ملک بھر میں وی پی این سروسز میں خلل کی وجہ سامنے آگئی
پاکستان میں گزشتہ روز متعدد انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) تک محدود رسائی کی شکایات آرہی ہیں جس کی وجہ ’سسٹم میں خرابی‘ کو قرار دیا گیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اتوار کے روز انٹرنیٹ صارفین نے شکایت کی کہ وہ فکسڈ براڈ بینڈ اور موبائل ڈیٹا دونوں پر ہی وی پی این تک رسائی حاصل نہیں ہورہی ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے جب کہ ڈان کے رابطہ کرنے پر بھی ترجمان نے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
یاد رہے کہ وی پی این اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب ملک میں کوئی ویب سائٹ یا ایپلی کیشن بند ہو۔
پاکستان میں رواں سال فروری کے بعد وی پی اینز کے استعمال میں اس وقت اضافہ ہوا جب حکومت کی جانب سے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ’ایکس‘ پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
رواں سال کے آغاز میں انٹرنیٹ کی بندش یا سست روی کے باعث متعدد صارفین مجبوراً پراکسی نیٹ ورکس کا استعمال کررہے تھے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی غیر مصدقہ رپورٹس کے مطابق پی ٹی اے نے متعدد وی پی اینز کو بلاک کردیا ہے۔
تاہم، حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ وی پی اینز تک رسائی میں خلل ’مختصر‘ تھا اور اس کی وجہ سسٹم میں ’خرابی‘ تھی۔
اس حوالے سے معلومات رکھنے والے انڈسٹری کے ایک ذرائع نے ڈان کو بتایا ’ہمیں حکام کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ سسٹم میں خرابی کی وجہ سے وی پی اینز تک رسائی تقریباً ایک گھنٹہ یا 30 منٹ کے لیے متاثر ہوئی تھی۔‘
انٹرنیٹ اور ویب سائٹس کی بندش کو مانیٹر کرنے والی سائٹ ڈاؤن ڈیٹیکٹر نے اس مسئلے کی تصدیق کی۔
متعدد صارفین نے وی پی این سروسز ’وی پی این انلمیٹڈ‘ اور ’ٹنل بیئر‘ پر سروس میں تعطل کی شکایت کی، سائٹ پر درج کی گئی تمام شکایات کا تعلق ورچوئل پرائیوٹ نیٹ ورک سے کنیکٹ ہونے میں مشکلات کے حوالے سے تھا۔
ویب سائٹ پر موجود گراف میں دیکھا گیا ہے کہ وی پی این ان لمیٹڈ کے صارفین سروسز میں تعطل کے حوالے سے رپورٹ کیا جس میں 10 رپورٹس شام 6 بج کر 15 منٹ پر درج کی گئی ہیں، اسی طرح ٹنل بیئر کے صارفین نے رات 7 بج کر 29 منٹ پر وی پی این کے حوالے سے شکایات درج کروائیں۔
انڈسٹری کے 2 مختلف ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اس تعطل سے ان کاروباری اداروں پر بھی اثر پڑا جنہوں نے اپنے وی پی اینز پی ٹی اے میں رجسٹرڈ کروا رکھے ہیں۔
ٹیلی کام ریگولیٹر نے سافٹ ویئر ہاؤسز، کال سینٹرز، فری لانسرز اور غیر ملکی مشنز کو پہلے ہی بتادیا تھا کہ وہ کسی بھی خرابی کی صورت میں بلا تعطل سروس کے لیے اپنے وی پی این اور انٹرنیٹ پروٹوکول (آئی پی) ایڈریس رجسٹر کروائیں۔
ستمبر میں جب صارفین کی جانب سے مسلسل انٹرنیٹ کی سست روی اور بندش کی شکایات کی جارہی تھی تو اس وقت اتھارٹی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا ’پی ٹی اے اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ آئی ٹی انڈسٹری کی بہتری کے لیے انٹرنیٹ کی بلاتعطل رسائی انتہائی اہم ہے، یہی وجہ ہے کہ سافٹ ویئر ہاؤسز، کاروباری اداروں اور آئی ٹی کمپنیوں کے لیے وی پی این کے آئی پی ایڈریس رجسٹرڈ کیے جارہے ہیں‘۔
پی ٹی اے کے مطابق سال 2020 سے اب تک 20 ہزار سے زائد وی پی اینز اور آئی پی ایڈریسز رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔
ڈیجیٹل حقوق کی وکیل فریحہ عزیز نے کہا کہ یہ ان ’من مانییوں سے‘ روزمرہ کی زندگی متاثر ہوتی ہے اور اس سے لوگوں کے کام میں خلل پڑرہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی اے اور حکومت میں سے کسی نے بھی اب تک وی پی اینز کے حوالے سے واضح جواب نہیں دیا، وی پی اینز کے حوالے سے صرف یہ کہا گیا کہ وہ رجسٹریشن کے عمل میں ہیں۔
ڈیجیٹل حقوق کے ایک اور کارکن اسامہ خلجی نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے لوگوں سے کچھ لوگوں سے رابطہ کیا جنہوں نے وی پی این سروسز میں تعطل کا سامنا کرنے کی تصدیق کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ اقدام ریاست کی جانب سے وی پی اینز پر پابندی لگانے کے منصوبے کے مطابق ہے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سے کاروبار پر، خاص طور پر مالی اور ٹیکنالوجی سے متعلق صنعتوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