ٹرمپ کی دوسری صدارتی مدت میں پاک-امریکا تعلقات کیسے ہوں گے؟
میں شروعات اس سے کروں گا کہ پاک-امریکا تعلقات معمول کے مطابق ہیں لیکن غیرمعمولی پاکستان کا ان تعلقات کے حوالے سے تاثر ہے۔
یہ اہم ہے کہ ان مشکل تعلقات کو ہم کس نظر سے دیکھتے اور سمجھتے ہیں لیکن بالخصوص نئے امریکی صدر کے حلف لینے کے بعد انہیں معمول پر لانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے زیادہ تر حصوں میں اس حوالے سے ابہام اور غیریقینی کی صورت حال پائی جاتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ حکومت میں امریکی پالسیز اور عالمی سطح پر اس کے ضوابط کیسے ہوں گے۔
گزشتہ چند دہائیوں سے پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے ہیں اور پاکستان میں امریکیوں کے خلاف یا ان کی حمایت میں جذباتی وابستگی قائم کرلی گئی ہے جس نے ان دونوں ممالک کے تعلقات کو سب سے زیادہ موضوعِ گفتگو بنایا ہے لیکن اب بھی ان تعلقات کے حوالے سے سمجھ بوجھ کی کمی ہے۔
پاکستان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاک-امریکا تعلقات کس بنیاد پر قائم ہوئے اور یہ کہاں کھڑے ہیں۔ اگر ہم یہ نہیں سمجھ سکے تو ہم غیرحقیقت پسندانہ توقعات وابستہ کرلیں گے یا غیرضروری خوف دل میں آ جائے گا، جن کی وجہ سے ہمارا پالیسی ردعمل متاثر ہوسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاک-امریکا تعلقات اب لین دین پر مبنی ہیں جبکہ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی یہ اسی طرح قائم رہیں گے۔ اس سے پاکستان کے لیے اور بھی اہم ہو جاتا ہے کہ وہ حقیقت کا ادراک کرے کیونکہ جذباتی ردعمل تعلقات کو نبھانے میں مؤثر ثابت نہیں ہوں گے۔
’امریکی مخالفت سے گریز کرنا ہوگا‘
کسی ملک کے لیے کچھ بھی کرنے سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ ملک امریکا کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔ وہ پیسے کے زور پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم کیا اور کیسے وعدے کرتے ہیں، اس حوالے سے ہمیں محتاظ ہونا چاہیے۔ یہ اہم ہے کہ امریکا کو خوش کرنے کے لیے ضرورت سے زیادہ کوششیں نہ کی جائیں جیسا کہ ماضی میں کی گئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکا اور پاکستان نے ماضی میں ایک دوسرے کے ساتھ کیسا رویہ روا رکھا ہے اور پاکستان میں مختلف گروہ ان تعلقات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان تعلقات کے حوالے سے قومی اتفاقِ رائے نہ ہونے کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
بہت سے عناصر ہیں، جو پاک-امریکا تعلقات کے حوالے سے ہماری سوچ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ پاکستانی عوام کی اکثریت امریکا مخالف نظریات رکھتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب سیاسی قیادت اور خارجہ پالیسی کے ماہرین پُرامید نظر رکھتے ہیں، امریکا پر انحصار کرتے ہیں اور ماضی کے تجربات کی بنیاد پر غیرحقیقت پسندانہ توقعات رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کی اشرافیہ اکثر مغرب سے شدید متاثر نظر آتی ہے۔
جہاں تک میڈیا اور اسٹریٹجی کمیونٹی کا تعلق ہے تو اکثریت کی آرا ان دو نظریات کے گرد گھومتی ہے۔ یہ لوگ امریکا مخالف نظریات رکھتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ امید رکھتے ہیں کہ پاک-امریکا تعلقات میں ’اچھے دن‘ آئیں گے۔ اور بلآخر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سپورٹرز جو بڑے پیمانے پر امریکا مخالف نظریات رکھتے ہیں وہ بھی واشنگٹن کے لیے کینہ رکھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں مبینہ طور پر امریکا نے عمران خان کی حکومت ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتماد کی سازش رچی تھی۔
