وہ کیا عناصر ہیں جو بشریٰ بی بی کو پاکستانی سیاست کا متنازع کردار بناتے ہیں؟
پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں بہت کم شخصیات اتنی دلچسپی کا مرکز بنتی ہیں یا تنازع کا شکار ہیں جتنی کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بی بی ہیں۔
حالیہ برسوں میں بشریٰ بی بی عمران خان کی کہانی کے اہم کردار کے طور پر سامنے آئی ہیں جس کی وجہ ان پر لگائے جانے والے بہت سے الزامات بنے، جن میں جادو ٹونا اور حد سے زیادہ سیاسی عزائم رکھنا شامل ہیں۔ 26 نومبر کو ڈی چوک پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دھرنے کی قیادت کرکے بشریٰ بی بی نے سیاست میں باقاعدہ انٹری دی۔
ان کی انٹری پر جس طرح کا ردعمل سامنے آیا، اس نے پاکستان میں صنفی عدم مساوات کے المیے کو اجاگر کیا جو گہرائی تک سرایت کرچکا ہے اور مذہبی عقائد کی حدود کا تعین کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب خواتین سیاست میں آتی ہیں یا عوامی شخصیت بن جاتی ہیں تو اکثر ان کے ارادوں پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں جبکہ مردوں کو خواتین کی سازش کے معصوم شکار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ صنفی کرداروں کی حمایت کے لیے مذہبی عقائد کا استعمال نقصان دہ روایت نہیں بلکہ یہ تو پدرشاہی نظام کو برقرار رکھنے اور صنفی مساوات کے حصول کو روکنے کا ایک طریقہ ہے۔
بشریٰ بی بی کے معاملے پر لبرل اور قدامت پسند دونوں کی آرا ایک جیسی ہے لیکن یہ آرا انہوں نے مختلف وجوہات کی بنیاد پر قائم کی ہیں۔ ترقی پسندوں کا خیال ہے کہ بشریٰ بی بی پر تنقید کا عمران خان کی کمزور ہوتی مقبولیت سے تعلق ہے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ ان کے خاتون ہونے کا اس پورے معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔
تاہم قدامت پسند افراد شریعت پر پوری طرح عمل نہ کرنے پر بشریٰ بی بی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ وہ نامحرم مردوں کے ساتھ ریلی میں ہاتھ ہلانے پر تنقید کرتے ہیں جہاں آستین اوپر اٹھ جانے کی وجہ سے ایسی خاتون کے بازو نظر آئے جنہیں شرعی اصولوں کی پیروی کرنی چاہیے۔
اس کے علاوہ بنیاد پرست مندرجہ بالا مسائل کو اہم نہیں سمجھتے بلکہ وہ اس بات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں کہ کس طرح احتجاج اور حکومت مخالف جذبات انتہائی دائیں بازو کے گروہوں کو طاقتور بنا سکتے ہیں۔ کرم کے زمینی تنازعات کا فرقہ وارانہ جھڑپوں میں تبدیل ہوجانا اس کی مثال ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں موردِ الزام ٹھہرانے کا رجحان بہت زیادہ ہے اور انتقامی کارروائیوں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔
مذہب کا سیاست میں استعمال
مذہب، صنف اور سیاست کا پاکستان میں واقع مقدس مقامات سے گہرا تعلق ہے۔ مثال کے طور پر 19ویں صدی کی ایک خاتون صوفی شاعرہ اور بزرگ، پیرو جو روایتی صنفی اصولوں کی خلاف ورزی کے لیے جانی جاتی تھیں، ان کی درگاہ کو 1947ء کے بعد قصور میں تباہ کردیا گیا۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ وہ نچلی ذات کی درباری تھیں جبکہ مانا جاتا ہے کہ وہ ہندو تھیں۔ دوسری جانب لاہور میں بی بی پاک دامنؒ کے مزار کو اب بھی ایک اہم مذہبی مقام کی حیثیت حاصل ہے حالانکہ 1967ء میں حکومت کے ماتحت آنے کے بعد یہ بھی تنازعات کا مرکز بن گیا تھا۔
