موسمیاتی تبدیلی: پاکستان میں تیزی سے پھیلتی لیشمینیاسس کی وبا اور اس کے نفسیاتی اثرات
شبنم بی بی ضلع خیبر کے شہر لنڈی کوتل میں طبی مرکز میں لگی طویل قطار میں کھڑی طبی امداد کی منتظر ہیں۔ یہ 19 سالہ خاتون تین بچوں کی ماں ہیں جو اپنے چہرے پر ایک بڑا زخم دکھاتی ہیں۔ ان کے بائیں گال پر ایک بڑا نشان ہے جو ان کی ناک کی طرف پھیل رہا ہے۔ جلد کے انفیکشن نما یہ بیماری لیشمینیاسس کی واضح علامت ہے جو ریت کی مکھی (انڈور سینڈ فلائی) کے کاٹنے سے پھیلتی ہے۔
چہرے کا یہ زخم تقریباً 46 دن پہلے نمودار ہوا تھا۔ شبنم بی بی نے پہلے تو اس زخم کو نظرانداز کیا لیکن آہستہ آہستہ ان کی حالت خراب ہوتی چلی گئی جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں سے الگ تھلگ رہنے پر مجبور ہوگئیں کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ یہ بیماری کہیں ان کے بچوں میں منتقل نہ ہوجائے۔
شبنم بی بی کا سب سے چھوٹا بیٹا 7 ماہ کا ہے جو اپنی دادی کی گود میں رہتا ہے۔ دو ماہ پہلے اس بچے کو بھی ریت کی مکھی نے کاٹ لیا تھا جس کی وجہ سے اس کے چھوٹے سے ہاتھ پر سوجن اور گلٹی بن چکی ہے۔ اپنے اسکارف کو مضبوطی سے تھامے شبنم کو اپنی صورت کی فکر ہے اور وہ اپنے بچوں کو بہت یاد کرتی ہیں۔
شبنم بی بی کا تعلق اس ضلع کے ایک دور افتادہ، پہاڑی اور پسماندہ علاقے شلمان سے ہے جو صوبہ خیبرپختونخوا میں واقع ہے۔ اس طبی مرکز میں ان کی طرح اور بھی بہت سے لوگ ہیں جو اسی طرح کی آزمائش میں مبتلا ہیں۔ ان لوگوں کو شدید گرمی کی لہر اور بڑھتی ہوئی خشک سالی اور اس پتھریلی زمین میں درد اور غربت کا سامنا ہے۔
شبنم بی بی، لیشمینیاسس کے جسمانی اور نفسیاتی دونوں پہلوؤں سے نبرد آزما ہیں جس نے انہیں خوف میں مبتلا کیا ہے اور وہ بدنامی کے ڈر سے الگ تھلگ رہتی ہیں۔ یہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ کس طرح لیشمینیاسس جیسی نظر انداز کی جانے والی بیماریاں نہ صرف جسم بلکہ معاشرے کے کمزور طبقات بالخصوص خواتین اور بچوں کی زندگی تباہ کرسکتی ہیں۔
وہ بیماری جسے نظرانداز کردیا گیا
پشاور میں ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) کی ایکٹیویٹی منیجر حلیمہ خالد کہتی ہیں کہ ’لیشمینیاسس نظر انداز کی جانے والی ان آٹھ بیماریوں میں شامل ہے جو زیادہ تر غریب برادریوں کو متاثر کرتی ہیں۔ آگاہی میں کمی کی وجہ سے اس بیماری کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ دیگر بیماریوں کے لیے وسیع پیمانے پر تحقیق اور علاج کے اختیارات موجود ہوتے ہیں لیکن لیشمینیاسس پر بہت ہی کم توجہ دی جاتی ہے‘۔
اس مرض کی ابتدائی علامت ایک چھوٹی، خارش والی گلٹی ہوتی ہے جس میں درد بھی نہیں ہوتا۔ فوری علاج نہ ہو تو لیشمینیاسس کے زخموں میں اضافہ ہوجاتا ہے جبکہ درد کی شدت بھی بڑھ جاتی ہے۔ پشاور یونیورسٹی کی پروفیسر اور لیشمینیاسس میں مہارت رکھنے والی ناظمہ حبیب کہتی ہیں کہ ’ریت کی مکھی کے کاٹنے کے بعد یہ علامات ہفتوں سے مہینوں میں ظاہر ہوتی ہیں اور آہستہ آہستہ کاٹنے کی جگہ پر سرخ دھبے نمایاں ہونے لگتے ہیں‘۔
