واضح ہے

حرفِ آخر

قاضی فائز عیسیٰ اپنے دور میں وہ کچھ کرگئے جو دوسرے جج نہیں کرسکے۔ انہوں نے سرکاری پلاٹ لینے سے انکار کیا۔ پروٹوکول کو وہ کوئی اہمیت نہیں دیتے اور وہ اپنے گھر سے سپریم کورٹ تک پیدل آتے جاتے تھے۔ اپنی جائیداد سرکار کو دینے والے بھی شاید وہ پہلے جج ہیں۔ انہوں نے عدالت میں ہری کتاب ہمیشہ ساتھ رکھی اور دیگر ممالک کے حوالے دینے والے وکلا کو اکثر کہا کہ آپ اپنے آئین کو دیکھ کر اس کا حوالہ دیا کریں۔

جسٹس قاضی کو جسٹس منیر سے تشبیہ دینا افسوسناک ہے کیونکہ جسٹس منیر نے پاکستان میں مارشل لا کے بیج بوئے جو آگے چل کر تناور درخت بنا۔ جسٹس قاضی نے آئین، قانون، پارلیمنٹ اور پارلیمانی جمہوریت کا ہمیشہ دفاع کیا۔ انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ سے دو دن پہلے بھی آخری اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ 8 ججز نے 13 ججز سے الگ اپنی ایک عدالت قائم کرلی بلکہ انہوں نے آئین کو ہی بدل ڈالا۔

واضح رہے ججز آئین بدل نہیں سکتے، وہ صرف ایک ہی راہ اختیار کرسکتے ہیں اور وہ آئین پر چلنے کا راستہ ہے۔

1955ء سے لے کر آج تک سپریم کورٹ کو بطور ادارہ دیکھا جائے تو اس کے اکثر فیصلوں سے جمہوریت اور پارلیمنٹ کی کوئی خاص خدمت نہیں ہوسکی۔ سچ تو یہ ہے کہ ان تمام فیصلوں نے نظامِ جمہور، نظام عدل، ملک اور سماج پر منفی اثرات مرتب کیے۔

عدالتوں نے ہر طالع آزما آمر کا ساتھ دیا اور منتخب وزیراعظم سے اچھے انداز میں پیش نہیں آئیں۔ اس کی چند اہم مثالیں مولوی تمیز الدین کیس، دوسو کیس، نصرت بھٹو کیس، ذوالفقار علی بھٹوکیس، اسد علی کیس، ظفر علی شاہ کیس، اقبال ٹکا کیس، یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کی نااہلی کے مقدمات کے ساتھ منتخب سیاسی حکومتوں کو گرانے والی مقتدرہ کے حق میں دیے گئے سپریم کورٹ کے متعدد مقدمات ہیں جن سےملکی نظام شدید متاثر ہوا ہے۔

لہٰذا یہ دلیل مؤثر اور مضبوط ہے کہ اگر سپریم کورٹ آف پاکستان مقتدرہ کے کاندھے سے کاندھا ملانے کے بجائے جمہوریت کے حق میں کچھ اچھے فیصلے کرتی تو شاید آج ہمارے نظام کی حیثیت ایک تجربہ گاہ جیسی نہیں ہوتی۔

ابراہیم کنبھر

مصنف سچل آرٹس اینڈ کامرس کالج حیدرآباد میں لیکچرر ہیں، اسلام آباد میں صحافت کا پندرہ سالہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں، سندھی اور اردو زبان میں ایک ہزار سے زائد مضامین تحریر کر چکے ہیں۔

ان سے ان کی ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: [email protected]

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