امید یہ ہے کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات کے بارے میں زیادہ متوازی تفہیم پیدا کرکے مختلف نظریات اور غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکتا ہے۔ اس سے عوام میں مثبت تاثر جنم لے گا جبکہ اعلیٰ حکام کی غیرحقیقت پسندانہ توقعات کا غبارہ بھی پھٹ جائے گا۔ ایسا کرنے سے عوام اور حکومت ان تعلقات کو جس نظر سے دیکھتے ہیں، ان کے درمیان فرق کم ہو جائے گا جو کسی بھی بڑی عوامی پالیسی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اہم ثابت ہوسکتا ہے۔
یہاں میں یہ کہوں گا کہ امریکا مخالف نظریات رکھنے والا طبقہ امریکی پالیسیز پر جو تنقید کرتا ہے، ان میں سے کچھ درست بھی ہیں لیکن اکثر مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔ ہمیں 1980ء کی دہائی میں افغان جہاد کے دوران پاک-امریکا تعلقات پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ایک جانب یہ درست ہے کہ جہادی تنظیموں بالخصوص اس کے ذیلی گروہوں نے پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصانات پہنچائے ہیں، لیکن دوسری جانب یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ افغان جہاد ہی پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کے قیام کی وجہ بنا۔
سوویت یونین کے جانے اور امریکا کے افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان کے پاس یہ آپشن تھا کہ وہ جہادی انفرااسٹرکچر کو مکمل طور پر تباہ کردے۔ اس کے بجائے ہم نے اپنے اسٹریٹجک مفادات کی خاطر انہیں قائم رہنے دیا۔ ہم جیسے ان کے واحد سرپرست بن گئے۔ ہم تو قانونی طور پر یہ دعویٰ بھی نہیں کرسکتے کہ اس تمام افرتفری میں مسائل حل کرنے کے لیے امریکا نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمارے عدم استحکام کے پیچھے ہماری اپنی کوتاہیاں ہیں۔ تمام عسکریت پسندوں سے اظہار لاتعلقی کیے بنا ہمارے لیے یہ دعویٰ کرنا درست نہیں ہے کہ ہم دہشتگردی سے متاثرہ ہیں۔ ’اچھے یا برے‘، تمام طالبان ایک ہی نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ پاکستانی طالبان، افغان طالبان کے بغیر وجود میں نہیں آتے جبکہ افغان طالبان آج جس مقام پر ہیں، وہ پاکستان کی حمایت کے بغیر نہ ہوتے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔
9/11 کے بعد ہونے والی جنگوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں تھا لیکن پرویز مشرف حکومت کو قانونی حیثیت دینے اور اقتصادی اور فوجی امداد کے بدلے افغان جنگ اور دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان خود شرکت دار بنا۔ اُس حکومت کو تو فوائد حاصل ہوئے لیکن قومی مفادات داؤ پر لگ گئے۔ درحقیقت پاکستان کو فائدے سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ جو بھی معاملہ ہو، آپ ہر چیز کے لیے امریکا کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔
سائفر تنازع
پھر سائفر معاملہ آتا ہے۔ واشنگٹن نے تقریباً 7 دہائیوں تک پاکستان کے ساتھ بنیادی طور پر فوج کے ذریعے بات چیت کی ہے اور اسے ملک کی اندرونی سیاسی حرکیات کے حوالے سے گہری معلومات ہے۔ جیسے ہی عمران خان کی حکومت کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ہٹانے کے اقدام نے زور پکڑا، یہ قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ جس طرح اسٹیبلشمنٹ نے 1988ء میں جمہوری عمل کی بحالی کے بعد سے بار بار سیاسی کردار ادا کیا ویسے ہی اس معاملے میں بھی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے۔ یہ پرانی ریت تھی جس کو لے کر پاکستان میں کسی کو حیرانی نہیں ہوئی۔