بشریٰ بی بی جیسی شخصیات اپنے مذہبی (درگاہوں) یا سیکولر عقائد کے ساتھ، معاشرے میں مردوں کے غلبے کو چیلنج کرکے سیاست کو مزید پیچیدہ بناتی ہیں۔ ایسا صرف عمران خان کے ساتھ ان کی شادی یا عمران خان کے سیاسی فیصلوں میں بشریٰ بی بی کے اثرورسوخ کی زیرِ گردش افواہوں کی وجہ سے نہیں بلکہ بشریٰ بی بی کا بابا فریدؒ کے مزار سے بھی گہرا تعلق رہا ہے جس نے صنفی کردار اور روحانیت کے حوالے سے عوامی حلقوں میں بحث کو جنم دیا ہے۔
بشریٰ بی بی کو بہت سے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ مرشد، جادوگرنی، یہاں تک کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کا مشتبہ ایجنٹ بھی کہا جاتا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے لوگ اسٹیبلشمنٹ کے مختلف حلقوں سے بشریٰ بی بی کے روابط کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اسی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں برسرِ اقتدار آنے والے عمران خان کو آج بھی ایک قومی ہیرو کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ البتہ ہر سیاسی جماعت نے مذاکرات اور ڈیل کرنے کے لیے ریاستی طاقتوں کے ساتھ خفیہ تعلقات بنائے ہوئے ہیں۔
سیاست میں صنف کے کردار کی بات کی جائے بالخصوص بشریٰ بی بی اور عمران خان کی مذہب پر مبنی سیاست کو دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو خواتین مذہب کے ذریعے طاقت کا دعویٰ کرنے کی کوشش کرتی ہیں انہیں ان خواتین کی نسبت معاشرے سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو پدرشاہی اصولوں کو چیلنج کرتی ہیں۔ جب خواتین آزادی کا دعویٰ کرتی ہیں تو مردوں میں یہ سوچ جنم لیتی ہے کہ وہ معاشرے میں اپنی روایتی کردار ادا کرنا نہیں چاہتیں۔
9/11 کے حملوں کے بعد 2010ء کی دہائی میں پاکستان میں مذہبی تحریکوں میں صنف کو زیادہ اہمیت دی جانے لگی تھی۔ ان دنوں فرحت ہاشمی کے مذہبی اسکول نیٹ ورک الہدیٰ کی ترقی اس بات کا ثبوت تھی۔ مذہبی عقائد، سخت مذہبی قوانین (آرتھوڈوکس) سے مختلف ہوتے ہیں۔ اس کا مذہبی سیاست سے گہرا تعلق ہے اور جب صنفی مسائل کی بات آتی ہے تو دونوں ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر ’الہدیٰ‘ خاندانوں اور اسلامی اقوام کی تعمیر کے لیے مذہبی تعلیم پر توجہ مرکوز کرتا ہے جبکہ لشکر طیبہ جیسے گروہ ماؤں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹوں کو اسلام کی راہ میں شہید کرنے کے لیے تیار کریں۔ جامعہ حفصہ کی خواتین نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اور روایتی صنفی حدود کو توڑتے ہوئے مضبوط مہمات کی قیادت کی جس کا مقصد ’اخلاقی اقدار‘ کا تحفظ تھا جہاں انہوں نے خواتین پر توجہ مرکوز کی۔
یوں مختلف سیاسی نظریات سے تعلق رکھنے والے خواتین کے متعدد گروہ سامنے آئے جو ہر سال عورت مارچ اور حقوق نسواں کا مطالبہ کرنے والی خواتین اور ان کی صنفی سیاست کی مخالفت کرتے ہیں اور ایسی خواتین کو فحاش فمینسٹ قرار دیتے ہیں۔
ان مذہبی گروہوں اور تحریکوں کو مختلف نظریے سے دیکھا جاتا ہے۔ کچھ ناقدین انہیں ریاست کے حمایت یافتہ قرار دیتے ہیں جبکہ دیگر بالخصوص علما ان خواتین کو بعداز نوآبادیاتی دور سے جوڑتے ہیں۔ تاہم بہت سے ناقدین ان خواتین کی اثرورسوخ پر سوالیہ نشان کھڑے کرتے ہیں اور انہیں ’برقع بریگیڈز‘ کہتے ہیں، ساتھ ہی یہ تجویز کرتے ہیں کہ مرد لیڈر انہیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