وہ بتاتی ہیں کہ نومبر اور مارچ کے درمیان سب سے زیادہ کیسز سامنے آتے ہیں۔ ’موسمِ گرما کے دوران ریت کی مکھیوں کے ذریعے بیماری کی منتقلی کے بعد، انکیوبیشن کا دورانیہ ہوتا ہے جس سے زخم پیدا ہوتے ہیں‘۔
متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ
خیبرپختونخوا کے 7 قبائلی اور 6 جنوبی اضلاع کے کئی علاقے لیشمینیاسس کی لپیٹ میں آچکے ہیں جس سے علاقے میں صحت عامہ کا شدید بحران پیدا ہوچکا ہے۔
2018ء سے پہلے شاذ و نادر لیشمینیاسس کی وبا پھیلتی تھی جس میں کیسز کی تعداد زیادہ سے زیادہ سیکڑوں میں ریکارڈ ہوتی تھی لیکن دور دراز علاقوں میں غیر متضاد رپورٹنگ اور کم تشخیص کی وجہ سے کیسز کی درست تعداد مختلف ہوتی تھی۔ محکمہ صحت خیبر پختونخوا کے انٹیگریٹڈ ڈیزیز سرویلنس اینڈ ریسپانس سسٹم سے حاصل کردہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ یہ بیماری اس تناسب تک پہنچ چکی ہے کہ اسے وبا قرار دے دیا جائے۔
نومبر 2018ء سے جولائی 2019ء کے درمیان 28 ہزار، 2021ء میں 3 ہزار 177، 2022ء میں 18 ہزار 189، 2023ء میں 25 ہزار جبکہ اگست 2024ء تک لیشمینیاسس کے مزید 14 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے۔
صرف ضلع خیبر میں محکمہ صحت کی جانب سے اکتوبر اور نومبر 2024ء کے دوران دو ہزار 400 کیسز درج کیے گئے۔ خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں کی گئی ایک تحقیق میں اکتوبر 2018ء سے دسمبر 2020ء کے درمیان دو ہزار 603 متاثرہ مریض ریکارڈ کیے گئے۔ اس ضلع کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں جہاں لیشمینیاسس عام ہے۔ اس تحقیق میں ہر عمر کے لوگوں میں چہرے کے زخموں کی نشان دہی کی گئی ہے لیکن یہ بیماری بچوں اور خواتین میں سب سے زیادہ پائی گئی۔
2022ء میں میڈیسنز سائنس فرنٹیئرز واحد ادارہ تھا جس نے خیبر پختونخوا میں علاج کے مراکز قائم کیے۔ ایک پشاور جبکہ ایک بنوں میں قائم کیا گیا۔ ان مراکز میں سے ہر ایک میں روزانہ اوسطاً 300 سے 500 مریض آتے ہیں۔ کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد نے محکمہ صحت کو خیبر کے قبائلی اضلاع (لنڈی کوتل، جمرود اور باڑہ) میں مزید تین مراکز کھولنے پر مجبور کیا ہے۔
تاہم مقامی بازاروں میں ضروری ادویات کی کمی اور علاج کے محدود مراکز کی وجہ سے دورافتادہ علاقوں میں مقیم متاثرین بروقت علاج نہیں کروا پاتے۔ ان عوامل سے بیماری کی شدت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
آب و ہوا کی تبدیلی اور تنازعات
حلیمہ خالد نے بتایا کہ ریت کی مکھی طویل عرصے سے موجود ہے لیکن موسم میں شدید اتار چڑھاؤ (بشمول طویل خشک سالی، ہیٹ ویو اور سیلاب) اس کی آبادی میں اضافے کو ہوا دے رہے ہیں کیونکہ یہ نسل زیادہ نمی اور گرم موسم میں پھلتی پھولتی ہے۔
2017ء میں خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ (قبائلی ضلع خیبر سے تقریباً 80 کلومیٹر شمال مشرق) میں کی گئی ریت کی مکھی کے حوالے سے ایک سالہ تحقیق میں سامنے آیا کہ انڈور سینڈ فلائی کی تعداد میں اضافے کا نمی اور درجہ حرارت کے ساتھ تعلق ہے۔
