• KHI: Asr 4:18pm Maghrib 5:55pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:11pm
  • ISB: Asr 3:32pm Maghrib 5:11pm
  • KHI: Asr 4:18pm Maghrib 5:55pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:11pm
  • ISB: Asr 3:32pm Maghrib 5:11pm

سال 2024ء اور پاکستانی سینما: ’تنہائی سی تنہائی ہے‘

فلم سازی ایک کاروبار ہے اور کوئی بھی کاروباری شخص گھاٹے کا سودا نہیں کرنا چاہتا لیکن 2024ء میں پاکستانی فلم سازوں کے نصیب میں نفع نہ ہونے کے برابر رہا۔
شائع December 30, 2024

پاکستان سینما کی کہانی سانپ سیڑھی کا ایک ایسا کھیل ہے جس میں سیڑھیاں کم اور سانپ زیادہ ہیں۔ سفر شروع کرنے کے کچھ ہی دیر بعد آپ پھر اسی خانے میں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے سفر شروع کیا تھا۔

سال 2022ء میں بلال لاشاری کی فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کی ریلیز سے جن امیدوں نے جنم لیا تھا وہ اب دم توڑ چکی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ رواں برس بھی سب سے بڑی خبر’دی لیجنڈ آف مولا جٹ’ کی بھارت میں ممکنہ ریلیز ہی تھی جو ایک بار پھر بھارتی سرکارکی انتہاپسندانہ اور فن دشمن سوچ کی نذر ہوگئی۔

سال 2024ء میں پاکستانی فلم سازوں پر نظر ڈالی جائے تو یہ سال ایک پریشان کُن منظر پیش کرتا ہے۔

2024ء سینما کے پردے پر کیسا رہا؟

2024ء میں پاکستان سینما میں کچھ واقعات ضرور رونما ہوئے مگر وہ خبر نہیں بن سکے۔ کچھ لہریں اٹھیں مگر ساحل تک نہیں پہنچ سکیں۔ البتہ جیسا عرض کیا تھا، اس پورے معاملے میں فلم سازوں سے زیادہ قصور ہمارے سسٹم کا ہے۔ فلم ساز کو تو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے جنہوں نے اتنے مشکل حالات میں بھی فلم بنانے کا بیڑا اٹھایا اور جیسے تیسے اپنی فلم کو بڑے پردے پر پیش کیا۔

سال کا آغاز ارم پرویز بلال کی فلم ’وکھری‘ سے ہوا جس میں فریال محمود نے مرکزی کردار نبھایا۔ سماجی اور سنجیدہ موضوع کا احاطہ کرتی یہ فلم قندیل بلوچ کی زندگی سے مماثلت کے باعث ابتدا ہی سے خبروں کی زینت بن گئی تھی۔ باکس آفس نمبرز کے برعکس غیرملکی فیسٹیولز میں ملنے والی پذیرائی اس فلم کو اہم ٹھہراتی ہے جس کی بازگشت سال کے آخر تک سنائی دیتی رہی۔

رواں برس کے آغاز ہی میں ہدایت کار عمیر ناصر خان کی فلم ’نایاب‘ ریلیز ہوئی۔ ایک باصلاحیت خاتون کرکٹر، اس کے خواب اور مسائل کے گرد گھومتی اس فلم میں یمنیٰ زیدی نے مرکزی کردار نبھایا۔ فروری میں ہدایت کار، ابو علیحہ کی متاثر کن اسٹار کاسٹ اور دلچسپ موضوع پر مبنی ’ٹکسالی گیٹ‘ ریلیز ہوئی جو اپنے اسٹائل کے باعث ناظرین کو متوجہ کرتی ہے۔

گو دونوں ہی فلموں کو ناقدین کی اکثریت نے سراہا مگر سینما گھروں کی محدود تعداد ان کے آڑے آئی اور یہ باکس آفس پر توقع کے مطابق جادو نہیں جگا سکیں۔

اپریل میں ہدایت کار، وجاہت خان کی فلم ’دغا باز دل‘ ریلیز ہوئی جس میں مہوش حیات، علی رحمٰن خان، بابر علی جیسے اداکار نظر آئے۔ عید پر ریلیز ہونے والی اس فلم کی پروڈکشن کوالٹی تو اچھی تھی اور اس میں تفریحی عناصر کا بھی خیال رکھا گیا تھا لیکن باکس آفس نمبرز توقع سے کچھ کم رہے۔ اسی موقع پر ریلیز ہونے والے نعمان خان کی فلم ’ہم تم اور وہ‘ زیادہ توجہ حاصل نہیں کرسکی۔ ناقدین کے مطابق یہ ایک ٹیلی فلم تھی جسے فیچر فلم کے طور پر پیش کیا گیا۔

اس کے بعد ہم نے کنزہ ضیا اور عمار لاثانی کی ’پوپے کی ویڈنگ‘ اور اسد ممتاز کی ’نابالغ افراد‘ بڑے پردے کی زینت بنتے دیکھی۔ ’نابالغ افراد‘ کا موضوع تازہ اور دلچسپ اور بجٹ کم تھا۔ چند تجزیہ کاروں کے مطابق رواں فرق فقط یہی فلم کچھ منافع کما سکی۔