دوسری جانب پوسٹ سیکولر نظریات کے حامی جو مذہب پر مبنی سیاست کی حمایت کرتے ہیں، دلیل دیتے ہیں کہ مذہبی سیاست ’لبرل سیکولر‘، مغربی فیمنزم کا مناسب متبادل ہے۔ ان لوگوں نے مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے مذہبی سیاست کے استعمال کو فروغ دیتے ہوئے اسکالرز اور پالیسی سازوں کے طور پر اپنا نام بنایا ہے۔ تاہم ’امپورٹڈ‘ یا مغربی فنڈڈ، ’تبدیلی کے نظریات‘ کے اثرات کے حوالے سے کوئی جوابدہ نہیں کہ یہ کس طرح مقامی کمیونٹیز کو متاثر کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان مغربی فنڈڈ نظریات کے خلاف مقامی سطح پر مزاحمت پیدا ہوتی ہے جسے ثقافت کا حصہ قرار دیا جاتا ہے۔
ہر طبقے کی خواتین کو صنفی امتیاز کا سامنا
جب بشریٰ بی بی نے عمران خان سے شادی کی تو یہ افواہیں پھیل گئیں کہ انہیں خوابوں میں الہام ہوتے ہیں جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ عمران خان سے شادی کرکے ان کے لیے وزیراعظم بننے کی راہ ہموار کریں گی۔ اس کہانی نے ایک بار پھر اس تصور کو تقویت دی کہ خواتین، مردوں کو شادی کے جھانسے میں پھانسنے کے لیے مختلف ہتھکنڈوں سے کام لیتی ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس امر نے اونیرو سینٹرزم (خواب پر مبنی عقائد) کو اجاگر کیا۔ خوابوں کو سماجی یا سیاسی واقعات سے جوڑنا مذہب پر مبنی سیاست کا حصہ ہے۔
اسلامی پاپولزم کے تناظر میں مذہبی شخصیات اکثر و بیشتر ایک سے زائد شادی، طلاق یا جنسی جرائم جیسے اعمال کو اپنے ماضی سے حذف کرنے کے لیے مہذب رویے اپناتے ہیں تاکہ ان کی شخصیت بہتر ہو۔ تاہم پاکستان کی اشرافیہ اور عوام دونوں ہی عمران خان کی جانب سے بشریٰ بی بی کو اپنی ’زندگی کے ساتھی‘ کے طور پر منتخب کرنے پر ابہام کا شکار ہیں۔
اگرچہ بشریٰ بی بی کا پردہ جو اسلامی معاشرے میں خواتین کی خوبی کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، انہیں قدامت پسندی کی علامت اور اسلامی ریاست کے صنفی اخلاقی نظام کا حصہ بناتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک اسلامی جمہوریہ میں، بہت سی خواتین فخریہ طور پر برقع کو اپنی شناخت کے طور پر اپناتی ہیں لیکن بشریٰ بی بی کو تو قدامت پسند طبقے کی تنقید کا بھی سامنا ہے۔ ہمارے ہاں خاتون عوامی شخصیات کو اسی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور یہ ہم فاطمہ جناح کے زمانے سے ہوتے دیکھتے آرہے ہیں۔
سیاست میں بشریٰ بی بی کو درپیش چیلنجز، ان چیلنجز سے مماثل ہیں جن کا سامنا بے نظیر بھٹو جیسی خواتین کو کرنا پڑا۔ مثال کے طور پر بے نظیر پر حمل، ذاتی زندگی اور قیادت کے حوالے سے تنقید کے نشتر برسائے جاتے تھے۔ جب وہ پہلی بار وزیر اعظم بنیں تو فیمینسٹ نے دوپٹے سے سر ڈھانپنے پر بے نظیر پر تنقید کی۔ اس دور میں ان خواتین نے دوپٹے سے سر ڈھانپنے کے ضیاالحق کے فیصلے خلاف مظاہرے کیے تھے، ایسے میں بےنظیر کے اقدام کو سر تسلیم خم کے طور پر لیا گیا۔
