’مراکش کشتی حادثہ نہیں قتل عام تھا‘، حادثے میں بچ جانے والے پاکستانیوں کے ہوشربا انکشافات
مراکش کشتی حادثے میں بچ جانے والے پاکستانیوں نے انکشاف کیا ہے کہ ڈوبنے والی کشتی کے مسافروں سے کھلے سمندر میں تاوان مانگا گیا، تاوان دینے والے 21 پاکستانیوں کو چھوڑدیا گیا جب کہ زیادہ تر اموات سرد موسم اور تشدد کے باعث ہوئیں۔
ڈان نیوز کے مطابق مراکش کشتی حادثے میں زندہ بچ جانے والے پاکستانیوں نے وزیراعظم شہباز شریف کی تشکیل کردہ کمیٹی کو اپنے بیانات ریکارڈ کروادیے ہیں جس میں ہوشرما انکشافات کیے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے مراکش کے لیے ایک حکومتی ٹیم بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا، جس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (نارتھ) منیر مارتھ، ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ سلمان چوہدری اور وزارت خارجہ اور انٹیلی جنس بیورو کے نمائندے شامل ہیں۔
کشتی حادثے میں زندہ بچ چانے والے پاکستانیوں نے تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ مراکش کشتی حادثہ نہیں بلکہ قتل عام تھا، مراکش میں ڈوبنے والی کشتی کے مسافروں سے کھلے سمندر میں تاوان مانگا گیا تھا، تاوان دینے والے 21 پاکستانیوں کو چھوڑ دیا گیا۔
کمیٹی کو ریکارڈ کیے گئے ابتدائی بیانات میں متاثرین کا کہنا تھا کہ کشتی میں سوار بیشتر لوگ سرد موسم اور تشدد کے باعث ہلاک ہوئے، کشتی میں موجود افراد کو کھانے پینے کی قلت کا بھی سامنا تھا۔
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ کے مطابق زندہ بچ جانے والے مسافروں نے بتایا کہ اسمگلروں کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر ان پر تشدد کیا جاتا تھا اور بعض مسافروں کو سمندر میں پھینک دیا گیا۔
مراکش کی بندرگاہ دخلہ کے قریب کشتی حادثے میں زندہ بچ جانے والے عزیر بٹ نے بتایا کہ ہمارا سفر 2 جنوری کو شروع ہوا مگر 5 جنوری کو رات کی تاریکی میں کشتی کو ایسے ویران مقام پر روک دیا گیا تھا جہاں سے کوئی دوسری کشتی نہیں گزر رہی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اسمگلروں نے کشتی پر موجود سردی گرمی سے بچانے والا ترپال، ہمارے کپڑے، کھانے پینے کی اشیا، موبائل سب کچھ چھین لیا تھا اور کشتی کو اسی مقام پر بند کر کے خود دوسری کشتی میں بیٹھ کر چلے گئے۔
عزیر بٹ نے کہاکہ اسمگلروں نے کشتی کو لاک کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ پانی کی سطح پر خود بھی بہت زیادہ نہیں چل سکتی تھی۔
گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک اور پاکستانی شہری مہتاب شاہ کے مطابق اگلی صبح کچھ لوگ ایک اور کشتی میں سوار ہو کر آئے اور انہوں نے منڈی بہاالدین کے 4 لڑکوں کو اپنے پاس بلانے کے بعد ان کے سر اور چہرے پر ہتھوڑے سے ضربیں لگائی جس کے بعد انہیں سمندر میں پھینک دیا۔
انہوں نے کہا کہ ان 4 لڑکوں کو سمندر میں پھینکنے کے بعد باقی سب لوگوں کو لاتوں، مکوں اور ڈنڈوں سے مارا گیا، ہم لوگ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ وہ ہمیں کیوں تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
مہتاب شاہ نے مزید کہنا تھا کہ وہ ایک ایسا علاقہ تھا جہاں پر سمندر میں کوئی بھی کشتی نہیں گزر رہی تھی، 10 دنوں تک اسمگلر روزانہ ایک دوسری کشتی پر وہاں پہنچتے تھے اور کچھ لوگوں پر تشدد کرکے انھیں سمندر میں پھینک دیتے تھے۔
اس سے قبل، واکنگ بارڈرز کی سی ای او ہیلینا مالینو نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا تھا کہ’ ڈوبنے والوں میں سے 44 کا تعلق پاکستان سے تھا، جنہوں نے گزشتہ 13 دن اذیت میں گزارے لیکن کوئی انہیں بچانے کے لیے نہیں آیا۔
واضح رہے کہ 16 جنوری کو مغربی افریقہ کے راستے غیر قانونی طور پر اسپین جانے والی کشتی حادثے کا شکار ہوگئی تھی جس میں 44 پاکستانیوں سمیت 50 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم واکنگ بارڈرز نے کہا ہے کہ مغربی افریقہ سے کشتی کے ذریعے اسپین پہنچنے کی کوشش کے دوران حادثے کا شکار ہوئی۔
مراکش کے حکام کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز حادثے کا شکار ہونے والی تارکین وطن کی ایک کشتی سے 36 افراد کو بچایا گیا جس میں 86 تارکین وطن سوار تھے، جن میں 66 پاکستانی بھی شامل تھے۔
بعد ازاں، ترجمان دفتر خارجہ نے حادثے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسپین جانے کی کوشش کے دوران حادثے کا شکار ہونے والی تارکین وطن کی کشتی میں 80 مسافر سوار تھے، دفتر خارجہ نے بچنے والے 21 پاکستانی شہریوں کی فہرست جاری کی تھی۔