بہت سے عوامل میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی، آبادی میں اضافہ اور صفائی ستھرائی کی ناقص صورت حال بھی ریت مکھی کی آبادی میں اضافے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
حلیمہ کہتی ہیں کہ ’آب و ہوا کی وجہ سے آبادی کی نقل و حرکت بھی اس کے پھیلاؤ میں کردار ادا کرتی ہے کیونکہ مقامی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد اس بیماری کو غیر مقامی علاقوں میں لے جا سکتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے متاثرہ علاقوں کی آبادی بھی سازگار ہے خاص طور پر اس کے جنوبی اور قبائلی اضلاع میں جہاں کچے مکانات، مرطوب موسم اور صفائی ستھرائی کا ناقص نظام موجود ہے‘۔
افغانستان میں دہائیوں سے جاری جنگ کی وجہ سے پناہ گزینوں کی آمد میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ اندرونِ ملک ہونے والی نقل مکانی سے مختلف ہے جو افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر عسکریت پسند گروہوں کے درمیان تقریباً 20 سال سے جاری تنازعے اور خیبرپختونخوا کے اندر انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ان عوامل کی وجہ سے جنگلات کی کٹائی اور شکار جیسی سرگرمیوں کے ذریعے قدرتی وسائل کا حد سے زیادہ استحصال ہوا ہے۔
1997ء میں خیبرپختونخوا کے ضلع دیر میں افغان پناہ گزین کیمپ میں لیشمینیاسس کی ایک بڑی وبا پھیلی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ 12 ماہ کی مدت میں کیمپ کے 9 ہزار سے زائد رہائشیوں میں سے ایک تہائی سے زائد افراد لیشمینیاسیس میں مبتلا ہوئے۔ اس وبا کے بارے میں 1999ء کی ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ اس مقام پر اس سے پہلے کبھی بھی لیشمینیاسس کی اطلاع نہیں ملی تھی۔ حلیمہ کہتی ہیں کہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی وجہ سے ریت کی مکھیوں کی افزائش میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
خیبرپختونخوا کے محکمہ صحت کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’صحت اور ماحولیات کے بارے میں بات چیت کبھی بھی تنازعات کی حکمت عملی کا حصہ نہیں رہی‘۔ ان کا کہنا ہے کہ تنازعات کی وجہ سے صحت کے شعبے کو بار بار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ان کے محکمے کے اعداد و شمار سے سامنے آیا کہ صحت کی سہولیات ان بنیادی انفرااسٹرکچر میں شامل ہیں جو خطے میں عسکریت پسندوں کی طویل لڑائی کی وجہ سے بری طرح تباہ ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ صحت کے شعبے کی این جی اوز پر حکومت کی پابندی نے عام طور پر صحت عامہ سے متعلق آگاہی مہمات میں رکاوٹ ڈالی ہے۔
بیماری کے نفسیاتی اثرات
’میرے دوست جب مجھے دیکھتے ہیں تو فاصلہ برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اس خوف سے کہ میں انہیں بھی متاثر کر سکتا ہوں جس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ اس لیے میں اب اکیلا بیٹھتا ہوں‘، یہ کہنا تھا 12 سالہ سدیس کا جس کی ناک پر ایک زخم ہے۔ سدیس خیبر کے ایک قصبے جمرود میں اپنے دو کمروں کے گھر میں دو بھائیوں کے ساتھ فرش پر سوتے ہیں۔