جون میں اظفر جعفری کی ’عمر و عیار‘ بڑے پردے کی زینت بنی جس کے موضوع اور وی ایف ایکس نے ٹریلر ریلیز ہی کے موقع پر ناظرین کی توجہ حاصل کر لی تھی۔ اسے پاکستان سینما کے لیے نئی امید کے طور پر دیکھا جارہا تھا۔ البتہ محدود اسکرین اور ناظرین کی عدم توجہی کے باعث یہ فلم بھی متاثر کُن نتائج پیش نہ کرسکی۔ ناقدین کی جانب سے ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔ گو بجٹ کے موازنے میں شاید اسے سپر ہٹ نہ ٹھہرایا جاسکے لیکن سال 2024ء میں باکس آفس پر جس فلم نے سب سے زیادہ بزنس کیا، وہ یہی فلم تھی۔

جولائی میں ریلیز ہونے والی ہدایت کار عثمان ریاض کی فلم ’دی کلاس ورکر‘ پاکستان کی پہلی ہینڈ میڈ اینی میٹڈ فلم تھی جو پاکستان سینما کے تناظر میں ایک اہم اور قابل توجہ تجربہ تھا۔ پاکستان میں ریلیز سے قبل اس نے بین الاقوامی میلوں میں خوب داد سمیٹی۔ اس ہینڈ میڈ اینی میٹڈ فلم کو پاکستان کی جانب سے آسکر کے لیے نامزد کیا گیا۔ گو یہ آسکر ایوارڈ کی دوڑ سے باہر ہوچکی ہے مگر اس نے فلم بینوں میں کسی حد تک امید ضرور پیدا کی ہے۔

اگست میں شاہ ملک کی ’لیچ‘ اور عثمان رضوی کی ’مستانی‘ ریلیز ہوئیں۔ ’مستانی‘ اپنی پروڈکشن کوالٹی اور کاسٹ کے اعتبار سے ناظرین کو متوجہ کرنے میں ایک حد تک کامیاب نظر آئی۔

دسمبر کے آخر میں گلوکار طلحہ انجم کی فلم ’کٹر کراچی‘ کو ریلیز کیا گیا ہے۔ فلم کی کہانی بلال لطیف کے قلم سے نکلی ہے، ہدایات عبدالولی بلوچ نے دی ہیں۔ کرسمس اور نئے برس کی چھٹیوں کی وجہ سے اس فلم سے مناسب بزنس کی توقع کی جارہی ہے۔

2023ء کے آخر میں ریلیز ہونے والی ظہیر الدین کی فلم ’چکڑ‘ کی بازگشت دسمبر 2024ء میں بھی سنائی دی جب اس کے خصوصی پریمیئر کا انعقاد کیا گیا اور بعدازاں یہ معروف ادبی تنظیم ’رائٹر اینڈ ریڈرز کیفے‘ کی نشست میں بھی زیر بحث آئی۔

یہ فلمیں کیوں توجہ حاصل نہیں کرسکیں؟

اگر رواں برس ریلیز ہونے والی فلموں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں باصلاحیت ہدایت کاروں اور اچھے فن کاروں کی کمی نہیں۔ ایسے میڈیا ہاؤسز بھی ہیں جو فلموں کو سپورٹ کرتے ہیں لیکن اگر کمی ہے تو سینما گھروں کی، اُس کلچر کی جو فلموں کو کامیاب بناتا ہے، اس ’فُٹ فال‘ کی کمی ہے جس کے دم سے سینما کی رونقیں قائم رہتی ہیں۔

  فلم بینوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے سینماکی رونقیں کم ہوتی ہیں
فلم بینوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے سینماکی رونقیں کم ہوتی ہیں

پاکستانی فلم سازوں کا المیہ

ایک ایسے وقت میں جب بھارتی سینما اپنے عروج پر نظر آرہا ہے، ہمارا سینما زوال پذیر ہے۔ جب پڑوس میں ایک فلم کو 10، 10 ہزار اسکرینز میسر ہیں، ہمارے فلم سازوں کو محض 100 اسکرینز پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ بنگلہ دیش کا سینما بھی اپنی پروڈکشن کوالٹی اور فلموں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستانی سینما سے کئی گنا آگے نظر آتا ہے۔

فلم سازی خدمت خلق نہیں، یہ ایک کاروبار ہے اور کوئی بھی کاروباری شخص گھاٹے کا سودا نہیں کرنا چاہتا لیکن پاکستانی فلم سازوں کے نصیب میں نفع نہ ہونے کے برابر ہے۔

اس پورے معاملے میں ایکٹر، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر سے زیادہ ہمارا سسٹم قصور وار ہے۔ بھارت میں جب ایک پروڈیوسر فلم بناتا ہے تو سینما گھروں کی زینت بننے سے قبل ہی وہ فلم اپنے تھیٹریکل اور نان تھیٹریکل حقوق کی فروخت سے نہ صرف سرمایہ پورا کر لیتی ہے بلکہ منافع میں چلی جاتی ہے۔

