جنوبی افریقہ میں سونے کی کان موت کا گھر بن گئی، 78 لاشیں نکال لی گئیں، 166 کان کن گرفتار
جنوبی افریقہ میں سونے کی کان موت کا گھر بن گئی، کان میں پھنسے مزید 42 غیر قانونی کان کنوں کی لاشیں نکال لی گئیں، جس کے بعد مرنے والوں کی تعداد 78 تک جا پہنچی ہے، جب کہ 166 زندہ بچ جانے والوں کو گرفتار کرلیا گیا۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے ان غیر قانونی کان کنوں کے لیے کئی ماہ سے خوراک اور پانی کی فراہمی روک رکھی تھی، جسے ٹریڈ یونینز نے روزی روٹی کمانے کی کوشش کرنے والے مایوس لوگوں کے خلاف ’ہولناک‘ ریاستی کریک ڈاؤن قرار دیا تھا۔
جوہانسبرگ کے جنوب مغرب میں واقع اسٹلفونٹین میں سونے کی کان میں پیر سے شروع ہونے والے امدادی آپریشن میں اب تک مجموعی طور پر 78 لاشیں اور 166 زندہ بچ جانے والے افراد کو باہر نکالا جا چکا ہے، امدادی آپریشن جاری ہے اور مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔
پولیس نے اگست سے خوراک اور پانی کی فراہمی کو کان میں لے جانے سے روک رکھا تھا، دسمبر میں مقامی عدالت نے فیصلہ دیا کہ رضاکار کان کنوں کے لیے ضروری امداد بھیج سکتے ہیں، ان کان کنوں کو مقامی طور پر ’زما زماس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جنوبی افریقی پولیس کے قومی ترجمان ایتھلنڈا ماتھے نے جائے وقوعہ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مینڈیٹ جرائم کا مقابلہ کرنا تھا اور ہم بالکل یہی کر رہے ہیں، ان غیر قانونی کان کنوں کو کھانا، پانی اور ضروری اشیا فراہم کرنا تفریح ہوگی اور جرائم کو پھلنے پھولنے کی اجازت دے گی۔
ہلاکتوں کی بڑھتی تعداد نے اسٹلفونٹین کان پر کریک ڈاؤن کو جنوبی افریقہ کی حالیہ تاریخ میں کان کنوں کے خلاف مہلک ترین کارروائیوں میں سے ایک بنا دیا ہے، جیسے جیسے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، پولیس اور حکومت پر تنقید میں بھی اضافہ ہوا ہے، تاہم حکام کا کہنا ہے کہ محاصرہ غیر قانونی کان کنی کے خلاف انتہائی ضروری کریک ڈاؤن کا حصہ تھا۔
ساؤتھ افریقن فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز نے ایک بیان میں کہا کہ ان کان کنوں (جن میں سے زیادہ تر موزمبیق اور دیگر جنوبی افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر دستاویزی اور مایوس کارکن تھے) کو حالیہ تاریخ میں ریاستی دانستہ غفلت کا سب سے ہولناک مظاہرہ کرتے ہوئے مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
حکمراں اتحاد کی دوسری سب سے بڑی جماعت ڈیموکریٹک الائنس نے کہا کہ کان میں صورتحال ’بری طرح قابو سے باہر‘ ہو گئی اور اس کی آزادانہ تحقیقات کی جانی چاہئیں۔
پولیس نے بتایا کہ اب تک بچائے گئے تمام 166 افراد کو فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا ہے، اور ان پر غیر قانونی امیگریشن، غیر قانونی طور پر داخل ہونے اور غیر قانونی کان کنی سمیت مجرمانہ جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں، کسی کو بھی اسپتال میں داخل نہیں کرایا گیا اور سبھی کو پولیس کی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔
سول سوسائٹی کے ایک سرگرم کارکن موزوکیسی جام نے کہا کہ اگر آپ باہر آتے ہیں اور آپ چلنے کے قابل ہو جاتے ہیں تو وہ آپ کو سیدھے تحویل میں لے جاتے ہیں۔
پولیس ترجمان ایتھلنڈا ماتھے نے کہا کہ اب تک صرف 2 لاشوں کی شناخت کی گئی اور ان کے اہل خانہ نے لاشوں کے حصول کا دعویٰ کیا ہے۔
امدادی کارروائیاں آج تیسرے روز بھی جاری ہیں اور زندہ بچ جانے والوں اور لاشوں کو نکالنے کے لیے ایک سرخ سلنڈر نما دھاتی پنجرے کو بڑی محنت سے کان میں اتارا جا رہا ہے، پنجرے میں ایک ہی وقت میں تقریباً ایک درجن افراد یا لاشیں رکھی جا سکتی ہیں۔
جائے وقوعہ پر موجود شہری حقوق کے گروپ لائرز فار ہیومن رائٹس کی جیسیکا لارنس کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ اطراف میں کھڑے ہوں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ لاشوں کو پنجرے سے باہر نکالا جا رہا ہے اور یہ ناقابل یقین حد تک پریشان کن ہے۔