اس خطے کی قبائلی ثقافت یہ ہے کہ جب شدید سرد موسم ہوتا ہے تو ناظمہ کے مطابق، خواتین کو اکثر اپنے گھروں سے اکیلے باہر نکلنے یا طبی امداد حاصل کرنے سے روک دیا جاتا ہے کیونکہ روایت کے مطابق مرد ڈاکٹرز کو خواتین کا علاج کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ڈاکٹرز سے زیادہ تر مشورہ صرف اس وقت کیا جاتا ہے جب کوئی بیماری قابو سے باہر ہو جاتی ہے۔ لہٰذا یہ وبا خواتین کو جسمانی اور نفسیاتی دونوں طرح سے نقصان پہنچاتی ہے۔
ناظمہ کہتی ہیں، ’اس مسئلے کے کئی پہلو ہیں، خاص طور پر خیبرپختونخوا کے تنازعات اور موسمیاتی آفات سے متاثرہ دور دراز علاقوں میں جہاں صحت کی سہولیات نایاب ہیں وہیں خواتین اکیلے سفر نہیں کر سکتیں یا انہیں اسپتال نہیں لے جایا جاتا۔
’یہ بیماری مہلک نہیں ہے لیکن اس کے بچوں اور خواتین پر سنگین نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں جن کا اکثر اسکولز، معاشرے اور یہاں تک کہ گھروں میں بھی مذاق بنایا جاتا ہے اور متاثرین کو الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے۔ یہ زخم جسم پر دیرپا داغ چھوڑ جاتا ہے اور مریضوں میں ان کے تجربات کی وجہ سے غصے اور مایوسی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں‘۔
ناظمہ کا کہنا ہے کہ چونکہ لیشمینیاسس چہرے اور جسم پر داغ چھوڑتا ہے، لہٰذا یہ مریض کے اپنے بارے میں تصور کو مستقل طور پر متاثر کرسکتا ہے۔ نوجوان لڑکیوں پر اس کے نفسیاتی اثرات شدید ہوسکتے ہیں۔ یہ داغ سماجی بدنامی اور تنہائی کے احساسات کو جنم دے سکتے ہیں، خود اعتمادی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور شادی کے امکانات بھی کم ہو سکتے ہیں۔ یہ اثرات خاص طور پر ایک ایسے معاشرے میں نقصان دہ ہیں جہاں گوری جلد اور چہرے کی خوبصورتی کو لڑکیوں کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے۔
پشاور یونیورسٹی میں پیراسائٹولوجی کے ڈاکٹر قیصر جمال کے ساتھ اس کے حل پر تبادلہ خیال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بیماری کی مؤثر روک تھام کے لیے متعدد طریقے ضروری ہیں جن میں بہتر عوامی آگاہی، قابلِ رسائی صحت کا نظام اور مفت ادویات شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’محکمہ صحت کو بروقت علاج شروع کرنے اور پیچیدگیوں کو روکنے کے لیے فوری اور درست تشخیص کرنی چاہیے‘۔
ہیڈر: کچلاک میں واقع میڈیسنز سائنسز فرنٹیئرز لیشمینیاسس ٹریٹ منٹ سینٹر میں ایک خاتون کو طبی امداد دی جا رہی ہے— تصویر: گل نایاب/ میڈیسنز سانز فرنٹیئرز
یہ تحریر ڈائیلوگ ارتھ سے لی گئی ہے۔
لکھاری فری لانس صحافی ہیں جبکہ ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلیوں پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے تعلیم سمیت متعدد مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ آپ کا ایکس ہینڈل fawadalishah84@ ہے-
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