اس کی ایک بڑی مثال ’پشپا ٹو‘ ہے۔ 400 کروڑ کی لاگت سے بننے والی اس فلم نے ریلیز سے قبل ہی ڈسٹری بیوشن، میوزک، ڈیجیٹل اور سیٹیلائٹ حقوق کے ذریعے ایک ہزار کروڑ کی آمدن کرکے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔

البتہ پاکستان میں صورت حال یکسر مختلف ہے۔ میوزک، ڈیجیٹل اور سیٹیلائٹ رائٹس کی فروخت تو خواب ہوئی۔ اب تو ڈسٹری بیوشن رائٹس کا تصور بھی قصہ پارینہ ہوا۔ مثال لیجیے، اگر ایک فلم پر ایک کروڑ لاگت آئی ہے اور پہلے شو سے ایک لاکھ آمدنی ہوئی تو اس آمدنی کا لگ بھگ 40 سے 50 فیصد ایگزی بیوٹر یا سینما مالکان کو جاتا ہے۔ بچی ہوئی رقم میں سے 10 سے 15 فیصد ڈسٹری بیوٹر یا تقسیم کار کا حصہ ہوتا ہے۔ باقی رقم پروڈیوسر تک پہنچتی ہے یعنی ایک لاکھ میں محض 40 ہزار۔ ایسے میں جب آپ کے پاس اسکرینز ہی 125 ہوں تو نتائج کا خود ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

بھارتی فلموں کی پاکستانی سینما گھروں میں نمائش

پاکستانی فلم انڈسٹری کی ترقی کے لیے سینما گھروں کی تعداد میں اضافہ ضروری ہے اور یہ سینما گھر تب ہی قائم ہوں گے جب ان کا قیام منافع کا سودا ٹھہرے گا۔ جس وقت پاکستان میں بھارتی فلمیں ریلیز ہورہی تھیں اس وقت ملک بھر میں سینما گھروں میں اضافہ ہوا۔ ملٹی پلکس کلچر پروان چڑھنے لگا۔ ساتھ ہی پاکستانی فلموں کی پروڈکشن میں بھی تیزی آئی۔ سبب یہ ہے کہ بھارتی فلموں کی وجہ سے ناظرین سینما گھروں کا رخ کر رہے تھے۔ یہ ’فُٹ فال‘ سینما بینی کو فروغ دے رہا تھا جس کی وجہ سے پاکستانی فلموں کو بھی ناظرین مل رہے تھے۔ البتہ پاک-بھارت تعلقات میں بڑھتی کشیدگی اور بعدازاں بھارتی سرکار کی ہٹ دھرمی کے باعث یہ مثبت ٹرینڈ قصہ ماضی بن گیا۔

معروف پاکستانی ہدایت کار سید عاطف علی کے نزدیک بھارتی فلموں کی پاکستانی سینما گھروں میں نمائش سے نہ صرف سینما انڈسٹری پروان چڑھے گی بلکہ پاکستانی فلمیں بھی سینما کے فٹ فال سے فائدہ اُٹھا سکیں گی۔

  ڈائریکٹر سید عاطف علی
ڈائریکٹر سید عاطف علی

پاکستان فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے سینئر وائس چیئرمین سید عاطف علی کے مطابق سینما کی بہتری کے لیے اب حکومت ہی کو کچھ کرنا پڑے گا کیونکہ پاکستان میں اب سینما اشرافیہ کی تفریح تک محدود ہوگیا ہے۔ عوامی سینما جوکہ سنگل اسکرین پر مشتمل تھا وہ دم توڑ چکا ہے۔ جس طرح بجلی، گیس، پانی عوام کی پہنچ سے دور ہوگیا ہے بالکل اسی طرح سینما بھی اب عوام کے ہاتھ نہیں آتا۔ جب تک حکومت فلم سازوں کے لیے فلم میکنگ سے مشروط گرانٹ کا اعلان نہیں کرتی، حالات میں بہتری کا امکان نہیں۔

  کراچی کا قدیم کیپری سینما 2024ء میں بند ہوگیا—تصویر: فیس بک
کراچی کا قدیم کیپری سینما 2024ء میں بند ہوگیا—تصویر: فیس بک

رواں برس جہاں پاکستانی فلموں کے لیے مایوس کن رہا وہیں کراچی کے فلم بینوں کے لیے تاریخی اہمیت کے حامل، کیپری سینما کی بندش بھی کرب ناک ثابت ہوئی جسے سید عاطف علی نے بھی شدت سے محسوس کیا۔ وہ کہتے ہیں، ’اس سال کراچی والوں کی حسین یادوں میں بسنے والا کیپری سینما بھی بند ہوگیا۔ سنا ہے فلم انڈسٹری کی بہتری کی امیدوں کی طرح کیپری کی بنیادیں بھی ڈھائی جارہی ہیں‘۔

صائمہ اقبال

لکھاری مضمون نگار، استاد، قاری اور فلم بین ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