تو یہ واشنگٹن کے لیے حیران کُن کیوں ہوگا؟ اگر ماضی میں تبدیلیاں واشنگٹن کی رضامندی، مدد اور سازش کے بغیر ہوچکی ہیں تو اس بار کیا مختلف تھا؟ کیا تب کسی نے امریکا پر الزام لگایا تھا؟ تو اب یہ الزام کیوں لگایا گیا؟
عمران خان اور جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے درمیان دراڑ راتوں رات امریکا کی جانب سے حکم صادر کرنے کی وجہ سے نہیں آئی۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کچھ عرصے سے تناؤ کا شکار تھے جو عوامی سطح پر بھی واضح تھے۔ ملکی تاریخ کے تناظر میں ہم یہ بات جانتے ہیں کہ ایسے تناؤ کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ ماضی میں امریکا کو انگلی بھی اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑی۔
امریکی معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو کی امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید خان سے ملاقات سے بہت پہلے ہی معاملہ امریکا کے مفاد میں جا رہا تھا۔ اس وقت تک واشنگٹن کو واضح ہوچکا تھا کہ عمران خان کی حکومت کا تخت الٹنے والا ہے۔ وہ اس حد تک واقف تھے کہ ڈونلڈ لو نے معمول کی سفارتی شائستگی کو پس پشت ڈالتے ہوئے بنا کسی ہچکچاہٹ کے اگلی صبح پاک-امریکا تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے بات کی۔
اگر یہ سب سازش کا حصہ ہوتا تو کیا ڈونلڈ لو اتنے بے جھجک انداز میں بات کرتے بالخصوص جب عمران خان کی حکومت برطرف بھی نہیں ہوئی؟ ذرا اس بارے میں سوچیے۔
پی ٹی آئی کے سپورٹرز کے تحفظات درست اور قابلِ فہم ہیں لیکن ان کے شکوک و شبہات کہ عمران خان کو برطرف کرنے میں واشنگٹن کا کردار تھا، ان کی یہ سوچ عکاسی کرتی ہے کہ ہمارا ملکی نظام کس طرح کام کرتا ہے۔ اب ان کی امیدیں ہیں کہ شاید امریکا عمران خان کے لیے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے گا، ایک اور خام خیالی ہے۔
واشنگٹن ایک سادہ سی وجہ کی بنا پر مداخلت نہیں کرے گا۔ پاکستان سے امریکا کے کوئی بھی ایسے ضروری مفادات وابستہ نہیں، جنہیں موجودہ حکومتی نظام سے نقصان پہنچ رہا ہو اور عمران خان کے آنے سے وہ بہتر ہو جائیں۔ کسی بھی صورت میں امریکا جانتا ہے کہ ان کی مداخلت سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ امریکا کے لیے یہ معمولی معاملہ ہے جو پاکستان کی اندرونی سیاست کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ کانگریس اراکین کے خطوط اکثر درمیانی نوعیت کے ہوتے ہیں جو ایک سیاسی طریقہ ہے تاکہ ووٹرز مطمئن ہوں اور انسانی حقوق پر توجہ مرکوز رکھنے میں مدد ملے لیکن یہ خطوط اتنی کم اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کہ ان سے امریکی مفادات کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔
’حقیقت پسندی سے کام لینا ہوگا‘
پاک-امریکا تعلقات کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے ہمارے لیے اہم یہ ہے کہ ہم امریکی مخالف نظریات میں نرمی برتیں۔ یہ سچ ہے کہ کچھ امریکی پالیسیز کی مذمت کرنا ہمارا اخلاقی فریضہ ہے، جیسے واشنگٹن کی اسرائیل کے اقدامات کی حمایت۔ 75 سالوں تک مالی اور عسکری امداد مہیا کرکے امریکا نے اسرائیل کو بڑی طاقت بننے میں معاونت دی۔ غزہ میں اسرائیل نے 46 ہزار سے زائد شہریوں کو شہید کیا جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ امریکا کی غیرمشروط سیاسی حمایت بالخصوص اقوامِ متحدہ میں ویٹو کرکے امریکا نے اسرائیل کو تحفظ فراہم کیا جس کی بنا پر اس نے مزید جرائم اور خلاف ورزیاں کیں جبکہ امریکا نے اس کی پشت پناہی جاری رکھی۔
بدقسمتی اپنی غیر مؤثر سفارتی پوزیشن کے پیش نظر پاکستان اس حالت میں نہیں ہے کہ وہ واشنگٹن کی عالمی پالیسیز پر اثر انداز ہوسکے۔ دوسروں کی طرح، ان پالیسیز سے چاہے ہم اتفاق نہ کریں تب بھی ہمیں انہیں کے ساتھ گزارا کرنا ہے۔ ایسا کرنے سے ہم پاکستان کے حوالے سے امریکی پالیسیز کو جذباتی ہوئے بغیر دیکھیں گے، جو میرٹ کی بنیاد پر ہوں گے۔