تاہم بے نظیر نے ان کارکنان کو حقوق نسواں کی حمایت اور لبرل اصلاحات پر زور دینے سے کبھی نہیں روکا۔ یہاں تک کہ انہوں نے جماعت اسلامی کی شدید مخالفت کے باوجود 1995ء میں خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے سے متعلق اقوامِ متحدہ کے کنونشن (CEDAW) پر دستخط کیے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اقتدار میں آنے والی خواتین اپنے ساتھ نئی تبدیلیاں لائی ہیں لیکن شیری رحمٰن اور مریم نواز جیسی عوامی شخصیات اب بھی اکثر میڈیا میں صنفی تنقید کا نشانہ بنتی ہیں۔ مثال کے طور پر پنجاب کی وزیر ظل ہما کو نام نہاد مذہبی وجوہات کی بنیاد پر قتل کردیا گیا تھا۔ خواتین کے خلاف نفرت انگیز رویہ، سیاسی نظریے سے بالاتر ہے اور اسے اکثر معاشرے کی دوسری خواتین کے ذریعے ہی تقویت ملتی ہے جو اپنے مفادات یا مردوں کی خوشنودی کے لیے پدرشاہی اصولوں کی حمایت کرتی ہیں۔
بشریٰ بی بی کے خلاف عدت نکاح کیس نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح پاکستان میں خواتین کا صنفی استحصال ایک عام مسئلہ بن چکا ہے جس سے تمام سماجی طبقات کی خواتین متاثر ہوتی ہیں۔ عدالتی کارروائی کے دوران ان کی ماہواری اور جنسی تعلقات کی تاریخ کو زیرِ بحث لایا گیا۔ عموماً پسماندہ خواتین کو اس طرح کے توہین آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ابتدائی طور پر بشریٰ بی بی کو ان کے سابق شوہر خاور مانیکا نے پاک دامن اور پرہیزگار قرار دیا تھا لیکن بعدازاں انہوں نے سابق اہلیہ کو نافرمان قرار دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح مرد، خواتین کو عوامی سطح پر شرمندہ کرنے کے لیے پدرشاہی اصولوں کا استعمال کرتے ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ زنا کے جن امتیازی قوانین کے حوالے سے فیمینسٹ کی اصلاحات کی عمران خان نے 2006ء میں مخالفت کی تھی، اسی قانون نے عدت نکاح کیس میں بشریٰ بی بی اور عمران خان کو تحفظ فراہم کیا اور انہیں زنا کے اضافی الزامات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ یہ لبرل اصلاحات اکثر اشرافیہ کو فائدہ پہنچاتی ہیں جبکہ عام خواتین کو اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتیں اپنے رہنماؤں کے لیے قانونی ریلیف حاصل کرسکتی ہیں لیکن وہ ان غیر منصفانہ خاندانی قوانین کو حل کرنے یا ان کے حوالے سے اصلاحات لانے میں ناکام رہتے ہیں جو وسیع تر آبادی پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔
اقتدار میں رہنے والی خواتین کی شخصیت مختلف حوالوں سے منسلک ہوتی ہے جیسے بے نظیر بھٹو ’ڈوٹر آف دی ایسٹ (دختر مشرق)‘ کے طور پر جبکہ مریم نواز ’نانی‘ کے طور پر جانی جاتی ہیں، اکثر ایسی خواتین کو یا تو آئیڈیل کے طور پر سراہا جاتا ہے یا انہیں معاشرے میں کسی خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بشریٰ بی بی کو بھی اسی طرح کے تضادات کا سامنا ہے۔
ڈی چوک کے مظاہرے کو حکومت کی جانب سے پُرتشدد انداز میں ختم کرنے کے بعد، بشریٰ بی بی افراتفری کے دوران وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے ہمراہ فرار ہوگئی تھیں۔ اس عمل پر بشریٰ بی بی پر تبصرے کیے گئے جن میں کچھ کا دعویٰ تھا کہ وہ ’ایک اور آدمی‘ کے ساتھ بھاگ گئیں۔ مظاہرے کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کی مرد قیادت کو ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے بشریٰ بی بی ایک آسان ہدف کے طور پر نظر آئیں۔
پاکستان میں جدید فیمنزم کا ارتقا
عمران خان کسی بھی دوسرے پاکستانی رہنما کے مقابلے میں شہری متوسط طبقے خواتین کو عوامی مقامات پر زیادہ لے کر آئے (محض سیاسی دفاتر میں نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی)۔ بے نظیر بھٹو کے برعکس جنہوں نے صنفی مساوات پر اپنی توجہ مرکوز کرکے حمایت حاصل کی، عمران کے پیروکار ان کی پُرکشش شخصیت اور اخلاقیات پر مبنی قیادت کے معترف ہیں۔ آج پی ٹی آئی کی حمایت کرنے والی خواتین اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اسی طرح کھڑی ہوتی ہیں جس طرح 1980ء کی دہائی میں فوجی جرنیلوں کے خلاف مزاحمت کرنے والی ویمن ایکشن فورم کی فیمینسٹ کھڑی ہوتی تھیں۔ اگرچہ ان دونوں تحریکوں کے سیاسی نظریات مختلف ہیں لیکن دونوں نے ملٹری غلبے کے خلاف بھرپور مزاحمت کی۔
عمران خان کی مقبولیت شمولیتی/خارجی ماڈل کا استعمال کرتی ہے۔ اس طرح کی سیاست سے صنفی مساوات کے پہلو کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ مقبول لیڈران کو عموماً صنف پرستی کا دفاع کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ ان کی تحریکوں میں شامل خواتین پدرشاہی نظریات کی حمایت کرتی ہیں۔ اس حکمت عملی کو دنیا بھر میں لیڈران کی مقبولیت کے عروج کے طور پر دیکھا جاتا ہے، یہ امتیازی رویوں کو ’فطری‘ اور ’عام فہم‘ بنانے میں کارگر ثابت ہوتی ہیں۔ ایسے رویے عام ہوجاتے ہیں اور اسے قانونی حیثیت دے دی جاتی ہے۔
بشریٰ بی بی کی مذہبی شخصیت عمران خان کے اخلاقی اصلاحات کے بیانیے سے مطابقت رکھتی ہے جو کہ امریکا کی ’ٹریڈ وائیوز‘ موومنٹ سے مماثل ہے۔ ٹریڈ وائیوز میں بااختیار خواتین وہ تھیں جو اپنے صنفی کرداروں کو پورا کرتی ہیں۔ بشریٰ بی بی اور عمران خان کی خواتین سپورٹرز پاکستان میں ایک پوسٹ فیمینسٹ مرحلے کی نمائندگی کرتی ہیں جو مغربی فیمنزم کو مسترد کرتی ہیں اور خواتین کو شرعی اقدار کے تحت بااختیار بنانے پر یقین رکھتی ہیں۔
اب تک اسلام اور فیمنزم کو مؤثر طریقے سے ایک سانچے میں ڈھالا نہیں جاسکا ہے۔ سیکولر فیمینسٹ صنفی مساوات کی خواہاں تھیں اور انہوں نے اس حوالے سے جتنی بھی کوششیں کیں، پرویز مشرف کے دور سے سوشل میڈیا پر ابھرنے والے نوجوانوں کی وجہ سے رائیگاں چلی گئیں جن کی سیاست کا محور سوشل میڈیا پر الزام تراشی اور مبہم سیاسی نظریات پر بحث کرنا ہے۔
فیمینسٹ ان خواتین کی حمایت نہیں کرتیں جو پدرشاہی نظام کی نمائندگی کرتی ہیں۔ بشریٰ بی بی اور عمران خان کے قدامت پسند فریم ورک کی حدود میں خواتین کو بااختیار بنانا چاہتے ہیں جبکہ فیمنزم کے عزائم قدرے مختلف ہیں۔
پیرو کے مزار کی تباہی اور بشریٰ بی بی جیسی شخصیات کا عروج اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ خواتین کے مذہبی عقائد کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ مذہب خواتین کے لیے سیاسی اثر و رسوخ حاصل کرنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ پاکستان کا مستقبل ممکنہ طور پر مذہبی عقائد، پاپولزم اور پوسٹ فیمنزم کے امتزاج سے تشکیل پاتا رہے گا۔ ترقی پسندوں کو انتخابی مینڈیٹ یا جمہوریت کو مجروح کیے بغیر قدامت پسندی پر قابو پانے کے لیے احتیاط سے کام لینا ہوگا اور صنفی مساوات کو فروغ دینے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری فیمنزم کی اسکالر اور کتاب ‘فیتھ اینڈ فیمینزم ان پاکستان’ کی مصنفہ ہیں۔ آپ سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