ہاں، پاک-امریکا تعلقات نے پاکستان کو فوائد سے زیادہ نقصانات پہنچائے ہیں لیکن اس کے لیے صرف واشنگٹن کا احتساب نہیں کیا جاسکتا۔ یہ پاکستان اور امریکا کی قیادت کے درمیان شراکت داری تھی جس میں پاکستان کو پالیسیز کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اگرچہ ملک کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن حکومت کو فائدہ ہوا۔
پاکستانیوں میں بڑے پیمانے پر یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ امریکا ایک قابلِ بھروسہ پارٹنر نہیں ہے۔ یہ کسی حد تک درست ہے لیکن یہ بے اعتباری اکثر امریکا کی ملکی سیاست اور عالمی مفادات کے درمیان تصادم کی وجہ سے ہوتی ہے جو ہمیشہ چھوٹے اتحادیوں کی مقامی اور علاقائی ترجیحات سے ہم آہنگ نہیں ہوتے۔ واشنگٹن کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھاؤ بے اعتباری سے زیادہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ خطے میں اس کے عارضی مفادات کس طرح تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
جہاں تک پاک-امریکا تعلقات کے حکومتی بیانیے کی بات ہے تو اسے اکثر ’اچھے دنوں’ سے منسلک کیا جاتا ہے کہ جب پاکستان کو امریکا کی جانب سے ڈالرز کی بھاری امداد موصول ہوتی تھی اور سیکیورٹی معاونت ملتی تھی۔ قیادت بار بار یہ احساس دلا کر امریکی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ چین اور امریکا کے درمیان پُل کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ درحقیقت یہ دعویٰ مضحکہ خیز ہے لیکن بدترین یہ ہے کہ یہ دعویٰ کرتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظرنامے میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں اور پاکستان کے کم اثر و رسوخ کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔
موجودہ تعلقات کی تفہیم فراہم کرنے میں ہمارے لیے بہتر ہوگا کہ ہم ان تعلقات کا موازنہ سرد جنگ کے ابتدائی سالوں اور تعلقات کے بہتر دنوں سے کرنا چھوڑ دیں۔ وہ دور ختم ہوچکا اور پاکستان بھی اب پہلے جیسا نہیں رہا۔
’پاک-امریکا تعلقات کبھی بھی اسٹریٹجک نہیں تھے‘
اگر ہماری ملکی قیادت کو کسی طرح کی امید ہے کہ تعلقات پہلے جیسے ہوجائیں گے تو یہ خام خیالی ہے۔ اس معاملے میں ہم جتنا حقیقت پسندی سے کام لیں گے، اتنا ہی ہمیں معاملات واضح طور پر نظر آئیں گے۔ اس سے ہمارے سیاسی رہنماؤں اور خارجہ پالیسی کے ماہرین دونوں کا یہ مؤقف بھی چیلنج ہوگا کہ دونوں ممالک کے آپس میں اسٹریٹجک تعلقات تھے۔
تاریخی اعتبار سے دونوں ممالک کبھی کسی مسئلے میں اتحادی تھے تو کسی میں مخالف۔ حتیٰ کہ جب تعلقات بہترین تھے تب بھی پاکستان اور امریکا کے تعلقات کسی نہ کسی مقصد کے گرد گھومتے تھے۔ اس میں کوئی حیرانی نہیں دونوں فریقین کے مفادات ماضی میں جزوی طور پر پورے ہوئے لیکن ان کی فریقین کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی اور اہم ترجیحات داؤ پر لگ گئیں۔
طویل مدتی باہمی مفادات نہ ہونے کی وجہ سے دونوں کے درمیان کبھی بھی اسٹریٹجک تعلقات قائم نہ ہوسکے۔ اس طرح کے تعلقات دونوں ممالک کے دیگر مفادات کے منافی ہوں گے۔ مثال کے طور پر یہ ماضی میں تضادات کا باعث بنتا رہا ہے جیسے جوہری معاملے پر باہمی تعلقات میں تحفظات اور دوسرے ممالک بالخصوص چین اور بھارت کے ساتھ ان کے تعلقات میں اختلافات وغیرہ۔
ان تحفظات کی پاکستانی میزائل پروگرام پر تازہ ترین امریکی پابندی سے زیادہ بہترین مثال کوئی نہیں ہوسکتی۔ پاکستان اور امریکا واضح طور پر اس پروگرام کو مختلف نظریے سے دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے پروگرام پر پابندیاں لگانے کا تعلق بھارت کے سیکیورٹی خدشات سے ہے اور اسے نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم امریکا نے مؤقف اپنایا ہے کہ پاکستان کا میزائل سسٹم امریکی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ پروگرام کے حوالے سے یہ گمراہ کُن مؤقف اختیار کرکے خطے میں اسٹریٹجک عدم توازن بہتر بنانے کی کوشش کی تاکہ چین سے مقابلہ کرنے کی بھارت کی طاقت میں اضافہ ہو۔ تاہم اس معاملے کو آنے والی ٹرمپ انتظامیہ کے سامنے ریڈ الرٹ کے طور پر اٹھانا، دوستانہ اقدام نہیں ہوگا۔
’پاک-امریکا تعلقات ضروری ہیں‘
پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات ضروری ہیں لیکن پاکستان کا امریکا پر انحصار کرنا ضروری نہیں۔ پاک-امریکا تعلقات کا رسمی اتحاد قائم کیے بغیر بھی ایک مستقبل ہے جسے خراب تعلقات کے طور پر ہر گز نہیں دیکھنا چاہیے۔ درحقیقت یہ تو فائدہ مند بھی ہوسکتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے امریکی امداد نے پاکستان میں خراب گورننس بہتر کرنے میں مدد کی ہے جبکہ ملک کے اپنے قومی مفادات کے خلاف کام کرنے کے لیے اشرافیہ پر دباؤ ڈالنے کے لیے واشنگٹن کو فائدہ پہنچایا۔
امریکا کے ساتھ مکمل تعلقات ختم کردینا تو آپشن ہی نہیں ہے۔ جدوجہد کرتے پاکستان اور اس کی قرضوں میں ڈوبی معیشت کو بیرونی مدد کی ضرورت ہے۔ یہ مدد نہ صرف چین، خلیجی ممالک اور مغرب سے درکار ہے بلکہ ہمیں بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے بھی امداد چاہیے جوکہ واضح طور پر امریکا کے زیرِ اثر ہیں۔
ابھی ہماری بنیادی توجہ اس بار پر مرکوز ہونی چاہیے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان مستقبل کے تعاون وسیع تر قومی مفادات پر مبنی ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معمول کے معاشی اور کاروباری تعلقات استوار کرنے کے ساتھ ساتھ سلامتی کے مشترکہ چیلنجز جیسے دہشتگردی سے نمٹنے میں تعاون کی ضرورت ہوگی۔ دونوں ممالک انسدادِ دہشتگردی سے متعلق کیا حکمت عملی اپناتے ہیں، یہ اہم ہوگا۔ جبکہ افغانستان میں استحکام قائم کرنے سے ان کے باہمی مفادات وابستہ ہیں۔
اس کے علاوہ جغرافیائی سیاسی عناصر بھی ہیں۔ امریکا، پاکستان میں چین کے بڑھتے ہوئے سیاسی اور معاشی اثر و رسوخ پر قریب سے نظر رکھنا چاہے گا جبکہ وہ یہ بھی یقینی بنائے گا کہ پاکستان انڈو-پیسیفک اسٹریٹجی میں بھارت کے کردار کو کمزور نہ کرے۔ اس کے حصول کے لیے آپس میں روابط کی ضرورت ہوگی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں کبھی بھی ہمیں یہ عندیہ یا تاثر نہیں ملا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اس طرح کے کسی بھی تعاون کی مخالفت کریں گے۔
اس کے باوجود میں محتاط انداز میں تحریر کا اختتام کروں گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ہوتے ہوئے آپ کچھ بھی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے۔ میں ان کی کابینہ میں شامل چین مخالف عہدیدران یا قومی سیکیورٹی کونسل کے حوالے سے پریشان نہیں ہوں۔ زیادہ تر انتظامیہ میں کابینہ اراکین کو مشیر کی اہمیت دی گئی لیکن ٹرمپ انہیں ایسے افراد کے طور پر دیکھتے ہیں جو ان کا حکم بجا لائیں گے۔ ان کی صدارت ون مین شو ہوگی۔ تو ابھی اس حوالے سے کوئی مؤقف اختیار کرنا مشکل ہوگا کہ پاکستان کے حوالے سے وہ کیا پالیسیز اپناتے ہیں۔
بدتر کے لیے تیاری کرتے ہوئے ہم اچھے کی امید ہی کرسکتے ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری سابق سفیر ہیں اور جارج ٹاؤن اینڈ سائراکس یونیورسٹی سے بطور ایڈجنکٹ فیکلٹی وابستہ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